پاوہ شہر کے اہل سنت امام جمعہ ماموستا ملا قادر قادری کی یادداشتیں

ماموستا 43

مصنف: علی رستمی

ترجمہ: ضمیر علی رضوی
ویرائش: یوشع ظفر حیاتی

2025-05-08


بانہ، آرزوؤں کا شہر(پہلا حصہ)

سن 1973 کے میرے باقی ایام، تعلیم جاری رکھنے کے حوالے سے شک و تردید اور غم و غصے میں گزارے۔ کسی دن، میں نہیں ہوتا تھا، کسی دن ماموستا نہیں ہوتے تھے اور کسی دن ہم دونوں ہی نہیں ہوتے تھے۔ سن 1974 کا موسم بہار آیا اور ماموستا تدریس کے لیے نہیں آئے اور انہوں نے حجرے میں آنے سے بھی گریز کیا۔ ایک دن میں نے اپنے ساتھ کے طالب علموں سے کہا: ’’میں ایک بار شہر سقز اور بانہ ہوکر آتا ہوں، میں ایک مناسب جگہ ڈھونڈ کر جلدی لوٹ آؤں گا۔‘‘

میں سرشیو(مریوان شہر کا ایک ضلع) روڈ سے سقز گیا اور رات، جامع مسجد کے حجرے میں گزاری۔ جامع مسجد کے طالب علموں نے کہا: ’’سقز ۔ مریوان کے راستے میں خردہ لوکی(اس کی وجہ تسمیہ شاید وہاں موجود زمین کے ٹکڑوں کے مالک ہوں) گاؤں میں شاید جگہ خالی ہو۔‘‘

میں خردہ لوکی گاؤں چلا گیا۔ جناب ماموستا ملا حسین علائی، بہت گرم جوشی سے مجھ سے ملے اور کہنے لگے: ’’میں بہت چاہتا ہوں کہ آپ لوگوں کی خدمت کروں لیکن یہ سال اچھا نہیں ہے۔ بارشیں کم ہوئی ہیں اور کھیتی باڑی، گندم، جو اور چنے کی صورتحال بہت خراب ہے۔ کسانوں نے مجھ سے کہا ہے کہ اس سال طالب علموں کو گاؤں چھوڑ کر جانا ہوگا؛ ہم سے ان کی خدمت اور مہمان نوازی نہیں ہوسکے گی۔ تم سردرہ(سرشیو ضلع کا ایک) گاؤں جاؤ اور ملا حسین کو میرا سلام کہنا۔ شاید سردرہ میں تم اپنی تعلیم جاری رکھنے میں کامیاب ہوجاؤ۔‘‘

میں دو گھنٹے پیدل چلا۔ سردرہ گاؤں انچائی پر تھا بالکل ہمارے علاقے کے بلبزان گاؤں کی طرح۔ میں گاؤں پہنچا اور ماموستا ملا حسین کے گھر گیا۔ ماموستا ایک بوڑھے آدمی تھے؛ قریب پینسٹھ برس کے۔ ان کی زوجہ چپاتیاں بنا رہی تھیں۔ میں نے ماموستا کو ساری بات بتائی۔ انہوں نے فرمایا: ’’مجھے پڑھانے میں کوئی مسئلہ نہیں، مسئلہ یہ ہے کہ گاؤں میں طالب علموں کے لیے کوئی حجرہ نہیں ہے، مگر یہ کہ آپ لوگ مسجد کے صحن کو رہنے کے لیے تیار کرلیں۔‘‘

میں نے ان سے مسجد کا پتہ لے لیا۔ میں مسجد گیا تو دیکھا کہ مسجد کے صحن میں پرانے بھوسے اور چارے کو جمع کرکے رکھا ہوا ہے اور اس کےبرابر میں ایک گدھا لیٹا ہوا ہے۔ ماموستا کے خیال میں، میں اس جمع شدہ بھوسے اور چارے کو اکٹھا کرکے ہٹادوں اور اس گدھے سے اس کے آرام کی جگہ چھین لوں اور وہاں رہوں۔ میں ماموستا کی خدمت میں واپس آیا اور بہت ادب سے ان سے کہا کہ میں یہاں نہیں پڑھ سکتا۔

