دفاع مقدس کی زبانی تاریخ میں انٹرویو۔2

محمد مہدی عبداللہ زادہ

ترجمہ: ضمیر علی رضوی

2025-09-06


بہت سے ماہرین کے مطابق انٹرویو، زبانی تاریخ کا دل ہوتا ہے اور زبانی تاریخ میں اس کا کردار پہلی اینٹ کا ہوتا ہے۔ اسی لیے اس میدان میں علم اور تجربہ رکھنے والوں کو بھی مزید علم اور پہلے سے استعمال شدہ طریقوں کی اصلاح اور انہیں مکمل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ ضرورت ان انٹرویوز کی تدوین میں زیادہ واضح ہوگی جو معیار کے مطابق نہیں لیے گئے۔

پہلے حصے میں ’’انٹرویوور کے حدود و قیود‘‘ بیان کی گئیں۔ اس حصے میں ’’انٹرویو کے ملزومات اور انٹرویو دینے والے کے حدود و قیود‘‘ بیان کی جائیں گی۔

 

انٹرویو کے ملزومات

معین طرز کے مطابق پیشرفت کرنے والے ایک اصولی اور منظم انٹرویو کا ماحصل، اپنے تألیف کے مرحلے کو باآسانی طے کرلے گا۔ اس انٹرویو کے ماحصل کی ضروری تفصیلات ہوتی ہیں اور جن جگہوں پر ابہام موجود تھا وہاں انٹرویوور نے بروقت  سوالات پوچھ کر اسے دور کردیا ہے۔ انٹرویوور، انٹرویو سیشنز کو ایک چینل میں لے جاتا ہے جس کے متن کی بنیادی باتیں، یادیں ہوتی ہیں اور اس میں معلومات یا غیر متعلقہ تجزیے بہت کم ہی ہوتی ہیں۔

اگر انٹریو لینے والا، غیر فعال یا خاموش ہو تو کام کا نتیجہ صرف یادوں کو حاصل کرنے تک ہی محدود ہوگا۔ جب راوی، واحد متکلم ہو اور انٹرویوور فعال کردار ادا نہ کرے تو وہ ’’یادیں لینے والا‘‘ ہوگا نہ کہ ’’زبانی تاریخ کا محقق‘‘؛ چاہے یادوں کو تفصیلات کے ساتھ ہی کیوں نہ بیان کیا گیا ہو۔ زبانی تاریخ کا انٹرویو لینے والا مطالعے اور منصوبہ بندی کے ساتھ انٹرویو سیشن شروع کرتا ہے اور راوی کے احترام کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اس سے سوالات اور اس پر عتراضات کرتا ہے۔ وہ آسانی سے ہر بات کو تسلیم نہیں کرتا بلکہ اس کی دلیل اور وضاحت طلب کرتا ہے۔ اس صورت میں انٹرویوور چیلنجنگ اور فعال ہوگا۔

مثال کے طور پر، ایک سیشن میں راوی نے بتایا کہ ایک دن آپریشنل ایریا میں اس نے آر پی جی۔7 گولے فائر کرکے دشمن کے دو ہیلی کاپٹر مار گرائے تھے۔ اس کی بات ختم ہونے کے بعد انٹرویوور نے اس سے کہا کہ واقعی میں یہ دلچسپ بات ہے، بہت خوب؛ لیکن ہمیں جنگ کے اس طرح کے نادر موقع کو مستند بنانا ہوگا۔ مثلاً ہم اس انوکھے منظر کے عینی شاہدین کے ساتھ مختصر انٹرویو کریں گے۔ اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ اسلامی جمہوریہ(ایران) کی فوج میں اس طرح کے مواقع پر حوصلہ افزائی اور ترقی ہوتی ہے؛ چنانچہ اگر آپ کے پاس کوئی ثبوت یا دستاویز ہے تو اسے دستاویزات کے حصے میں شامل کرنے کے لیے اس کی ضرورت ہوگی۔ راوی اپنی خاموشی کے ساتھ اس دعوے سے پیچھے ہٹ گیا اور اسے بالواسطہ یہ پیغام ملا کہ اسے ایک خاص فریم ورک کے تحت اپنی یادیں بیان کرنی ہوں گی۔

زبانی تاریخ کے انٹرویو میں دو لوگ گفتگو کرتے ہیں۔ انٹرویوور کو انٹرویو کے دوران اپنی تمام تر معلومات، اس شعبے میں حاصل شدہ اپنے تمام تر تجربے اور مہارت کو بروئے کار لانا چاہیے تاکہ وہ اپنا مطلوبہ نتیجہ حاصل کرسکے۔ زبانی تاریخ، دو فریقوں کے درمیان ہونے والی گفتگو کا حاصل ہوتی ہے جن کا ایک زبانی دستاویز کو تیار کرنے میں عمل دخل ہوتا ہے اور علمی لحاظ سے یہ قابل توجہ ہیں۔ یہ متن دو تجربوں، دو علوم، دو مشترکہ خیالات کا حاصل ہوتا ہے جو راوی اور مؤرخ کے باہمی عمل سے حاصل ہوئے ہیں۔

زبانی تاریخ کے متن تک پہنچنے کے لیے، انٹرویو کے متن کو عمل درآمد، دستاویزات کی ریکارڈنگ، چیک اینڈ بیلنس، اشاریہ سازی، منطقی ترتیب سازی، تحقیق، توثیق، غیر ضروری چیزوں کو ہٹانا وغیرہ کے مراحل سے گزرنا ہوتا ہے۔ ان چیزوں کی رعایت سے ہمیں ایک اچھا اور قیمتی متن حاصل کرنے میں مدد ملتی ہے۔

