مدرسہ فیضیہ کے حادثے کے بارے میں ڈاکٹر باقر کتابی کی روایت

انتخاب: فائزہ ساسانی خواہ

مترجم: یوشع ظفر حیاتی

2025-08-02


مارچ 1963 میں عید کے ایام میں، دسیوں ہزار افراد قم آئے تھے تاکہ عید کے دنوں کو اس مقدس سرزمین میں گزاریں، اس کی برکتوں سے فیض یاب ہوں، اور ساتھ ہی اپنے مذہبی رہبر کی راہ و روش اور تحریک کو دیکھیں اور سنیں، تاکہ پھر پیغام رسان بن کر مختلف شہروں اور علاقوں میں لے جائیں۔

شاہ اور اس کے کارندے اس اہم حقیقت سے خوفزدہ ہو گئے اور انہوں نے اس موضوع کو سرے ہی ختم کرنے کا ارادہ کرلیا۔ مدرسہ فیضیہ پر حملہ انہی محاسبات اور پہلے سے کی گئی تیاریوں کے تحت انجام پایا۔ ان کا مقصد چند باتیں تھیں:
اوّل، جدوجہد کرنے والے اور بیدار مسلمان عوام کو دبانا؛
دوم، روحانیت کو، خصوصاً اس کے مرکزی شخصیت یعنی امام خمینی کو، جو جدوجہد اور مزاحمت کا نچوڑ اور اسلام و مسلمین کا مضبوط قلعہ تھے، کچلنا؛
سوم، یہ ظاہر کرنا کہ "عظیم تمدن" کے مخالفین، چاہے کتنے ہی بڑے دینی شخصیات کیوں نہ ہوں، خطرے سے محفوظ نہیں۔

22 مارچ 1963 کی صبح کو، جو کہ 25 شوال 1382 ہجری قمری اور حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی وفات کا دن تھا، واضح طور پر دیکھا جا سکتا تھا کہ سرکاری بس سروس کی گاڑیاں مسلسل قم میں داخل ہو رہی تھیں اور اپنے مسافروں کو مختلف لباسوں میں، جیسے مزدور، کسان وغیرہ، اتار رہی تھیں۔ ایسا لگتا تھا کہ مسافروں کی کثرت اور بسوں کی کمی کی وجہ سے یہ کیفیت پیدا ہوئی ہے، اور یہ زائرین ہیں جو زیارت کے لیے قم آ رہے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ تھی کہ یہ مسافر درندہ صفت جلاد تھے، جو فساد پھیلانے، بے گناہ عوام کا خون بہانے، آزاد منش اور حق کے مجاہدوں کو نقصان پہچانے کے ارادے سے قم آئے تھے۔ وہ انسانوں کی شکل میں بھیڑیے تھے، چیرنے، پھاڑنے، جلانے، مارنے اور پھر چلے جانے کے لیے۔

بسوں کے بعد، درجنوں فوجی ٹرک، جو بھاری مشین گنوں سے لیس تھے اور سپاہیوں سے بھرے ہوئے تھے، قم میں داخل ہوئے اور شہر میں ایک طرح کی فوجی مشق کی۔ شاید اس دن کوئی نہیں جانتا تھا کہ ان بسوں کے مسافروں اور ان مسلح سپاہیوں کے درمیان کیسا منحوس ربط ہے، اور مدرسہ فیضیہ کس سانحے کو جنم دینے والا ہے۔ آج، حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کے مقدس مزار کے پہلو میں، علم و اسلامی ثقافت کے گہوارے میں، کیسا شرمناک واقعہ رونما ہونے والا ہے۔ میں خود سخت لہجے والے کئی اعلامیے پڑھ رہا تھا اور جگہ جگہ لوگوں کے گروہ دیکھ رہا تھا جو آپس میں سرگوشیاں کر رہے تھے اور واقعات پر گفتگو کر رہے تھے۔