میں سقز لوٹ گیا۔ میں بہت تھکا ہوا تھا۔ عصر کی نماز کے بعد، بانہ سے تعلق رکھنے والے ایک طالب علم نے مشورہ دیا کہ ہم شہر کے پارک کا ایک چکر لگا کر آتے ہیں۔ وہاں مرد و خواتین ایک ساتھ آزادی اور دینی حدود کی رعایت کے بغیر آجا رہے تھے۔ اس دن تک میں نے اس قسم کا منظر نہیں دیکھا تھا۔ میں کچھ صوفی مزاج کا مالک تھا۔ میں بہت پریشان ہوا اور میں نے مدرسے لوٹنے کا مشورہ دیا۔ اسی محترم طالب علم جس کا نام مجھے یاد نہیں، مجھے ایک خط لکھا کہ میں بانہ میں ماموستا ملا عبد اللہ شیخ ملا علی کی خدمت میں جاؤں۔ سقز سے بانہ کا فاصلہ تقریباً ساٹھ کلومیٹر تھا۔ میں بس سے بانہ کے لیے روانہ ہوگیا۔ درۂ خان سے گزرا اور بانہ پہنچ گیا۔ حاجی ماموستا ملا عبداللہ کا پتہ پوچھا اور ان کی خدمت میں پہنچ گیا۔ ماموستا بہت بوڑھے ہوچکے تھے۔ ان کے گھر میں ایک بہت بڑا کتب خانہ تھا جس نے میری توجہ کو مبذول کیا۔ انہوں نے مجھ سے مل کر فرمایا: ’’عصر کی نماز کے بعد ہم، جامع مسجد کے مدرس ماموستا ملا محمود محمدی کے پاس جائیں گے اور خدا نے چاہا تو تمہارا کام ہوجائے گا۔‘‘

عصر کی نماز کے بعد میں جناب ماموستا کے ساتھ ماموستا ملا محمود محمدی کے گھر گیا۔ ماموستا ملا عبداللہ کے اصرار پر جناب ماموستا ملا محمود راضی ہوگئے کہ میں اور میرے ساتھ تین طالب علم آجائیں اور جامع مسجد کے دینی مدرسے میں جگہ لے لیں۔ میں بڑی مشکل سے مریوان واپس پہنچا۔ کچھ وقت گزرا اور میں نے اپنی تیاری کرلی۔ ایک دن میں تین طالب علموں کے ساتھ جن میں سے ایک ملا محمد ناوی تھے اور دو طالب علم مریوان کے سرشیو کے تھے، مریوان اور سقز کے راستے بانہ کے لیے روانہ ہوگئے۔ اپریل 1974 میں، میں نے بانہ کی جامع مسجد کے حجرے میں اپنی پڑھائی شروع کردی۔ میں روزانہ تین درس پڑھتا تھا: جمع الجوامع، گلنبوی آداب اور کتاب منہاج کی بحث طلاق۔

1795 کے ماہ رمضان المبارک میں، میں پاوہ شہر لوٹ آیا اور (جوانرود کاؤنٹی کے)’دہ لیلی پلنگانہ‘ گاؤں میں ماہ رمضان کا امام جماعت بن گیا۔ زیادہ تر دن میں گاؤں کے ایک بزرگ حاجی فرج محمدی کے گھر میں رہا۔ لوگوں نے مجھ وعدہ لیا کہ عید الاضحیٰ کی دو رکعت نماز کے لیے میں دہ لیلی واپس آؤں۔ میں نے کہا کہ موسم سرما ہے اور راستہ بھی بہت خراب ہے لیکن وہ نہیں مانے۔ جب عید الاضحیٰ میں دو دن باقی تھے تو میں بانہ سے دہ لیلی کے لیے روانہ ہوگیا۔ میں نے وعدہ کرلیا تھا اور وعدہ خلافی ممکن نہیں تھی۔ سخت سردی تھی اور روڈ برف سے بھرا تھا۔ میں بڑی مشکل سے سنندج پہنچا اور رات ایک مسافر خانے میں گزاری۔ اگلے دن روز عرفہ تھا، عصر کی نماز کے وقت میں دہ لیلی پہنچ گیا اور رات حاجی فرج محمدی کے گھر گزاری۔

