رونے کے بجائے ہنس رہی تھی
راوی: مھین خمیس آبادیانتخاب: فائزہ ساسانی خواہ
مترجم: سیدہ رومیلہ حیدر
2025-08-02
جب جہاد (جنگی امدادی تنظیم) اعلان کرتا کہ پھل چننے کے لیے جانا ہے، تو ہم اپنے بچوں کو گھر پر تنہا نہیں چھوڑ سکتے تھے؛ وہ بہت کم عمر تھے۔ ایسے مواقع پر، اکبر آقا، بے چارہ، بڑی گاڑی کرائے پر لیتا تاکہ بچے بھی ساتھ جا سکیں۔ دس بیس عورتیں جمع ہو جاتیں اور ہم سب مل کر درختوں سے پھل چنتیں اور انہیں کریٹوں میں جمع کرتیں۔ شام کو جب سورج ڈھلنے لگتا، ٹرک آتا۔ مرد حضرات پھلوں کو لادتے اور لے جاتے۔ جنگ کے آخری دنوں تک بس یہی ہمارا کام تھا ۔ کبھی کبھار ہم پھلوں کو دھوتیں، نگینوں کی طرح باریک کاٹتیں اور شکر کے ساتھ پکاتیں۔ پھر وہ مربے محاذِ جنگ کی طرف روانہ کیے جاتے۔
ایک بار ہمیں "باغِ عمارت" بھیجا گیا، جو ملارد کے اطراف میں تھا۔ وہ باغ بہ (سفرجل) کا تھا اور اس کے پھل کیڑے زدہ تھے۔ ہم دس بارہ خواتین وہاں گئیں، بہ جمع کیے اور انہیں مسجدِ حسینیہ کے صحن میں ڈال دیا۔ دھویا، خراب حصہ الگ کیا، پھر باریک باریک کاٹ کر ان سے مربا تیار کیا۔
اسی دن جب ہم باغ میں گئے تھے، ایک کتا ہماری بیٹیوں کے پیچھے پڑ گیا، اور میری بیٹی—بجائے رونے کے—ہنسنے لگی۔
اگرچہ کتا میری بیٹی لیلا کے پیچھے لگا ہوا تھا، وہ ہنس رہی تھی۔ ستارہ کہہ رہی تھی: "دیکھو تو! بجائے رونے کے، ہنس رہی ہے!" پھر همدانی ترک لہجے میں میں اپنی بیٹی سے، جو خوف کے مارے رو رہی تھی، کہنے لگی:
"نگاه نگاه! از لیلا یاد بگیر بچه! آنقدر گریه کردی، آغزین دوشدی اورگیوین اوسته!"
یعنی: "دیکھو دیکھو! لیلا سے سیکھو بیٹا! اتنا روئی ہو کہ تمہارا منہ دل پر آ گرا ہے!"
شام کو جب تک ہم باغ میں تھے شمسی خانم، ستارہ خانم کی اس بات پر ہنستی رہی اور پوچھتی رہی: "ستارہ! آخر یہ کیسے ممکن ہے کہ منہ دل پر آ گرے؟"
oral-history.ir
صارفین کی تعداد: 14
http://oral-history.ir/?page=post&id=12710