 

انٹرویو دینے والے کے حدود و قیود

جب ہمارا موضوع، دفاع مقدس کی زبانی تاریخ ہوتا ہے اور مسلط کردہ جنگ کو شروع ہوئے چالیس سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے، تو اکثر راویوں یا یوں کہیں کہ انٹرویو دینے والوں کی عمر تقریباً 60 سال یا اس سے زیادہ ہوتی ہے۔ نتیجتاً یہ فطری بات ہے کہ وہ بہت سی باتیں بھول چکے ہوں۔ بہت سی صورتوں میں جنگ کے درد، مشقتیں اور محاذ کے دنوں کے صدمے اور زخم مزید اس بات کا باعث بن جاتے ہیں کہ وہ اپنی یادوں کو دوبارہ اچھی طرح یاد نہ کر پائیں۔ اسی وجہ سے اس شعبے میں کام اپنی خاص باریکیاں رکھتا ہے۔

زندگی کے اس مرحلے میں موجود انٹرویو دینے والوں کی عمر بہت زیادہ ہو چکی ہوتی ہے۔ دوسری جانب، انٹرویو لینے والے اکثر جوان ہوتے ہیں جنہوں نے جنگ کو شاید صرف فلموں اور کتابوں کی حد تک دیکھا اور پڑھا ہوتا ہے۔ نسل کا یہ فرق، افہام و تفہیم کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنے کی راہ میں ایک رکاوٹ ہے۔ شاید تجربے کا حصول اور تجربہ کار افراد کی رہنمائی اس مشکل کو کم کرسکے۔

کچھ ممالک میں انٹرویو دینے والوں کو انٹرویو کے ہر گھنٹے کے کچھ پیسے دیے جاتے ہیں۔ ہمارے ملک میں اکثر ایسا ہوتا رہا ہے اور ہو رہا ہے کہ سابقہ فوجی اپنی یادوں کو بیان کرنے کو اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں اور ضروری تعاون کرتے ہیں، لیکن ایسے معاملات بھی ہوتے ہیں کہ جہاں مختلف وجوہات کی بنا پر وہ اپنے دیے وقت کے عوض پیسے لینے کے خواہاں ہوتے ہیں۔ جبکہ یہ چیز ہمارے قوانین میں کہیں نظر نہیں آتیں۔

کچھ راویوں کے خاص ارادے بھی ایک مشکل ہیں۔ کچھ کا ارادہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی یادوں کو بیان کرکے لوگوں کی نظروں میں آئیں، اپنے خاص مقاصد کے لیے مشہوری کریں اور اسی طرح کی دوسری چیزیں۔ شاید کچھ لوگ اپنا اچھا ریکارڈ بنانے کے لیے یادوں کو نقل کرتے ہیں۔

کچھ انٹرویو دینے والے آسانی سے انٹرویو دینے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ ان لوگوں کی ہمت بندھانا کوئی آسان کام نہیں، اس کام کے لیے خصوصی مواصلاتی مہارت کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ ان سے ہم سخن اور ہم خیال ہوا جاسکے۔ اس تناظر میں انٹرویو لینے والا ایک ثقافتی معاون کا کردار ادا کرتا ہے تاکہ زبانی تاریخ کا انٹرویو اپنی حقیقی معنی کے مطابق انجام پائے؛ بجائے اس کے کہ اس میں صرف کچھ اطمینان بخش عمومی باتیں ہوں جن کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ پرانے زمانے میں کہا جاتا تھا بولنے کے لیے اچھا دل  چاہیے، یہ انٹرویوور ہوتا ہے جو اس طرح کا ماحول فراہم کرتا ہے۔

اگرچہ انٹرویوور کا زبانی تاریخ کے عمل میں ایک اہم کردار ہوتا ہے، لیکن وہ اس عمل کا صرف ایک حصہ ہوتا ہے۔ اس عمل میں دوسرا اہم کردار انٹرویو دینے والے کا ہوتا ہے۔ کبھی کبھار ایسا بھی ہوا ہے کہ نوآموز اور اس شعبے میں ضروری معلومات نہ رکھنے والے انٹرویوورز نے یادوں کو بیان کرنے میں باصلاحیت اور نشیب و فراز سے بھری یادوں کے راویوں کے انٹرویوز لیے اور ان کا ماحصل ایک قابل ذکر اور خوش قسمت تحریروں کی صورت میں سامنے آیا۔

دوسری جانب، یہ ایک اہم نکتہ ہے کہ ان گوشوں میں جانا ایک ضروری امر ہے کہ جن میں دوسرے یا جاتے نہیں یا ان کی نظر میں ان گوشوں کی کوئی اہمیت نہیں۔ مثال کے طور پر ایک سپاہی یا بسیجی کی یادوں کو درج اور ریکارڈ کرنا اتنا ہی ضروری ہے کہ جتنا کسی حکمران یا کمانڈر کی یادوں کو درج اور ریکارڈ کرنا۔

 

                                                                                                        جاری ہے۔۔۔

 

 

                  


oral-history.ir
 
صارفین کی تعداد: 35



http://oral-history.ir/?page=post&id=12792