عید کے دن، میں نے لوگوں کو عید الاضحیٰ کی نماز پڑھائی۔ موسم بہت ٹھنڈا تھا اور میں ہیٹر کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ ہیٹر کے آس پاس سیمنٹ کا فرش تھا اور کارپٹ نہیں تھا۔ گاؤں کے ایک باسی نے جسکا لقب [۔۔۔] تھا ایک خاص غرور کے ساتھ دو میٹر کی دوری سے ایک تومان کے دو سکے آہستہ سے میری طرف اچھالے جو ہیٹر کے پاس زمین پر گرے اور ان کی آواز آئی۔ جب سکے گر گئے تو اس نے تکبر والے لہجے میں مجھ سے کہا: ’’ماموستا، ایک تومان میری طرف سے اور ایک تومان میرے بھائی کی طرف سے ہے۔‘‘

میں نے عید الاضحیٰ کی نماز پڑھانے کے لیے بانہ سے دہ لیلی تک برف اور برفانی طوفان کے سفر کی مشقتیں صرف لوگوں سے کیے اپنے وعدے کو نبھانے کے لیے اٹھائی تھیں، نہ ان دو سکوں کے لیے جو لوگوں کے بیچ اس طرح میری طرف پھینکے گئے۔ اس کے رویے سے مجھے بہت دکھ ہوا اور میں مسجد سے باہر چلا گیا۔ لوگوں کی معذرت کو نظرانداز کرتا ہوا میں سیدھا کرمانشاہ ۔ پاوہ روڈ کی طرف چلا گیا۔ گاؤں کا ایک باسی جس کا نام حاجی عبداللہ تھا، وہ ایک متدین شخص تھا اور اس کی مالی حالت بھی اچھی تھی، میرے پیچھے آیا اور اس نے مجھے سو تومان پیش کیے اور معذرت کی۔ میں نے پیسے نہیں لیے اور کہا: ’’میں آپ لوگوں کے احترام اور اپنے کیے وعدے کی خاطر اس سخت سردی میں قریب تین سو کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے آیا ہوں۔ یہ تھا آپ لوگوں کا مہمان نوازی کا طریقہ؟‘‘

میں دہ لیلی سے نوریاب چلا گیا اور دو دن تک اپنے گھر والوں اور والدہ کے پاس رہا۔ بڑی مشکل سے میں نے اپنے گھر والوں سے گاڑی کا کرایہ لیا اور بانہ کے لیے نکل پڑا۔ سقز اور بانہ کے بیچ ہماری منی بس برفانی طوفان میں پھنس گئی اور نو گھنٹے تک ہم راستے میں پھنسے رہے۔ آدھی رات کو ہم بانہ پہنچے۔ ایک سال سے زیادہ میں نے بڑی محنت اور لگن کے ساتھ اپنی اعلیٰ تعلیم کو جاری رکھا۔ میں روزانہ حاجی ماموستا ملا محمود محمدی کی خدمت میں جو واقعی میں ایک فاضل آدمی، باصلاحیت مدرس اور منظم پرنسپل تھے، تفسیر، اصول فقہ اور فقہ کے خاص ابواب پڑھتا تھا اور اس کے ساتھ ساتھ وقفے کے باوجود سنندج کے امتحان افتا میں شرکت کے لیے مسلسل مطالعے اور تحقیق میں کوشاں رہتا تھا۔

میں نے اپنے دوستوں سے امتحان افتا کی تاریخ لے لی تھی۔ میں بہت گھبرایا ہوا تھا۔ میں سنندج کا باضابطہ طالب علم نہیں تھا اور امتحان کے حوالے سے مجھے کچھ معلوم بھی نہیں تھا۔ امتحان کے نتیجے نے میری زندگی کا فیصلہ کرنا تھا۔ میں پاوہ اور نوریاب لوٹ آیا اور پھر میں خانقاہ گاؤں میں جناب شیخ نجیب اشرافی کی خدمت میں پہنچا اور ان سے درخواست کی کہ وہ جناب ماموستا ملا خالد مفتی جو ان کے رشتے دار تھے، ایک خط لکھ دیں کہ مجھے امتحان میں شرکت کرنے کی اجازت دے دی جائے؛ کیونکہ جناب مفتی امتحان منعقد کرنے والوں میں سے ایک تھے۔ جناب شیخ نجیب نے فرمایا: ’’میں ماموستا ملا علی صبار جو ایک فرمانبردار اور مخلص شخص اور دوست ہیں، کو خط لکھ دیتا ہوں۔ میں جناب خالد کو زحمت نہیں دوں گا۔‘‘

