سردار محمد جعفر اسدی کی یادداشتوں کا ایک ٹکڑا

جاودانہ جھوٹ

انتخاب: فائزہ ساسانی خواہ

ترجمہ: سیدہ رومیلہ حیدر

2025-07-22


جنوبی علاقوں کی جانب سے ہم بہت زیادہ آسودہ خاطر نہیں تھے، لیکن ہچکچاہٹ کا بھی کوئی موضوع نہیں تھا۔ ہم نے اپنے امور بٹالین کے سپرد کئے اور سردار قاسم سلیمانی اور المہدی کے متعدد ذمہ داروں کے ساتھ مغرب کی جانب نکل گے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ منافقین کو متحرک کرنے کے لئے کہا گیا تھا کہ ایران کے حالات اچھے نہیں ہیں، مثلا آپ برف کے گولے کی مانند ہیں جب آپ نکلیں گے تو تہران پہنچنے سے پہلے ہی آپ برفانی تودہ بن کر حکومت پر گر کر تباہ ہو جائیں گے۔ انہوں نے انہیں طیارہ شکن بندوقوں، ٹینکوں اور بندوقوں سے لے کر ہر قسم کے جدید ہلکے ہتھیاروں تک ہر طرح کی سہولیات فراہم کی تھیں۔ عراق کی مدد سے امریکہ اور سعودی عرب کی مشترکہ سازش کے نتیجے میں ایک نادان اور فریب خوردہ گروہ نے اپنے ہی ملک پر حملہ کر دیا تھا!

وہاں پہنچنے سے پہلے اسلام آباد شہر میں بہت سے جنگی جرائم انجام دیئے تھے، مثلا ایک اسپتال میں زخمیوں پر اندھادھند فائرنگ جس کے نتیجے میں سارے زخمی شہید ہوگئے تھے۔ اسکے بعد بہت ہی خاموشی سے کرمانشاہ کی طرف آگئے تھے تاکہ اسے فتح کرنے کے بعد تہران کا رخ کریں۔

چارزبر، کہ جو اسلام آباد اور کرمانشاہ کا درمیانی علاقہ ہے، وہاں انہیں پہلی رکاوٹ کا سامنا کرنا پڑا جو کہ آکری رکاوٹ بھی تصور کی جاسکتی ہے۔ اسی دن، پیغمبر اکرم ص 27 ویں ڈویژن سے تعلق رکھنے والے جوانوں کا ایک گروہ جو چارزبر کیمپ کے نزدیک بس کا انتظار کررہا تھا تاکہ اپنی چھٹیاں گھر جا کر گذار سکے لیکن بس کے آںے میں دیر ہوگئی اور انہیں اطلاع دی گئی کہ منافقین راستے میں ہیں جس کے بعد وہ وہاں رکنے پر مجبور ہوگئے۔

انہوں نے جا کر گھاٹی کو بند کردیا اور مورچہ بند ہوگئے۔ بظاہر ایک ٹیوٹا گاڑی تھی جسے ایک خاتون چلا رہی تھی، بہت ہی دیوانہ وار انداز میں منافقین کے پہنچنے سے پہلے وہاں آئی اور ٹکراتی ہوئی عبور کرگئی۔ جوانوں نے اس پر اندھادھند فائرنگ شروع کردی اور یہی اس جھڑپ کا نقطہ آغاز تھا۔

ہم سردار سلیمانی کے ساتھ دوسروں سے پہلے وہاں پہنچ چکے تھے، حی اسلام آباد کی سہ راہ پر انکے بعض لوگوں نے سڑک بند کرکے ہم پر فائرنگ بھی کی تھی۔

وہاں چوراہے سے کچھ پہلے ایک ایمرجنسی ایئرپورٹ تھا ہم وہاں پہنچے اور ہم نے دیکھا کہ سردار محسن رضائی بھی کچھ افراد کے ساتھ وہاں پہنچے ہوئے ہیں اور اسی ٹیلے کے پاس کچھ افراد سے گفتگو کررہے ہیں۔ ہم نے صورتحال کی رپورٹ دی۔ رضائی صاحب کے پاس ٹیلیفون کے امکانات نہیں تھے، لشکر المہدی کے مواصلات کے انچارج کریم مشغول کی مدد سے ہم نے اہواز رابطہ کیا اور سپاہ کے کمانڈر کے حکم پر فورسز کو بلانے کا اعلان کیا۔ اہواز سے فوجیں روانہ کرنے کے انچارج سرگرم ہوچکے تھے اور جب فوجیں جنوب پہنچیں تو اس سے پہلے کہ وہ گاڑیوں سے اتراتے انہیں مغربی علاقوں کی جانب روانہ کردیا گیا۔