غم و اندوہ کا سایہ ہر طرف چھایا ہوا تھا اور ایک واقعے کے رونما ہونے نے لوگوں کو اضطراب میں مبتلا کر دیا تھا۔ عید، سوگ میں بدل چکی تھی۔ بہت سے علما کے گھروں میں مجالسِ عزا برپا تھیں۔ خاص طور پر امام خمینیؒ کے گھر میں، جہاں اتنی بڑی تعداد میں لوگ موجود تھے کہ بیٹھنے اور کھڑے ہونے کی جگہ بھی نہ تھی، عزاداری شروع ہو چکی تھی۔ منبر پر موجود خطیب نے اپنی گفتگو کی بنیاد امام جعفر صادقؑ کی اموی و عباسی حکومتوں کے خلاف جدوجہد پر رکھی، اور بات کو اسلامی احکام اور ایرانی عوام پر حکومتی جارحیت تک لے گیا۔ اچانک ایک نامناسب صلوات کی آواز بلند ہوئی، جس سے خطیب کی گفتگو منقطع ہو گئی اور مجلس کا ماحول غیر معمولی ہو گیا۔ یہ خبر امام تک پہنچی، جو اندرونِ خانہ تھے۔ انہوں نے بذریعہ ایک طالب علم پیغام دیا کہ اگر کوئی نامناسب حرکت ہوئی تو فوراً صحنِ مطہر کی طرف جائیں گے اور حضرت معصومہؑ کے مزار کے پہلو میں جو کہنا ہو گا، کہیں گے۔ اس پیغام کے بعد مجلس پر سکون ہو گئی۔

اسی دن شام کو، آیت اللہ العظمیٰ گلپایگانی کی طرف سے مدرسہ فیضیہ میں مجلسِ عزا کا اعلان کیا گیا۔ مجلس شروع ہونے سے پہلے، مسلح سپاہیوں کے فوجی ٹرک میدان آستانہ میں، مدرسہ فیضیہ کے سامنے رکے ہوئے تھے، اور سیکیورٹی اہلکار مدرسے کے اطراف میں موجود تھے۔

لوگوں کی آمد و رفت، اجنبی چہرے، اور بڑی تعداد میں اعلامیے، غیر معمولی حالات کی نشاندہی کر رہے تھے۔ میں مجلس شروع ہونے سے پہلے مدرسہ فیضیہ میں داخل ہوا۔ اس وقت مدرسے میں زیادہ ہجوم نہیں تھا۔

میں مدرسے کے ایک ایوان میں بیٹھ گیا اور واعظ کا منتظر رہا۔ مختلف طبقوں اور گروہوں کے لوگ مدرسے میں داخل ہو رہے تھے۔ جلد ہی مدرسہ لوگوں سے بھر گیا۔ صحن اور ایوانوں میں ہر جگہ ہجوم تھا۔ واعظ، جو غالباً جناب انصاری تھے، منبر پر گئے اور وعظ شروع کیا۔ چونکہ یہ دن حضرت امام جعفر صادقؑ کی وفات کا تھا، اس لیے گفتگو کا محور ان کی جدوجہد، تعلیمات، اور ان کے ذریعے اسلامی علوم و معارف کی تدریس کا قیام تھا۔ بات آہستہ آہستہ قم کی حوزہ علمیہ تک پہنچی، جو امام صادقؑ کی یونیورسٹی کے طور پر جانی جاتی ہے، اور اس بات پر زور دیا گیا کہ ملک کی خودمختاری اور اسلامی احکام کا تحفظ براہِ راست اس سے وابستہ ہے۔ اسی دوران، میں نے دیکھا کہ بغیر کسی مناسب موقع کے، ایک شخص نے صلوات بلند کی، اور لوگوں نے فطری طور پر اس کے پیچھے صلوات بھیجنا شروع کر دی۔ واعظ نے دوبارہ گفتگو شروع کی، لیکن پھر ایک اور گوشے سے کسی نے بلند آواز میں صلوات کہی، اور صلواتوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ واضح تھا کہ کچھ لوگ نہیں جانتے تھے کہ یہ صلواتیں غیر معمولی ہیں اور مجلسِ عزا کو درہم برہم کرنے کے لیے کی جا رہی ہیں۔

تیسری، چوتھی، اور شاید پانچویں بار صلواتیں مختلف گوشوں سے، اجنبی افراد کی طرف سے، جو دیہاتی لباس پہنے ہوئے تھے، بلند کی گئیں۔ مجلس کا نظم بگڑنے لگا، واعظ مجبوراً خاموش ہو کر منبر پر بیٹھ گئے اور ان کی گفتگو میں خلل پڑنے لگا۔ مجھے یاد ہے کہ واعظ نے منبر پر بیٹھے ہوئے اپنی داڑھی پر ہاتھ رکھا اور کہا: "بالا غیرتاً صلوات بند کریں تاکہ گفتگو معمول کے مطابق جاری رہے۔" لیکن پھر بھی کسی گوشے سے صلوات کی آواز بلند ہو گئی۔

