انقلابی ٹیچر، طاغوتی پرنسپل
راوی: شھناز زکیانتخاب: فائزہ ساسانی خواہ
مترجم: سیدہ رومیلہ حیدر
2025-07-29
قدس سیکنڈری اسکول کے صحن میں داخل ہوئی۔ اسکول کی پرنسپل اپنے دفتر کی کھڑکی کے شیشے سے مجھے گھور گھور کر دیکھ رہی تھیں۔ ایس الگ رہا تھا کہ میرے ہر قدم پر وہ زیر لب کوئی چیز مجھ پر نثار کررہی تھیں۔ میں دفتر میں داخل ہوئی۔ پرنسپل اور انکی اسسٹنٹ کوٹ اور دامن پہنے ہوئے کاندھوں پر بال پبیلائے ایک دوسرے کے ساتھ ایک ہی لائن میں بیٹھی ہوئی تھیں۔ میں نے اپنا پوسٹر پرنسپل کے سامنے رکھا۔ انہوں نے اپنا سر اٹھائے بغیر مجھ سے کہا: " خالی کلاس نہیں ہے محترمہ، ساری کلاسیں بھری ہوئی ہیں۔"
آج یہاں میرا پہلا دن تھا اس لئے مجھے نا امید نہیں ہونا تھا۔ میں نے اپنی چادر سمیٹی۔
- کوئی بات نہیں۔ میں خود کوئی کلاس ڈھونڈ لیتی ہوں۔
میں نے مدرسہ کا ایک دورہ کیا تاکہ اپنی کلاس کے لئے کوئی خالی کمرہ مجھے مل جائے۔ پرنسپل اور انکے اسسٹنٹ خواتین کا حلیہ دیکھ کر میں سمجھ گئی تھی کہ یہ لوگ مجھے دیکھ کر پریشان ہیں۔ حالانکہ انقلاب کو ایک دو سال گذر چکے تھے، اور تمام خواتین حجاب نہیں کرتی تھیں اور میری چادر دیکھ کر انکا موڈ خراب ہوچکا تھا۔ میں ابھی پرسنپل کے کمرے میں پیش آنے والے واقعات کے بارے میں سوچ ہی رہی تھی کہ ایک گرد و خاک میں اٹی ہوئی میز اور کرسیوں سے بھری کلاس کے سامنے پہمچی۔ جہاں کوئی کمرہ نہ مل رہا ہو وہاں یہ کلاس غنیمت تھی۔ میں نے اپنی چادر کمر سے باندھی اور چند بچیوں کو آواز دی کہ میری مدد کریں جو اسی اسکول کے صحن میں کھیل رہی تھیں۔ کمرے میں موجود اضافی چیزوں کو باہر نکال کر صحن کے ایک کونے میں رکھا اور پانی کا پئب اور جھاڑو لے کر کمرے کی صفائی شروع کردی۔ آخری گھنٹی تک بہت زیادہ وقت باقی نہیں بچا تھا۔ میں نے چادر کی گرہ کھولی اور اسی حلیے کے ساتھ وہاں بیٹھ گئی۔ بچیوں کو جلدی جلدی بیٹھنے پر آمادہ کیا۔ جب تمام بچیاں بیٹھ گئیں تو میں نے قرآن کھول کر انکے سامنے ایک آیت کی تلاوت کی۔ آیت کی تلاوت کے دوران ایک بچی نے ہاتھ کھڑا کیا اور کہا: "استاد اجازت ہے؟ کیا آپ ٹیچر ہیں؟"
میں نے اپنے حلیے پر ایک نگاہ ڈالی اور دل ہی دل میں ہنسنے لگی۔ میرے مٹی میں اٹے ہوئے کپڑے اور چادر کو دیکھ کر حق بنتا تھا کہ مجھے اس مدرسے کی چوکیدار وغیرہ سمجھا جاتا۔
- کیا میں ٹیچر نہیں لگ رہی؟
وَ وَصَّیْنَا الإْنْسانَ بِوالِدَیْهِ إِحْساناً والی آیت انکے سامنے تلاوت کی اور اسکا ترجمہ کیا۔
- اللہ نے ہمیں اور آپ تمام افراد کو یہ تاکید کی ہے کہ ہم اپنے والد اور والدہ کے ساتھ مہربانی سے پیش آئیں اور انکا احترام کریں۔
