18 سالہ نوجوان کی پٹائی
ترجمہ: سید نعیم حسین شاہ
2025-08-26
"۔۔۔اس وقت میری عمر 17-18 سال سے زیادہ نہیں تھی، اور چونکہ میں نے تمام کام اپنی مرضی سے خود سنبھالے تھے، اس لیے مجھ پر الزام لگنے کا زیادہ امکان تھا۔ سمنان شہر میں ساواک کا سربراہ ایک کرنل تھا جس کا نام کرنل لحسائی تھا۔ انقلاب کی فتح کے وقت وہ لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے پر تھا اور "رشت" میں ڈیوٹی کر رہا تھا۔ بظاہر وہیں پر یہ شخص انقلابیوں چڑھ گیا اور انہوں نے اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے۔ میں نے یہ خبر اخبارات میں پڑھی۔
بہرحال مجھے گرفتار کر کے اسی افسر کے پاس لے گئے اور اس کے حکم پر مجھ پر تشدد کیا۔ وہ مجھے لٹا کر میری ٹانگوں پر کوڑے برساتے اور پھر اس لیے کہ میری ٹانگوں پر سوجن نہ آئے، مجھے بھاگنے کو کہتے؛ زمین بھی ریتلی تھی، میں ٹانگوں کے اس درد کے ساتھ بہت مشکل سے بھاگ پاتا، حالت بری ہوجاتی اور پھر وہ لوگ مجھے پکڑ کر کرنل لحسائی کے پاس لے جاتے جو مجھ پر لاتوں اور گھونسوں کے ساتھ مارتا اور جتنا مار سکتا، مارتا تھا۔ یہی نہیں بلکہ وہ مجھے پھر سے لٹاتے اور میرے پاؤں کے تلوے پر کوڑے مارتے اور پھر زبردستی مجھے بھاگنے کو کہتے۔ اس مار پیٹ کے دوران ایک مکا میری ناک پر لگا اور بہت زیادہ خون بہنے لگا۔ اب انہوں نے مجھے مارنا بند کیا اورجانے دیا۔ البتہ میرے دوستوں شیخ محمد باقر عبدوس، شیخ علی اکبر ادب اور جناب حسن آبادی کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ ان کا مقصد یہ جاننا تھا کہ ہمیں کہاں سے آرڈر موصول ہوتے ہیں، کون ہمیں پیسے دیتا ہےوغیرہ ۔
جب انہوں نے مجھے سمنان میں گرفتار کیا تو انہیں ایک چھوٹا سا کیلنڈر ملا جس پر 9 آبان کی تاریخ نمایاں انداز میں درج تھی۔ بظاہر اس دن اسکولوں اور ہائی اسکولوں میں پروگرام منعقد کیے گئے تھے۔ دوسرا یہ کہ میں نے شاہ اور اس کے ولی عہد کے ناموں کو کراس کر دیا تھا اور امام کی سالگرہ کو ایک خوبصورت لائن سے نشان زد کیا ہوا تھا۔ یہ نوٹ بک میری کیس فائل میں شامل تھی اور مجھ پر ملک کے شاہ اور ولی عہد کی توہین کا الزام لگایا گیا تھا اور یقیناً اس کی سزا موت تھی۔
اس وقت انہوں نے مجھ سے جو سوالات کیے ان میں سے ایک یہ تھا: تم کس کی تقلید کر رہے ہو؟ تمہارا باپ کس کی تقلید کر رہا ہے؟
جواب میں میں نے کہا: میرے والد جناب شاہرودی کی تقلید کرتے ہیں، میرے دو بھائی جناب خوانساری کی تقلید کرتے ہیں، اور میرے دوسرے بھائی جناب گلپایگانی کی تقلید کرتے ہیں اور میں امام خمینی کی تقلید کرتا ہوں۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ تم میں سے ہر ایک، الگ الگ مرجع کی تقلید کیسے کرتا ہے؟ میں نے کہا، "تقلید ایسی چیز ہے جسے انسان کو خود تشخیص دیتا ہے۔ البتہ میری اس بات پر کہ میرے مرجع تقلید امام خمینی ہیں ، وہ لوگ بہت حساس ہو رہے تھے، یہی وجہ تھی کہ وہ مجھے بہت زیادہ مار پیٹ رہے تھے ۔ ساواک کے سربراہ مجھ سے گفتگو میں کہا کرتے تھے کہ آیت اللہ خمینی اور ان کے دوست اب کھانا کھا رہے ہیں جب کہ تم یہاں مار کھا رہے ہو۔ ان بیس ہزار لوگوں کا ذمہ دار کون ہے جو مدرسہ فیضیہ میں 5 جون 1963کو مارے گئے؟ ان کا خون کس کی گردن پر ہے؟ واضح سی بات ہے کہ یہ خون آیت اللہ خمینی کی گردن پر ہے۔
انہوں نے مجھے تقریباً گیارہ دن تک سمنان ساواک میں رکھا، اور چونکہ وہاں ان کے پاس جیل کی کوٹھری نہیں تھی، اس لیے انہوں نے مجھے گیراج میں لکڑی والے تخت پر رکھا ہوا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے مجھے گرگان بھیج دیا جہاں پولیس سٹیشن کے ساتھ ایک عمومی جیل تھی جہاں بدمعاش آوارہ، قاتل اور سمگلر قیدی تھے۔ ظاہر ہے، جب میں نیا نیا وہاں پہنچا تو میرے لیے یہ بہت مشکل تھا۔ ہر روز، وہ مجھے پوچھ گچھ کے لیے فوجی عدالت کے دفتر لے جاتے تھے، اور تفتیش کرنے والے پراسیکیوٹر میری طرف دیکھتا اور کہتا، "مجھے نہیں معلوم کہ تمہارے کیس کا کیا کرنا ہے۔" یہ جو کیس فائل انہوں نے تمہارے لیے بنا کر بھیجی ہے ، تمہاےرے سن و سال کی نہیں ہے۔
میرا خیال یہ تھا کہ سمنان میں فوجی کرنل اپنے نمبر بڑھانے کے چکر میں تھا ۔ جب کہ یہں کا تفتیشی افسر میری مدد کرنا چاہتا تھا اور پوچھ گچھ کے دوران اگر میں کوئی جواب دیتا تو وہ اپنے سیکرٹری کو کسی نہ کسی بہانے سے باہر بھیج دیتا اور مجھے کہتا کہ ’’ایسے مت کہو، ایسے کہو‘‘۔ تو مجھے بھی اتنی باریکیوں کا علم نہیں تھا، میں اسسے کہتا، "پچھلی بار میں نے ہ جواب دیاتھا" تو وہ افسر کہتا:اسے اب جانے دو، اب اس طرح کہو۔"
مختصر یہ کہ تقریباً 2 ماہ کے سوالات و جوابات اور میرے پس منظر کے بارے میں معلومات دریافت کرنے کے بعد جب انہوں نے دیکھا کہ کچھ نہیں ملا تو انہوں نے ایک تعھد نامے پر دستخط کروا کر مجھے رہا کردیا۔
رہائی کے بعد میں سمنان چلا گیا۔ رمضان کا مہینہ تھا اور میں تبلیغی کام لگ گیا۔ علامہ سمنانی جو کہ سمنان کے بڑے علماء میں سے ایک تھے، امام خمینی رح کے بھی بہت چاہنے والےتھے اور پڑھائی میں لایق ہونے کی وجہ سےمجھ سے بہت پیار کرتے تھے ، نے مجھ سے کہا، "یہاں مت رکو۔ آیت اللہ خمینی قم میں ہیں، تم بھی قم چلے جاؤ اور اپنی پڑھائی کا سلسلہ دوبارہ شروع کرو، تم یہاں نہ رکو تو بہتر ہے۔"
ا ن کی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے میں قم چلا گیا۔"
خاطرات سالھای نجف، جلد. 1، تہران، امام خمینی کی تصانیف کی تالیف و اشاعت کا ادارہ، عروج، 2010، صفحہ 19-21۔
15khordad42.ir
صارفین کی تعداد: 28
http://oral-history.ir/?page=post&id=12766