اسی وقت، مجلس میں موجود ایک عالم دین نے جب دیکھا کہ اس کے اطراف میں نابجاء صلواتیں کہی جا رہی ہیں، تو ان افراد کو تنبیہ کی۔ فوراً وہی تیار اور منتشر شدہ اہلکار، جو منبر کے قریب بیٹھے تھے، اس پر حملہ آور ہو گئے۔ اگرچہ واعظ نے مجلس کو پر سکون رکھنے اور وعظ جاری رکھنے کی بھرپور کوشش کی، لیکن معاملہ اس سے کہیں زیادہ سنگین تھا۔ نابجاء صلواتیں مسلسل مجلس کے مختلف گوشوں سے بلند ہو رہی تھیں۔ شاید کچھ لوگ جو اصل معاملے سے ناواقف تھے، مجلس کا ماحول ٹھیک رکھنے کے لیے صلوات بھیج رہے تھے۔ واعظ نے جب خود کو اس حالت میں پایا تو بلند آواز میں کہا:
"اے مسلمانو! جو دور و نزدیک سے اس مقدس شہر میں آئے ہو، جب اپنے شہر واپس جاؤ تو لوگوں کو بتانا کہ اب ہمیں امام جعفر صادقؑ کے مذہب کے سربراہ کی مصیبت بیان کرنے کی بھی اجازت نہیں!"
اب مزید گفتگو ممکن نہ رہی۔ واعظ منبر سے نیچے اتر آئے۔ انہی مشکوک افراد میں سے ایک نے مائیکروفون سنبھالا اور بلند آواز میں نعرہ لگایا:
"بروح پر فتوح اعلیٰ حضرت فقید رضا شاہ!" کہ مائیک بند کردیا گیا اور لوگوں نے اسے کہا: "بکواس بند کرو!" اب مجلس مکمل طور پر درہم برہم ہو گئی تھی۔

حکومتی اہلکاروں کی ایک بڑی تعداد، جو تقریباً سات سو سے ہزار افراد پر مشتمل تھی اور دیہاتی لباس پہنے ہوئے تھی، لاٹھیوں اور دیگر آلات کے ساتھ بے گناہ عزاداروں پر ٹوٹ پڑی۔ وہ مسلسل مار رہے تھے، چیخ رہے تھے، اور ہجوم ایک لپٹے ہوئے طومار کی مانند ہو گیا۔ سب کھڑے ہو گئے، کچھ فرار کر رہے تھے، کچھ ایک دوسرے پر گر رہے تھے، کچھ چیخ رہے تھے، اور کچھ حیرت زدہ تھے کہ آخر معاملہ کیا ہے؟

میں نے نوجوان طالبعلموں کو دیکھا جو مدرسے کی دوسری منزل سے لوگوں کو ان ساواک کے اہلکاروں کے خلاف مزاحمت اور جدوجہد پر ابھار رہے تھے۔ کچھ طالبعلموں کو دوسری منزل سے نیچے پھینکا جا رہا تھا۔ مدرسہ فیضیہ کے دروازے کی طرف جانے والی سیڑھیاں تنگ تھیں، اور باہر نکلنے کی کوشش کرنے والے ہجوم کو شدید دشواری کا سامنا تھا۔ کچھ لوگ گر رہے تھے، اٹھنا ان کے لیے بہت مشکل تھا، کئی زخمی ہو گئے تھے۔ کسی کو دوسرے کی پروا نہیں تھی۔ جب میں مدرسے سے باہر نکلا تو میری کمر سے لے کر پاؤں تک سوجن اور سرخی تھی، اور اتنی تکلیف تھی کہ مجھے عصا دی گئی۔ مدرسے کے باہر بھی گولیوں کی آواز سنائی دے رہی تھی، جو لوگوں کو مزید پریشان کر رہی تھی۔ آستانہ میدان میں بڑی تعداد میں لوگ موجود تھے، اور وہ مدرسہ فیضیہ پر مسلح حملے کو دیکھ رہے تھے۔ خدشہ تھا کہ وہ اہلکاروں پر حملہ کریں گے، لیکن آنسو گیس اور سنگینوں کے ذریعے منتشر کر دیے گئے۔

