پاوہ شہر کے اہل سنت امام جمعہ ماموستا ملا قادر قادری کی یادداشتیں

ماموستا 49

مصنف: علی رستمی

ترجمہ: ضمیر علی رضوی
ویرائش: یوشع ظفر حیاتی

2025-09-22


پاوہ کے مدرسۂ قرآن کی تأسیس(حصہ اول)

شاہ کے پاوہ کے سفر[1] سے ایک سال قبل، کاؤنٹی کے کچھ جوان مولاناؤں کو گرفتار کرکے لازمی ملٹری سروس کے لیے روانہ کردیا گیا تھا۔ اس کے باوجود کہ ملا ناصر سبحانی، ملا عبد الرحمٰن رحیمی اور ملا احمد بہرامی صاحب[2]، صاحب عمامہ تھے اور ان میں سے کچھ شادی شدہ بھی تھے اور دینی وظیفے کے مطابق، علاقے کے مسلمانوں کی توقع یہ تھی کہ صاحب مولاناؤں کے احترام کا خیال رکھا جائے اور ذمہ داران ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کریں، گرفتاری کے بعد، ان کے سروں سے عمامے اتار لیے گئے اور وہ کہتے ہیں ناں زیر پرچم ایران، لازمی ملٹری سروس کے لیے انہیں بھیج دیا گیا۔ لوگ، حالات کا بڑی اچھی طرح سے جائزہ لے رہے تھے اور اس سے باخبر تھے کہ مولاناؤں کی گرفتاری اور انہیں دور دراز کے علاقوں میں بھیجنا، در حقیقت ایک قسم کی جلاوطنی اور مسلمانوں اور علمائے دین کے درمیان دوری ڈالنا ہے تاکہ وہ اپنے زعم میں ان کا عوام سے رابطہ منقطع کرسکیں۔ شاہ کے عہدے داروں کا یہ اقدام کہ جو کبھی دینی رنگ اور وہابیت سے مقابلے کے نام سے کیا جاتا تھا، نماز جماعت اور نماز جمعہ نہ ہونے اور دینی فرائض کی انجام دہی میں دیہاتوں کے بہت سے لوگوں کی پریشانی کا باعث بنا۔ یہ اس وقت تھا کہ جب شاید ہمارے بہت سے مولانا، وہابیوں کے فکری دھارے سے آگاہ نہیں تھے اور کُردستان میں انہوں نے اس فرقے کے نام اور سرگرمیوں کے بارے میں کچھ نہیں سنا تھا اور ان میں سے کچھ صوفی مسلک اور اہل عرفان تھے۔

جب میں پاوہ لوٹا تو میرے وہی طالب علمی کے زمانے کے دوست زبردستی لازمی ملٹری سروس کے لیے گئے ہوئے تھے یا لازمی ملٹری سروس سے لوٹ آئے تھے یا ان کی لازمی ملٹری سروس ختم ہونے والے تھی۔ ان جوان مولاناؤں کی لازمی ملٹری سروس ختم ہونے اور ان کے واپس آنے سے ہمیں ایک سنہری موقع ملا اور سات جوان مولاناؤں کے ساتھ ہم نے ’مدرسۂ قرآن‘ کے نام سے ایک ثقافتی مرکز کی بنیاد رکھی۔

ہم سات لوگوں کے نام یہ تھے: میں، جناب ملا امین قادری نجار، ملا سید عبد القادر عزیزی خانقاہ، ملا ناصر سبحانی دوریسان، ملا عبد الرحمٰن یعقوبی پاوہ، ملا حسین حسینی تازہ آباد اور ملا عبد الرحمٰن ولدبیگی نوریاب۔ علاقے میں ان سات جوان مولاناؤں کا اثر و رسوخ اتنا تھا کہ مختصر سے عرصے میں ہی قریب دو سو اساتید، اسکول اور یونیورسٹی طلباء دانستہ طور پر اس ثقافتی مرکز کے ممبر بن گئے۔

