پاوہ شہر کے اہل سنت امام جمعہ ماموستا ملا قادر قادری کی یادداشتیں

ماموستا 44

مصنف: علی رستمی

ترجمہ: ضمیر علی رضوی
ویرائش: یوشع ظفر حیاتی

2025-05-08


بانہ، آرزوؤں کا شہر(دوسرا حصہ)

1976 کے موسم سرما میں، میں نے  حوزۂ علمیہ سنندج کا سرٹیفکیٹ، تہران میں وزارت تعلیم کے دفتر میں جمع کرادیا اور انہوں نے عشرت آباد چورنگی پر واقع ملٹری سروس کے محکمے کو میرے لیے لازمی ملٹری سروس سے مستقل استثناء کارڈ جاری کرنے کے لیے لیٹر بھیجا۔

اس دن موسم بہت ٹھنڈا تھا اور میں نے غیر معمولی لباس پہنا ہوا تھا۔ سر پر عمامہ، اور کسی سے امانت لیا ہوا برساتی کوٹ اور جینز کی پینٹ پہنا ہوا تھا اور میں وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کے گریجویٹس ڈیپارٹمنٹ میں داخل ہوا۔ ایک ادھیڑ عمر خاتون نے میرا لیٹر پڑھ کر تعجب سے کہا: ’’آج تک کوئی اس حلیے میں وزارت سائنس کے دفتر نہیں آیا؛ یا مولانا اپنے مولانا کے لباس میں آتے ہیں یا یونیورسٹی طلباء اپنے معمول لباس میں۔ جناب آپ نے کہاں تعلیم حاصل کی ہے؟!‘‘

اس کے رویے سے میں پریشان ہوگیا اور میں نے فوراً جواب دیا: ’’مصر!‘‘ کیونکہ اس خاتون کے پاس آنے والے زیادہ تر لوگ، غیر ملکی یونیورسٹیز کے گریجویٹس تھے۔ پھر انہوں نے مزید پوچھا: ’’یعنی آپ نے مصر میں تعلیم حاصل کی ہے اور حوزۂ علمیہ سنندج نے اس کی تصدیق کی ہے؟‘‘

میں نے کہا: ’’جی ہاں!‘‘

مجھے لگ رہا تھا کہ اگر میں نے کہا کہ میں نے عراق اور بانہ میں تعلیم حاصل کی ہے تو شاید وہ میرا ملٹری سروس استثناء کا لیٹر نہ دے۔ وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کی اس محترمہ ملازمہ نے تجسس یا تحقیق کی خاطر تقریباً پندرہ منٹ تک مجھ سے نکاح موقت کے بارے میں کچھ سوالات پوچھے اور میں نے اپنا نظریہ بتادیا۔ اس کے سوالات اور نوٹس سے پتہ چل رہا تھا کہ وہ اہل تحقیق ہے۔ میں وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کا لیٹر عشرت آباد چوک(تہران کا موجودہ سپاہ چوک جو شہید صیاد شیرازی ہائی وے کے شروع میں واقع ہے) پر واقع ملٹری سروس کے شعبے میں لے گیا۔ تہران سے بانہ واپسی پر میں جانتا تھا کہ لازمی ملٹری سروس میں جانے سے میری جان چھوٹ گئی ہے۔ میں نے جناب ماموستا ملا محمود سے عرض کیا: ’’الحمد للہ، میری لازمی ملٹری سروس کی مشکل حل ہوگئی اور مجھے قانونی اجازت مل گئی ہے۔ خدا کے فضل و کرم سے میں تیار ہوں کہ آپ آئندہ کچھ مہینوں میں میرے لیے اجازت نامے اور عمامہ گزاری کی تقریب منعقد کریں۔‘‘

