شہید سید اسد اللہ لاجوردی کے بیانات سے اقتباس
انتخاب: فائزہ ساسانی خواہ
ترجمہ: سید نعیم حسین شاہ
2025-08-26
یہاں مجھے ایک ایسی بات یاد آگئی جس کاابھی بتانا ضروری ہے،کیونکہ ہو سکتا ہے بعد میں میرے ذہن سے نکل جائے، البتہ یہ بھی ہے کہ اس سے میری گفتگو کا ربط ٹوٹ جائے گا لیکن یہیں پر یہ بات کرنا ضروری ہے اور وہ یہ کہ اوین جیل میں ہمارا اور ہمارے دوستوں کا موقف بہت خاص تھا اور ہمارا وہ موقف بلکہ ہمارا وہ یقین یہ تھا کہ ہمیں قدم بقدم مرجعیت اور امام خمینی رح کے مشن کی پیروی کرنی چاہیے، ہمارے اسی موقف پر ہمارے اور مجاہدین کے درمیان بہت زیادہ اختلاف تھا[1]۔ تمام مسائل بشمول نظریاتی مسائل سے لے کر ادنیٰ مسئلے تک ، حتیٰ کہ تدبیری مسائل میں بھی ہماری سوچ الگ الگ تھی اور بہت واضح فرق تھا، اور وہ یہ تھا کہ ان کے نزدیک مقصد کو پانے کے لیے ہر جائز و نا جائز قدم اٹھانا روا ہے، جبکہ ہماری نگاہ میں بلکہ اسلام کی نگاہ میں ایسا کرنا حرام تھا۔
خاص طور پر مارکسزم کے بارے میں ہمارا ایسا ہی ٹھوس موقف تھا اور ہماری نظر میں مارکسسٹ بھی مارکسزم کا انجام بھگت رہے تھے۔ ہم، جو نہ مارکسزم کو مانتے تھے اور نہ ہی مارکسسٹوں کو ؛ مجاہدین نے جیل میں ہمارا ہی بایکاٹ کیا ہوا تھا وہ بھی سو فیصد یعنی ہر حوالے سے ۔ مجاہدین نہ تو خود ہم سے بات کرتے اور نہ ہی اپنے زیر اثر دیگر افرادکو ہم سے رابطہ کرنے دیتے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر دیگر لوگ ہم سے رابطہ کریں گے تو ان کے خیالات ہمارے فرسودہ خیالات سے متاثر ہوں گے اورنتیجتا وہ اپنی انقلابی سوچ سے محروم ہو جائیں گے۔ اس لیے وہ ہم سے رابطہ کرنے سے بہت ڈرتے تھے۔ اس بائیکاٹ کی وجہ یہی تھی کہ کہیں نچلی سطح فکر کے لوگ آ کر ہم سے رابطہ ہی نہ کر لیں ۔ وہ اس سے خوفزدہ رہتے اور اگر کوئی آکر ہم سے رابطہ کر لیتا تو اس کی شامت آ جاتی، وہ فوراً اس سے کہتے کہ "اپنا موقف واضح کرو! اگر ہمارا تمہارا موقف ایک ہے تو کسی بھی صورت میں تم ان (یعنی ہم )سے ہرگز نہیں ملو گے اور اگر تم ان کے ساتھ ہو تو پھر ہم سے کوئی لین دین اور کسی قسم کا رابطہ نہیں رکھ سکتے"۔
وہ ایسی صورت حال پیدا کر دیتے کہ یہ جوان جو نئے نئے جیل میں آئے ہوتے تھے وہ ان کے قابو میں اور زیر تسلط آ جاتے۔ لیکن اگر ان جوانوں کو ہم سے رابطہ کرنے کا موقع مل جاتا تو وہ وقتاً فوقتاً رابطہ کرنے اور بعض مسائل پر ہم سے ہماری رائے جاننے میں کوئی عار محسوس نہ کرتے، تاکہ، شاید وہ کسی طرح سے اس تنازعہ کو حل کر سکیں اور جیل سے باہر یا جیل میں آنے والوں کو کسی حد تک ہمارے انکشافات سے روک سکیں۔ یہ وجہ تھی کہ وہ ہم سے بات کرنے کے موقعے کی تلاش میں رہتے تھے[2]۔
[1] حبیب اللہ عسگر اولادی: ہم تینوں، لاجوردی صاحب، الحاج حیدری صاحب، اور میں نے فیصلہ کیا کہ گروہ منافقین کے 12 رہنماؤں کو مدعو کیا جائے جو وہاں [مشہد جیل میں] تھے اور ان سے اس معاملے پر بات چیت کریں اور اتمام حجت کر دیں۔ شہید لاجوردی نے کہا: "میرے خیال میں اتمام حجت کرنا ضروری نہیں ہے، میں جانتا ہوں کہ انہوں نے اپنا دماغ بند کر رکھا ہے اور کان بھی بند کیے ہوئے ہیں تا کہ کہیں دوسروں کی بات ان کے دماغ تک نہ پہونچ پائے۔" شاید بیس راتوں سے زیادہ، ان کے دس یا بارہ رہنماؤں اور ہم میں سے چار افراد کے مابین تبادلہ خیال ہوتا رہا۔ یہ ملاقاتیں اتمام حجت ہی تھیں ان لوگوں کے ساتھ جو اس وقت کےمجاہدین خلق کے سربراہ تھے اور آج کے منافقین اور محارب لوگ ہیں ۔آخری رات کو انہوں نے ہمیں جواب دینا تھا لیکن صبح تک ملتوی کر دیا۔لاجوردی صاحب کا کہنا تھا کہ ان لوگوں کا جواب واضح ہے۔ اگلی صبح، انہوں نے اپنے دوستوں اور ساتھیوں کے سامنے اعلان کیا کہ یہ تین لوگ [یعنی ہم تینوں] پہلے نمبر پر ضد انقلابی ہیں۔ انہوں نے ہمیں ضد انقلابی کا لقب دے دیا۔ شہید لاجوردی نے ہم سےکہا: "یہ آپ کا اصرار تھا کہ ہمیں ان لوگوں سے بات کر کے اتمام حجت کرنا چاہیے، جبکہ یہ میرے لیے واضح تھا کہ ان کے رویے یا نظریے میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔" اور ہم نے بھی یہ دیکھ لیا کہ ہمارا کوئی ایک لفظ بھی ان کے اذہان پر اثر انداز نہیں ہوا۔ (شاہد یاران، شہید سید اسد اللہ لاجوردی، صفحہ 6)
[2] ماخذ: اسلامی، جواد، مبارزہ بہ روایت شہید سید اسد اللہ لاجوردی، مؤسسہ فرہنگی مطبوعاتی ایران، انتشارات ایران، 2022، تہران، ص۔ 157.
oral-history.ir
صارفین کی تعداد: 98
http://oral-history.ir/?page=post&id=12764