ہم نے جامع مسجد کے قریب جناب صوفی جعفر بابائی کا گھر کرائے پر لے لیا۔ جناب ملا عبد الرحمٰن یعقوبی جن کو زیادہ تجربہ تھا اور وہ شہر میں بھی زیادہ رہے تھے اور جناب حیدر ضیائی جنہیں ٹیچنگ کا زیادہ تجربہ تھا، مدرسہ چلانے میں ہم سب سے زیادہ مہارت رکھتے تھے۔ انہوں نے مدرسے کی سربراہی کی ذمہ داری سنبھال لی اور ایک منظم شیڈول کے ساتھ مدرسہ شروع ہوگیا۔

منصوبہ بندی کے مطابق ہم تقریباً دس اساتید اکٹھا ہوتے تھے اور مختلف سحطوں کے جوانوں کی تعلیم میں بہت جوش اور شوق کے ساتھ مشغول ہوجاتے تھے۔ شروع میں ہمارا ہدف صرف قرآنی تعلیم اور جوانوں کی تربیت تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہم نے سیاسی مسائل کو بھی اس میں شامل کرلیا۔ ہمارا کوئی تنظیمی رابطہ نہیں تھا؛ یہاں تک کہ شروع میں سنندج کے مدرسۂ قرآن اور اس کے مؤسس جناب کاک احمد مفتی زادہ کے ساتھ ہمارا رابطہ بہت کمزور تھا، لیکن بعد میں یہ خلا پر ہوگیا اور ہمارے وسیع پیمانے پر تعلقات قائم ہوئے۔

ربیع الاول کے مہینے میں کہ جس میں گاؤں اور شہر میں جشن میلاد رسول اکرم(ص) منعقد کیے جاتے تھے، ہم جیسے لوگوں کو موقع ملتا تھا کہ ہم اس جشن میں عوام کی شعور دینے کے لیے اہم ترین مذہبی مسائل کو بیان کریں اور عوام کے لیے خاتم الانبیاء(ص) کی رسالت کے اہداف کو بیان کریں۔ گزشتہ کئی سالوں میں جشن میلاد بہت سادہ اور صرف مولود خوانی کی حد تک ہوا کرتا تھا، لیکن ہم نے آہستہ آہستہ اسے ایک بے جان اور تھکا دینے والی تقریب سے ایک روحانی اور سیاسی تقریب میں بدل دیا۔

اس تقریب سے پہلے، جشن میلاد میں صرف لوگوں کی ظہرانے یا عشائیے کی دعوت کی جاتی تھی اور یہ جشن حد سے حد ایک نعت خوانی اور کتاب مولود نامہ پڑھنے تک محدود تھا کہ جس کا عوام کی عمومی بیداری میں کوئی کردار نہیں تھا؛ لیکن تبلیغ کے کام اور تقاریب کے انعقاد میں کچھ ہمدرد اور مخلص اساتذہ کے تعاون سے مدرسۂ قرآن ایک نئی تبدیلی لے آیا اور کچھ گھروں پر رکھی جانے والی اور مستقل غیر سرکاری میٹنگز اور خفیہ منصوبہ بندی کے بعد، جشن میلاد کے انعقاد کے روایتی طریقۂ کار میں بنیادی تبدیلی کا باعث بنا۔ یقیناً سالوں سے چلے آرہے طریقۂ کار اور رواج کو تبدیل کرنا ایک بہت دشوار کام تھا؛ یعنی ایک پرانے رواج کو چھوڑ کر ایک نئے رواج کو اپنانا کہ جو تمام منصف لوگوں کے مطابق ایک مشکل کام ہے، لیکن خدا کے فضل سے ہم کامیاب ہوئے اور ہم نے عوام کے اس رواج کو بدل ڈالا۔