اس کم وقت میں میں نے کچھ اور آیتوں کی تلاوت کی اور انکا ترجمہ کیا۔ ان میں سے بہت کم بچیوں کے گھروں میں قرآن موجود تھا؛ وہ بھی وہ پرانا چھپا ہوا قرآن جس میں ترجمہ نہیں ہوتا تھا۔ اسی وجہ سے میرا ٹوٹا پھوٹا ترجمہ اور تشریح ان بچیوں کے دل میں گھر کر گیا۔ ان کے رد عمل سے ایسا لگ رہا تھا۔ اگلے دنوں میں اور وقفے کے دوران، دوسری کلاسوں میں بھی جاکر ان کے سامنے آیتوں کی تلاوت کرتی اور انکے سامنے ان آیات کا ترجمہ کرتی۔ کچھ مہینوں بعد سازمان تبلیغات سے کچھ مذہبی اور قصے کہانیوں کی کتابیں حاصل کیں اور کلاس میں بچیوں کو ان سے آشنا کروایا۔ ان کتابوں کا اتنا پسند کیا گیا کہ میں نے اپنے شوہر کی مدد سے اسکول کے اندر ایک لائبریری بنا دی۔ کتاب کا بہانی ایک اچھا موقع تھا میں بچیوں کے ساتھ بے تکلف رابطہ برقرار کروں اور ان کے دل کی باتیں سنوں اور ان سے حجاب اور دیگر مذہبی موضوعات پر گفتگو کروں۔
1981 کے عشرہ فجر میں میں نے ایک تیر سے دو شکار کئے۔ بچیوں کی مدد سے اسکول میں کتاب اور حجاب کے موضوع پر ایک بڑی نمائش کا اہتمام کیا۔ البتہ اسکلول کی پرنسپل اسکے خلاف تھیں۔ انکے پہلے دن کے برتاؤ اور ان چند مہینوں میں میں متوجہ ہوچکی تھی ان کا دل انقلاب کی جانب مائل نہیں ہے اور یہ ہمدان کے باغیوں کے ساتھ ہیں۔
ایک دن جب میں بچیوں کے ساتھ نمائش میں بیٹھی ہوئی تھی تو ان سے رہا نہیں گیا اور میرے سامنے آگئیں۔ میں اپنی جگہ سے کھڑی ہوئی اور ان کی باتیں سننے کے لئے تیار ہوگئی۔
- صرف تم ہی کیوں؟
- کیا مطلب صرف میں پرنسپل صاحبہ؟
- صرف تم کیوں دین اور انقلاب کے بارے میں بات کرتی ہو؟ باقی لوگ بھی انسان ہیں اور بات کرنا چاہتے ہیں۔ وہ بھی اپنے عقیدے کا دفاع کرنا چاہتے ہیں۔
- معذرت چاہتی ہوں، میں نے تو کسی کا راستہ نہیں روکا۔
میری اور پرنسپل کی گفتگو کے اگلے دن، مجاہدین خلق اور فدائی گوریلاؤں کی حامی بچیوں نے پرسنپل کی حمایت سے ہماری کتابوں کی نمائش کے سامنے ایک نمائش شروع کردی اور اپنی کتابوں کا دفاع کرنے لگیں۔
ہمارے درمیان نا چاہتے ہوئے بھی مقابلہ شروع ہوگیا۔ ہمارے ارد گرد اتنا زیادہ رش بڑھ گیا اور ادھر ادھر سے سوالات پوچھے جانے لگے کہ سر کھجانے کی فرصت نہیں ملتی۔ بعض اوقات اتنے زیادہ سوالات پوچھے جاتے کہ آزویں گڈ مڈ ہوجاتیں اور کچھ سمجھ نہیں آتا۔ ہمارے پاس جتنا زیادہ رش اور شور شرابہ تھا سامنے والی نمائش میں اتنا زیادہ ہی سناٹا تھا۔
میں نے جدوجہد سے ہاتھ نہیں اٹھایا اور اپنی کوششیں جاری رکھیں۔ سال ختم ہونے لگا۔ میری کلاس میں 300 بچیاں شرکت کررہی تھیں۔ ایسی بچیاں جن کے سروں پر اسکارف تھے، میں نے انہیں گننا شروع کیا تو امتحان دینے کے لئے آںے والی 270 بچیوں کے سر ڈھکے ہوئے تھے۔ میں خوشی سے رونے لگی اور خدا کا شکر ادا کیا کہ اس نے میری مدد کی۔
oral-history.ir
صارفین کی تعداد: 10
http://oral-history.ir/?page=post&id=12697