میں اپنے شوہر کے لئے پریشان نہیں تھی

راوی: فاطمہ طباطبائی

مترجم: سیدہ رومیلہ حیدر

2025-07-29


5 جون 1963 کو ہم اپنے باغ میں کھیرے توڑ رہے تھے۔ تہران سے ہمارے یہاں مہمان آئے ہوئے تھے۔ میں نے لاؤڈ اسپیکر سے ہونے والا اعلان سنا کہ امام خمینی رح کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔

میں چونکہ گھر میں تھی میں نے اعلان سن لیا، لیکن جو لوگ باغ میں تھے وہ نہیں سن سکے۔ ہماری پڑوسن عزت خانم جو حسن مقدس کی بھتیجی تھیں آئیں اور کہنے لگیں: " آقائے خمینی کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔"

ہمارے مرجع تقلید امام خمینی رح تھے۔ ہمارے پاس انکی توضیح المسائل بھی تھی۔ لیکن ہم چھپا کر رکھتے تھے۔ بس خود مطالعہ کیا کرتے تھے۔ خبر ایک دوسرے سے پھیلتی چلی گئی اور اچانک کافی رش ہوگیا۔ میں گلی میں آئی۔ میرے شوہر صحرا سے واپس آئے اور کہنے گے: "میں جارہا ہوں"۔

انکی والدہ نے کہا: "اس بچی کو کس کے سہارے چھوڑ کرجارہے ہو، برائی بچی ہے، ابیٓھی تو ایک سال ہی شادی کو ہوا ہے؟"

کہنے لگے: "اللہ کے سپرد کرکے جارہا ہوں۔ جب سب لوگ جارہے ہیں تو کیا میرا خون دوسرے لوگوں کے خون سے زیادہ رنگین ہے؟"

نعرے لگا رہے تھے: "خمینی خمینی خدا نگہدار تو بمیرد بمیرد دشمن خونخوار تو(خمینی خمینی خدا آپ کا محافظ مر جائے مرجائے آپ کا خونخوار دشمن)۔"

گلی کے کونے سے آوازیں آرہی تھیں۔ یہ گلی شیرازیوں کی گلی مشہور تھی۔ میں نے صبح روٹیاں بنائی تھیں۔ انہوں نے اپنی کمر میں وہ روٹیاں باندھیں۔ میں نے کہا مت جائیں۔ کہنے لگے نہیں مجھے جانا ہوگا۔

میرے دیور نے کہا: "میں نہیں جا رہا"۔

ہم نے رات کا کھانا پکایا۔ عوام کے رش کا ایک سرا صحن میں اور دوسرا اس دائرے کے پاس تھا جس کا اب میدان امام کہا جاتا ہے۔ بہت زیادہ رش تھا۔ سب نے قمہ یا جو بھی اسلحہ انکے پاس تھا ہاتھوں میں اٹھا رکھا تھا۔ کسی کو کوئی خوف نہیں تھا۔

شاہ کے زمانے میں بھی ہمیں سلطنت کے کاموں سے کوئی سروکار نہیں تھا۔ میری ساس بہت متدین خاتون تھیں۔ میرے بھائی کی زوجہ گھر میں بیٹھی ہوئی تھی، اسکے بھائی گھڑی ساز تھے۔ وہ اس کے لئے ایک چھوٹا ریڈیو لائے تھے۔ جب بھی وہ اسے چلاتی میری ساس کہتیں: "ملوک خانم، اس کی آواز کم کرو۔ اسکی آواز سنوں گی تو میرے کان قیامت کے دن اذان کی آواز نہیں سن پائیں گے"۔

اتنی زیادہ دین دار خاتون تھیں اور شاہ اور سلطنت کی بالکل بھی حامی نہیں تھیں۔

وہ لوگ چلے گئے۔ رات کا کھانا مہمانوں کے سامنے رکھا۔ لیکن کسی نے بھی کھانے کو ہاتھ نہیں لگایا۔ انکی والدہ رو رہی تھیں۔ میں نئی نویلی دلہن تھی اور مجھے رونا اچھا نہیں لگا۔ میں بہت اداس اور پریشان تھی۔ کسی نے بھی کھانا نہیں کھایا۔ سب ہی پریشان تھے۔ میرے دیور گھبراہٹ میں ہنسے جارے تھے۔ میری ساس ان سے لڑ رہی تھیں اور کہہ رہی تھیں: "کیوں ہنس رہے ہو؟"۔

وہ تھوڑا بہت مذاق کرتے اور ہنستے جاتے۔ کسی کو نیند نہیں آئی۔ ہم بیس افراد اس گھر میں زندگی بسر کررہے تھے اور پانچ گھرانے تھے۔

میری اداسی اپنے شوہر کی وجہ سے نہیں تھی۔ میں پندرہ سال کی تھی۔ اس وقت بہت زیادہ سمجھ بوجھ نہیں رکھتی تھی۔ لیکن میں امام خمینی رح کے لئے پریشان تھی۔ ہم عام مجمع میں امام خمینی رح کا نام نہیں لیا کرتے تھے یا انکی توضیح المسائل کسی کو نہیں دکھایا کرتے تھے۔ن ایک خاتون تھیں جن کا نام طاہری تھا ہم نے کی کلاسوں میں شرکت کرتے تھے۔ حاج کلایی کی رشتے دار تھیں جن کی بازار میں دکان ہے۔ میں نے خانم طاہری سے کہا کہ امام خیمنی رح کی ایک توضیح المسائل مجھے دیں۔

وہ قم سے چھپا کر میرے لئے لے کر آئی تھیں۔ حاج کلایی کی والدہ ہمیں قرآن کا درس دیا کرتی تھیں۔

 

 

 

- بهار بیداری، خاطرات بازماندگان حماسه 15 خرداد دشت ورامین، تهران، رسول آفتاب، 1392، ص 99 و 100.

 


15khordad42.ir
 
صارفین کی تعداد: 23



http://oral-history.ir/?page=post&id=12698