پیشگی منصوبہ بندی سے ہم نے رسول اکرم(ص) اور آپ(ص) کے اصحاب کی جہادی زندگی اور ظلم، بد اخلاقی اور بدنظمی کا مقابلہ کرنے کے طریقۂ کار کو تقریروں کا موضوع قرار دیا۔ جبکہ گزشتہ سالوں کے دوران جشن میلاد کی تقاریب میں صرف آنحضرت(ص) کی ولادت کا ہی تذکرہ کیا جاتا تھا اور تھوڑی بہت نعت خوانی اور مولود نامہ خوانی ہوتی تھی جو زیادہ تر گھروں میں کی جاتی تھی لیکن مدرسۂ قرآن کے اراکین کا یہ ماننا تھا کہ رحمۃ للعالمین کے میلاد کی یاد منانے کے علاوہ بعثت، ہجرت، جہاد، اخلاق اور سیرت نبوی جیسے موضوعات پر بھی بات ہونی چاہیے اور ان کا ماننا تھا کہ آپ(ص) کی ولادت کی یاد منانے کے ساتھ ساتھ ضروری ہے کہ تمام پہلوؤں سے پیغمبر اکرم(ص) کی عظیم الشان زندگی پر گفتگو کی جائے۔ جبکہ ہم سے پہلے ہمارے بزرگ علماء اپنے وقت کے تقاضے کے مطابق روز ولادت کی صرف روایتی طور پر سادہ طریقے سے یادگار مناتے تھے اور پیغمبر اکرم(ص) کی زندگی کے دیگر واقعات پر کوئی توجہ نہیں دیتے تھے۔ ظاہر سی بات ہے کہ اس عظیم ہستی کی زندگی کے دوسرے پہلوؤں کے بارے میں گفتگو کرنے پر دھمکی اور جیل جیسی قیمت چکانی پڑتی تھی، چونکہ ان لوگوں کے مطابق جہاد، ہجرت، ایثار اور یہود کی سازشوں جیسے موضوعات کے بارے میں بات کرنا مناسب نہیں تھا، اسی لیے ہمارا کام بہت مشکل تھا۔

مدرسۂ قرآن کی فعالیت کے شروع میں ہمیں کچھ پرانے علماء، کچھ مشائخ اور سیاسی اور سیکورٹی ذمہ داران کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ لوگ، عوام کے ذہنوں میں یہ ڈال رہے تھے کہ یہ لوگ وہابی سوچ کو عام کرنا چاہتے ہیں اور عوام کو ہوشیار رہنا چاہیے کہ وہ ان جوان علماء کے دھوکے میں نہ آئیں۔ ہم سات لوگوں کی یکجہتی اور ہم آہنگی اور اکثر عوام خصوصاً جوانوں کی حمایت، ہماری انقلابی تحریک میں تیزی کا باعث بنی۔ البتہ ہمیں اسی کی امید تھی اور ہم مانتے تھے کہ انقلابی اور جہادی تحریکیں، زیادہ تر بوڑھے افراد کی سوچ کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہوتیں اور ہم یہ بات جانتے تھے کہ پیغمبر اکرم(ص) کو بھی اپنی دعوت(تبلیغ) کی ابتداء میں مکہ کے بوڑھوں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا تھا اور صرف جوان تھے کہ جنہوں نے خفیہ طور پر آپ(ص) کی حمایت کی۔ اس نکتے کے اثبات کے لیے پیغمبر اکرم(ص) کی یہ حدیث کافی ہے کہ آپ(ص) نے فرمایا: ’’اوصیکمْ بالشباب خیراً فاِنھم ارق افئدۃ انّ اللہ بعثنی بشیرا و نذیراً فحالفنی الشباب و خالفنی الشیوخ‘‘

(میں تمہیں جوانوں کے ساتھ خیر کی وصیت کرتا ہوں، ان کے دل پاک ہوتے ہیں، بتحقیق خداوند متعال نے مجھے بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا تو مکے کے جوانوں نے میرا ساتھ دیا لیکن بوڑھے مردوں اور خواتین نے میری مخالفت کی)۔

 

                                                                                                        جاری ہے۔۔۔

 


[1]  29 ستمبر 1976(7 مھر 1355) بدھ کی شام، محمد رضا پہلوی کا پاوہ کا سب سے پہلا اور آخری سفر تھا۔

[2]  سن 1947 میں پیدا ہونے اور جوانرود کے بیوند گاؤں سے تعلق رکھنے والے، مدرسۂ قرآن کے فعال تھے جو پہلی اسلامی پارلیمان میں پاوہ اور اورامانات کے مڈٹرم منتخب نمائندے بنے۔



 
صارفین کی تعداد: 10



http://oral-history.ir/?page=post&id=12822