انہوں نے ماموستا ملا علی صبار کے نام خط لکھا۔ جناب ماموستا علی مولانا کا لباس اور وقار کی حفاظت کرنے والے سنندج کے ہائی اسکولز کے ڈائریکٹر تھے۔ وہ ایک زاہد مولانا، آج کی ثقافت اور ادبیات پر عبور رکھنے والے اور خاص طور پر انگریزی زبان پر عبور رکھنے والے ایک ماہر اور مشہور شخص تھے۔

اگلے دن جو امتحان کا دن تھا، صبح آٹھ بجے میں نے ماموستا کے گھر میں ان سے ملاقات کی اور انہیں خط پیش کیا۔ خط پڑھنے کے بعد انہوں نے فرمایا: ’’امتحان کب شروع ہوگا؟‘‘

میں نے عرض کیا: ’’آج صبح نو بجے۔‘‘

جناب ماموستا نے فرمایا: ’’اٹھو ہم ساتھ جامع مسجد میں امتحان لینے والوں کے پاس چلتے ہیں۔‘‘

ان کا گھر وہیں روڈ پر جامع مسجد کی طرف تھا۔ ہم دس منٹ بعد امتحان کی جگہ پہنچے۔ سنندج کے ماموستا شیخ الاسلام اور کُردستان کے ماموستا ملا خالد مفتی اور دوسرے کچھ لوگ وہاں موجود تھے اور قریب بیس علماء اور جوان طالب علم بالکل تیار تھے اور امتحان کے وقت کا انتظار کر رہے تھے۔ ماموستا ملا علی صبار نے فرمایا: ’’میں حاجی شیخ نجیب اشرافی کا نمائندہ ہوں۔ میں صرف یہ درخواست کرنے آیا ہوں کہ آپ لوگ، جناب ماموستا ملا قادر قادری کو امتحان میں شرکت کی اجازت دے دیں۔ پھر پاس ہونے یا نہ ہونے کے ذمہ دار وہ خود ہیں۔‘‘

پہلے انہوں نے کہا: ’’مشکل ہے۔ انہوں نے پہلے رجسٹریشن نہیں کرائی ہے۔‘‘ لیکن جناب ماموستا ملا علی کے اصرار پر انہوں نے مجھے امتحان میں شرکت کی اجازت دے دی۔ میں بہت خوش ہوا۔ وہاں موجود شرکت کرنے والے مولاناؤں اور طالب علموں میں سے میں صرف دو افراد کو ہی پہچانتا تھا: پاوہ کے جناب عین الدین ضیائی کو اور بانہ کے ملا قادر عباسی کو۔

میری پوری تیاری تھی اور خدا کے فضل و کرم سے میں اپنی تیاری سے مطمئن تھا۔ تقریباً آدھے گھنٹے بعد  امتحانی پرچے تقسیم کیے گئے۔ خدا کی توفیق سے میں امتحان میں پاس ہوگیا۔ جناب ماموستا شیخ الاسلام سنندجی اور کُردستان کے ماموستا ملا خالد مفتی نے میرے پاس ہونے کا سرٹیفکیٹ جاری کرکے اور اس پر دستخط کردیے۔[1]

 

                                                                                                       جاری ہے۔۔۔

 


[1]  بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ، جناب ملا قادر قادری، نوریاب ہورامان سے جاری شدہ برتھ سرٹیفکیٹ نمبر 318، 1948 میں پیدا ہونے والے، سنندج کے رہائشی، اہل سنت کے فاضل، عباس کے بیٹے ہیں اور 15 سال سے عقلی اور نقلی علوم دینی حاصل کرنے میں مشغول ہیں، حسن اخلاق کے مالک اور مجرمانہ ریکارڈ سے مبرا ہیں، انہوں نے ستمبر 1975 کے امتحان افتا میں کامیابی حاصل کرلی ہے، ہم نے مذکورہ فرد کو یہ اجازت دے دی ہے کہ وہ حضرت امام شافعی(رہ) کے اعلیٰ مذہب کے مطابق فتوی دے۔ یہ کاغذ انہیں وزارت سائنس اینڈ ہائر ایجوکیشن کی کونسل کو پیش کرنے اور سرکاری سرٹیفکیٹ میں تبدیل کرنے لیے دیا جارہا ہے تاکہ وہ اس کے فوائد حاصل کرسکیں۔ 

 



 
صارفین کی تعداد: 45



http://oral-history.ir/?page=post&id=12560