ماموستا نے مبارک باد دی اور رضا مندی کا اظہار کیا۔ جناب ماموستا ملا محمود بہت حساس تھے کہ طالب علم، دینی تعلیم کے علاوہ کہیں اور اپنا وقت صرف نہ کریں یہاں تک کہ اخبار اور رسالے پڑھنے میں بھی نہیں، لیکن دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ جناب ماموستا کی نظروں سے دور میں چھپ کر بانہ کے کورش ہائی اسکول میں جناب رؤف ظاہری صاحب کے پاس گیا اور  میں نے ہائی اسکول کے فرسٹ ایئر کی تعلیم کے لیے رات کی کلاس میں رجسٹریشن کروالی، میں نے ان سے درخواست کی کہ جناب ماموستا ملا محمود کو میری ہائی اسکول میں تعلیم کا پتہ نہ چلے۔ ظاہری صاحب نے میرے اس اقدام کا خیر مقدم کیا اور یہاں تک کہ انہوں نے مجھے مشورہ دیا کہ میں اپنی تعلیم کے ساتھ ساتھ ہائی اسکول کی دینی تعلیم کی تدریس بھی قبول کرلوں؛ یعنی طالب علم بھی بن جاؤں اور استاد بھی۔ میں نے انکار کردیا اور کہا کہ یہ سخت کام ہے، لیکن میں نے ان سے وعدہ کیا کہ میں نوٹس تیار کرکے دینی تعلیم کے حوالے سے ان سے تعاون کروں گا اور میں نے ایسا کیا بھی۔

میں چھپ کر پڑھائی کرتا تھا اور حجرے میں اپنی کتابیں چھپا دیتا تھا۔ میں نے باقی طالب علموں کو خبردار کر رکھا تھا کہ ماموستا کو میرے ہائی اسکول جانے کی خبر نہ ہونے پائے۔ روز رات کو میں انتظار کرتا تھا، جب جناب ماموستا عشاء کی جماعت پڑھا چکتے اور مسجد کے صحن سے باہر چلے جاتے تب میں تیزی سے ڈرتا کانپتا حوزے سے نکل کر رات کے ہائی اسکول چلا جاتا تھا۔

کچھ ماہ گزرے، ایک دن ہم ایک دوستانہ محفل میں بیٹھے ہوئے تھے۔ تکاب شہر کے جناب ملا رؤف ۔ شیخ دورود کے ہم زلف ۔ جن کا بانہ میں نوٹری پبلک آفس تھا اور اسی وجہ سے وہ علاقے کے لوگوں اور علماء کے لیے قابل احترام تھے، ان کے منہ سے نکل گیا اور انہوں نے کہہ دیا: ’’کیا برائی ہے اگر طالب علم، دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ دنیاوی تعلیم بھی حاصل کریں، جیسے جناب ملا قادر جو دونوں شعبوں میں بڑے فخر سے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔‘‘

ماموستا ملا محمود نے میری طرف دیکھا اور کہنے لگے: ’’آپ راتوں کو فارسی کی تعلیم حاصل کررہے ہیں؟ آج تک کسی نے مجھے دھوکا نہیں دیا۔ تم نے مجھے دھوکا دیا۔ جو بھی عربی درس کے ساتھ فارسی درس پڑھے گا، اس کے لیے میرے مدرسے اور حجرے میں کوئی جگہ نہیں۔‘‘

وہ بہت غصہ ہوئے۔ فارسی سے ان کی مراد، غیر عربی دروس اور حوزوی دروس کے علاوہ دوسرے دروس تھے۔ ماموستا ملا محمود کو ادبیات عرب سے ہٹ کر کوئی کتاب پڑھنا ہرگز منظور نہیں تھا اور اسی طرح وہ ریڈیو سننے کو بھی کسی صورت برداشت نہیں کرتے تھے۔ اس بات سے غافل کہ میرا ریڈیو ایران سے تو سروکار تھا ہی، اس کے علاوہ میں بی بی سی اور اسرائیل کا ریڈیو بھی سنتا تھا۔

مجھ سے جھوٹ برداشت نہیں ہوتا تھا۔ چاہے یہ جھوٹ اسرائیل کی جانب سے ہو یا پھر ’اسلام‘ کے نام پر کسی میگزین کی جانب سے۔ اسی وجہ سے میں مسلسل ان سے خط و کتابت کرتا رہتا تھا اور اپنا عقیدہ اور نظریہ پیش کرتا رہتا تھا۔ ایک رات ریڈیو اسرائیل نے کُردستان تحریک کی شکست اور جناب ملا مصطفیٰ بارزانی کے امریکہ سفر کے بعد کُردوں کے خلاف ایک پروگرام نشر کیا اور میں نے فوراً ہی اس پروگرام کی مذمت اور رد میں، اس ریڈیو کو ایک طویل خط لکھ کر پوسٹ کردیا۔ ریڈیو اسرائیل نے میرے رد اور اعتراض والے خط کو مسلسل دو راتوں تک نشر کیا اور بہت سے باسیوں نے اسے سنا بھی۔ میں بہت خوش تھا کہ تمام ماموستا اور حوزے کے اساتذہ خاص طور پر ماموستا ملا محمود میرے اور ریڈیو کے رابطے سے بے خبر ہیں۔