منافقین کے خلاف کارروائیوں میں تیزی صیاد شیرازی لے کر آئے تھے۔ وہ تیزی سے اس علاقے میں فوجی طیارے اور ہیلی کاپٹر لے آئے اور جب تک ہم افواج اور توپ خانے کے سازوسامان کو تعینات کرنے اور افواج کو منظم  کرتے، طیاروں اور ہیلی کاپٹروں نے منافقین کے ٹھکانوں پر بمباری کی اور انکو منظم نہیں ہونے دیا۔ یہ تیسرے دن تھا کہ سب کچھ تیار تھا، اور آخری حملہ، جسے آپریشن مرصاد کہا جاتا ہے، تین محوروں سے شروع ہوا۔ وہاں پیغمبر اکرم(ص) ڈویژن کے جوانوں کے علاوہ، ثاراللہ، انصار الحسین اور المہدی بریگیڈ کی فوجوں نے بھی آپریشن میں حصہ لیا۔

منافقین جنہیں ان حملوں سے شدید نقصان پہنچا تھا اور عوام کی جانب سے حمایت کا دعویٰ انہیں وہم محسوس ہونے لگا تھا ناامید ہوکر فرار کرنے لگے۔ راستے میں انکی اکثریت یا تو ماری گئی یا گرفتار کرلی گئی اور انکی بہت کم تعداد عراقی سرحدوں کے اندر پہنچ پائی۔ جب ہم انکے جنازے دفنانے لگے تو ہمیں معلوم ہوا کہ انکی اکثریت نے گرفتاری کے خوف سے سائنائیڈ کے کیپسول نگل لئے تھے۔

مجھے یاد ہے کہ منافقین کے تعقب میں جب ہم کرند غرب نامی شہر کے قریب ہی پہنچے تھے کہ ایک بوڑھے شخص نے دونوں ہاتھ اٹھا کر ہمیں رکنے ہر مجبور کردیا۔ البتہ بوڑھا نہیں تھا میں خود بھی تیس سال عبور کرچکا تھا لیکن 20 یا 25 سالہ جوان کے سامنے وہ 50 سالہ شخص ایک بوڑھا ہی دکھائی دے رہا تھا۔ میں خود گاڑی چلا رہا تھا۔ میں نے سوال کیا: "کیا ہوا بابا جان؟" کوئی جواب نہیں دیا بس دعا دینے لگا اور بیٹھتے ہی کہنے لگا میں نے اسلام آباد میں سات پاسدار حوالے کئے، تمہارے چبوں بچیوں کو روٹی پانی دیا۔۔۔۔۔

ہماری گاڑی پہلی گاری تھی جو وہاں پہنچی تھی اور وہ بوڑھا یہ سمجھ رہا تھا کہ ہم منافقین سے تعلق رکھتے ہیں ۔ میں نے کہا: " کیا آپ مسعود رجوی کو دیکھنا چاہتے ہیں؟" اس نے کہا: " یہ تو میری خدا سے دعا ہے۔" میں نے کہا: "آپ نے اتنی بڑی خدمت کی ہے تو اس کا انعام تو آپ کو ملنا چاہئے"۔ اس نے دوبارہ برا بھلا کہنا شروع کردیا۔ اس نے قسم کھائی کہ اسے اب تک ایک کوپن بھی نہیں ملا تھا اور منتظر تھا کہ ہم آئیں اور اسے نجات دلائیں۔ ہم نے شہر پہنچتے ہی اسے سیکیورٹی فورسز کے حوالے کردیا اور اسے کہا کہ یہ لوگ تمہیں مسعود رجوی کے پاس لے جائیں گے!

راستے میں ہم نے ایک کار دیکھی جس کی ڈرائیونگ سیٹ پرایک منافق لڑکی تھی جس کے سر میں گولی لگی تھی اور اس کی ٹوپی اس کے ساتھ والی سیٹ پر گر گئی تھی۔ میں نے وہ توپی اٹھا لی۔ میرے پاس اب بھی ہے. اس نے اپنا نام اور بریکٹ میں مریم کا نام لکھا ہوا تھا۔ پھر ہم نے دیکھا کہ دوسرے لوگوں نے بھی ایسا ہی کیا تھا اور مسعود کا نام لکھا ہوا تھا، جس کا مطلب حماقت اور مسخ ہوجانے کے سوا کچھ نہیں تھا۔


oral-history.ir
 
صارفین کی تعداد: 59



http://oral-history.ir/?page=post&id=12680