جب بہت سے لوگ مدرسے سے باہر نکل آئے، تو کئی افراد نے بتایا کہ اہلکار لباس بدل کر "جاوید شاہ" کے نعرے لگاتے ہوئے طلبہ پر حملہ کر رہے تھے۔ طلبہ نے دفاع میں دوسری منزل کی ریلنگ توڑ دی اور اینٹوں و پتھروں سے اہلکاروں پر حملہ کیا۔ پولیس کی امدادی فورس، مسلح سپاہی، اور وہ فوجی جو مدرسے کے سامنے تھے، اندر داخل ہو گئے۔ مدرسہ فیضیہ میدانِ جنگ بن گیا۔ گولیوں کی بوچھاڑ شروع ہو گئی۔ کئی طالبعلموں کو دوسری منزل سے صحن میں پھینکا گیا۔ حکومتی نظام نے اس مدرسے میں ایک عظیم جرم کا ارتکاب کیا۔ طالبعلموں کے کپڑے، کتابیں، اور سامان مدرسے کے وسط میں جلا دیا گیا۔ بڑی تعداد میں لوگ شہید، زخمی، ہوئے۔ رات کی تاریکی میں، اس جرم کے بعد، اہلکار مدرسہ چھوڑ کر چلے گئے۔ ان کی یہ شرمناک حرکت عوام، خصوصاً علما کو جدوجہد پر مزید پختہ ارادہ کرنے پر آمادہ کر گئی، اور امام خمینیؒ کی قیادت کو تمام طبقات میں مزید مستحکم کر دیا۔

امام خمینیؒ نے مدرسہ فیضیہ کے واقعے کی اطلاع ملتے ہی ایک عظیم رہبر کا کردار ادا کیا۔ انہوں نے حکم دیا کہ زخمیوں اور مجروحوں کو اسپتال منتقل کیا جائے اور ان کے آرام کے لیے وسائل فراہم کیے جائیں۔

اگلے دن، امام کا گھر عوام، طلبہ، اور علما کا مرکز بن گیا۔ امامؒ نے شاہ کے اقدامات اور اہلکاروں کے جرائم کو عوام کے سامنے بیان کیا اور انکشافات کو اسلامی تحریک کی راہ میں ایک بڑی پیش رفت قرار دیا۔ ان رہنمائیوں کے نتیجے میں عوام کا سیلاب مدرسہ فیضیہ اور اسپتالوں کی طرف امڈ آیا۔ عوام کے جذبات شاہ، اس کے کارندوں، ساواک، اور ان کے جرائم کے خلاف بھڑک اٹھے۔ اہلکاروں کی جانب سے مدرسے کی دیواروں اور دروازوں کو دھونے کی کوشش بے اثر رہی۔ امامؒ نے اس واقعے کے بارے میں ایک سخت اعلامیہ جاری فرمایا، جس میں لکھا:

"انا للہ و انا الیہ راجعون... مرکزِ روحانیت پر کمانڈوز اور حکومتی اہلکاروں کا حملہ، جو بھیس بدل کر اور پولیس کی پشت پناہی میں پر ہوا، مغلوں کی یاد تازہ کر گیا۔ 'جاوید شاہ' کے نعروں کے ساتھ امام صادقؑ کے مراکز اور ان کے جسمانی و روحانی اولاد پر اچانک حملہ کیا گیا... 16 اور 17 سالہ بچوں کو چھت سے نیچے پھینکا گیا... قرآن اور  دیگر کتابوں کو پھاڑ دیا گیا..."

یہ ایک مفصل اور زوردار اعلامیہ تھا، جس نے عوام کو حکومت کے جرم سے مکمل طور پر آگاہ کر دیا۔ یقیناً مدرسہ فیضیہ کا واقعہ وہ شعلہ تھا جس نے ایران میں اسلامی انقلاب کو روشن کیا اور اسے 11 فروری 1979 کی کامیابی تک پہنچایا۔


oral-history.ir
 
صارفین کی تعداد: 25



http://oral-history.ir/?page=post&id=12709