اسی طرح سنگلجی نامی ایک صاحب کی تہران میں ایک آرگنائزیشن تھی اور ڈاکٹر تقوی ایک ڈنٹسٹ ان کے ساتھ تعاون کرتے تھے اور ان کے اعتقادات کی ترویج کرتے تھے۔ وہ ایک ایسے شیعہ تھے جو بعض عقائد جیسے عقیدۂ توسل کو رد کرنے میں وہابیوں سے بھی زیادہ سخت تھے۔ میں نے ان کے نظریے کی مخالفت میں انہیں قریب تیس چونکا دینے والے خطوط لکھے۔ عجیب بات یہ تھی کہ یہ شخص شیعہ تھا لیکن وہ نماز کے سلام میں ’’السلام علیک ایھا النبی‘‘ پڑھنے کو شرک کہتا تھا اور کہتا تھا: ’’چونکہ پیغمبر اکرم ص حاضر نہیں ہیں لہٰذا کافِ خطاب کے ذریعے انہیں مخاطب نہیں کرنا چاہیے۔‘‘

بہرحال ماموستا نے فارسی درس پڑھنے کے جرم کے حوالے سے جامع مسجد کے حجرے میں مقیم رہنے کے لیے میری معذرت قبول نہیں کی۔ حجرے میں رہنے کے لیے میری التجا کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔ موسم سرما میں  دربدری میرے لیے بہت دشوار تھی خاص طور پر اس لیے کہ میں اجازت نامہ حاصل کرنے کے لیے مقالہ تیار کرنے میں مشغول تھا اور عنقریب مجھے اس مقالے کو علماء کے ایک گروہ کے سامنے پیش کرنا تھا اور اسے لکھنے کے لیے پریشانیوں سے دور ایک پرسکون جگہ کی ضرورت تھی۔

مختصر یہ کہ حجرے سے نکالے جانے کے اگلے دن میں شدید پریشانی کی حالت میں سید صالح مسجد کے ماموستا سید جلال حسینی کے پاس گیا۔ میرا حجرے سے جانا ماموستا ملا محمود کی بدنامی کا باعث بنا۔ کچھ طالب علم اور جامع مسجد کے محلے والے ماموستا ملا محمود پر اعتراض کر رہے تھے کہ ’’ملا قادر نے ایسا کون سا گناہ کیا ہے؟ دنیا میں کس جگہ علم حاصل کرنا حرام اور منع ہے؟ آپ نے اس کی حوصلہ افزائی کے بجائے اور اسے تنبیہ کرکے اس موسم سرما میں حجرے سے نکال دیا!‘‘

میں کچھ عرصے تک سید صالح  مسجد میں رہا۔ جناب ماموستا سید جلال حسینی ایک روشن خیال انسان اور کھلے ذہن کے مالک تھے۔ میں شہر بانہ کے جناب ملا نور الدین اور ملا رحیم چمپاراوی کے ساتھ جناب ماموستا سید جلال کی خدمت میں مختلف دروس سنتا اور پڑھتا تھا۔ میں زیادہ تر تفسیر المراغی(تألیف احمد مصطفیٰ، اس تفسیر کو ایک اجتہادی، تحلیلی، تربیتی، سماجی اور سائنسی تفسیر کہا جاسکتا ہے جو تقریب مذاہب اسلامی کے لیے بھی ہے) پڑھنے میں مشغول رہتا تھا۔

میں نے ہائی اسکول کا پہلا سال کامیابی کے ساتھ مکمل کرلیا۔ میرا بھانجا سہراب ولدبیگی اور رحیم امینی نوریاب سے بانہ آئے اور آخری سال کے لیے انہوں نے کورش ہائی اسکول میں رجسٹریشن کرالی۔ میں نے ان کے لیے سید صالح مسجد کے ساتھ ایک کمرہ کرائے پر لے لیا۔ ان کے ہونے سے مجھے ڈھارس ملتی تھی۔ ماموستا سید جلال جانتے تھے کہ میں اندر سے پریشان ہوں اور وہ کبھی کبھار مجھے فٹ بال کھیلنے کے لیے بلاتے تھے تاکہ میں اپنے حجرے سے نکالے جانے کو بھول سکوں۔ وہ ہمیشہ مجھے اہم کُردی، فارسی اور عربی اشعار سناتے رہتے تھے۔ وہ ہمارے اندر قومی جذبے اور حب الوطنی کو تقویت دینے کو پسند کرتے تھے۔ وہ اکثر ہمیں حجرے میں قلقشندی کا یہ شعر سناتے تھے:

                            ’’الاکرادُ کالاَسدِ اذا غضِبوا و کالنمر اذا وثبوا‘‘

(کُرد لوگ غصے میں شیر کی طرح غضبناک ہوتے ہیں اور جنگ میں تیندوے کی طرح دشمن پر حملہ کرتے ہیں۔)

ان کا زیادہ تر مطالعہ، شیخ ابن تیمیہ اور ابن جوزی کی کتب میں تھا۔ وہ شاہ اور طاغوت کی حکومت کے بالکل خلاف تھے اور اس کے باوجود کہ وہ خود پہلے ایک متعصب صوفی اور مشائخ بیارہ(نوسود ضلع کے ہانی گرملہ گاؤں کے سامنے عراق کے کردستان کا ایک سرحدی شہر) کے پیروکار تھے، صوفیاء اور درویشوں کی طریقت سے متفق نہیں تھے۔

ایک رات ماموستا سید جلال کو شیخ ملا علی مسجد میں پیغمبر اکرم ص کے میلاد نامے کی محفل میں شرکت کے لیے دعوت دی گئی۔ میں نے اور جناب ملا نوری اور ملا رحیم نے بھی اس میں شرکت کی۔ بانہ کے لوگوں میں یہ رسم تھی کہ جب مولود نامے کے آخر میں جناب آمنہ(س) کے آخری جملے پر پہنچتے تھے کہ آپ نے فرمایا: ’’وَلَدتُ محمداً‘‘(میں نے محمد کو پیدا کیا)، تو سب لوگ احترام میں کھڑے ہوجاتے تھے۔ اس رات، لوگوں کے عرف کے مطابق ہم سب کھڑے ہوگئے۔ ماموستا سید جلال نے کہا: ’’بیٹھ جائیں یہ بدعت ہے۔‘‘

کسی نے بھی یہاں تک کہ خود ہم نے یعنی سید جمال کے طالب علموں نے بھی ان کی بات نہیں سنی۔ انہوں نے کئی بار اس بات کو دہرایا۔ وہاں موجود ایک مولانا ملا قادر عباسی نے کہا: ’’ماموستا! کچھ ماہ پہلے شہر کے چوک پر شاہ کے مجسمے کے ساتھ شہنشاہی جشن کے لیے جب ہم دو گھنٹے تک کھڑے تھے تب آپ نے اعتراض کیوں نہیں کیا؟ وہ بدعت نہیں تھا؟‘‘

محفل ختم ہوگئی۔ جب ہم مسجد سے باہر نکلے تو ماموستا ہم تینوں پر برس پڑے اور کہنے لگے: ’’وہ تو اکثر عوام تھے۔ مجھے ان سے کوئی شکوہ نہیں، لیکن تم لوگوں نے ایسا کیوں کیا؟‘‘

ماموستا سید جلال کو اتنا شدید غصہ تھا کہ اس رات جب ہم حجرے میں پہنچے، تو انہوں نے ہم تین لوگوں کو بلایا۔ وہ ایک کتاب لائے اور سبق دہرانے کے بہانے انہوں نے ہم سے پڑھنے کو کہا۔ ہمارا ایک لفظ غلط پڑھنا ہی کافی تھا کہ ماموستا فوراً ہمیں ڈانٹنے لگتے اور ہمیں، ہمارے ساتھیوں کے سامنے رسوا کرنے لگتے۔ وہ میلاد نامہ خوانی کے وقت ہمارے کھڑے ہوجانے پر بہت غصہ تھے اور ہمیں جاہل کہہ رہے تھے اور بار بار کہہ رہے تھے: ’’اے جاہلو! تمہاری علمی سطح تو خلیفہ قاسم جتنی ہے۔‘‘

خلیفہ قاسم ایک ناخوانا شخص تھا جو طریقت کے دفاع میں بانہ شہر کے مشہور علماء کی مخالفت کرتا تھا۔ ہم ماموستا سید جلال کی اس انتہا پسندی پر خاموش رہے اور کوئی جواب نہیں دیا۔ اس رات ہم نے بڑی مشکل سے جناب ماموستا سے نجات پائی۔



 
صارفین کی تعداد: 52



http://oral-history.ir/?page=post&id=12561