پاوہ شہر کے اہل سنت امام جمعہ ماموستا ملا قادر قادری کی یادداشتیں

ماموستا 38

مصنف: علی رستمی

ترجمہ: ضمیر علی رضوی
ویرائش: یوشع ظفر حیاتی

2025-02-26


 کانی میران(گاؤں)

چھ ماہ بعد، یعنی سن 1972(1351) کے موسم خزاں کے آخر میں، میں  دورود گاؤں کو چھوڑ کر کانی میران گاؤں چلا گیا اور ماموستا ملا علی سعادتی افشاری کی خدمت میں علم منطق کی عبد اللہ یزدی کی کتاب ’موجّھات‘ کے باقی حصے کی پڑھائی شروع کردی۔ مجھ سے کم سطح کے تین چار طالب علم میرے ساتھ تھے اور بہت کم ہی ایسا ہوتا تھا کہ وہ مجھ سے الگ ہوں۔ البتہ اس بار کانی میران، سن 1968(1347) کے کانی میران سے بہت مختلف تھا اور تعلیم، لوگوں کے احترام اور رہنے کی سہولیات کے اعتبار سے قابل موزانہ نہیں تھا۔ میں تقریباً سترہ مہینے کانی میران میں رہا۔ جناب ماموستا ملا علی، ایک عالم فاضل شخص تھے جو حصول علم کو بہت اہمیت دیتے تھے۔ اپنے قیام کے دوران میں نے ان کے علم سے بہت کسب فیض کیا۔ ماموستا کے مؤثر کاموں میں سے ایک میرے اور مرانہ(گاؤں) کے باسیوں کے درمیان صلح تھی۔ ہم کئی مرتبہ مرانہ(گاؤں) گئے اور ہم نے مرانہ کے باسیوں اور گاؤں کے سردار حسن سے معافی مانگی اور وہ لوگ بھی کئی مرتبہ ہم سے ملنے آئے۔

کانی میران کے لوگ بہت جذباتی اور محبت کرنے والے لوگ تھے اور طالب علموں کا بہت احترام کرتے تھے۔ وہ لوگ موسم خزاں میں اپنی گندم اور اناج کی زکوٰۃ، طالب علموں کو دیتے تھے۔ کبھی کبھار ہم یہ زکوٰۃ لینے لوگوں کے گھر جاتے تھے اور چائے بھی پیتے تھے اور وہ لوگ بھی پوری رغبت کے ساتھ اور اپنے وظیفے کے مطابق اپنی زکوٰۃ ہمیں دے دیتے تھے۔ ایک رات ہم خلیفہ عارف نامی شخص کے گھر گئے۔ ہمارے گھر میں داخل ہوتے ہی اور ہمیں چائے پلانے سے پہلے ہی خلیفہ عارف نے اپنے بیٹے اور بھائی سے کہا: ’’دف لاؤ اور ماموستاؤں کے لیے کچھ دف بجاؤ۔‘‘

ترانہ اور دف بجنا شروع ہوگئی اور انہوں نے بڑی گرم جوشی سے ہماری مہمان نوازی کی۔ ہم نے مختلف موضوعات پر بات کی۔ میں نے امر بالمعروف کے عنوان سے جناب خلیفہ عارف سے کہا: ’’جناب عالی، مسجد، نماز جمعہ اور نماز جماعت میں نظر نہیں آتے۔‘‘

انہوں نے جواب دیا: ’’جی بھائی، آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ ایک رات میں نے خواب دیکھا کہ مجھے خبر دی گئی کہ میں مسجد نہ جاؤں۔‘‘

مجھے بہت حیرت ہوئی اور میں نے پوچھا: ’’یہ حکم آپ کو کس نے دیا؟‘‘

انہوں نے بڑی سنجیدگی سے کہا: ’’میں نے خواب میں دیکھا کہ مسجد اور اس کے حوض کے بیچ گھوڑے پر سوار ایک شخص تھا۔ وہ بہت نورانی شخصیت تھی۔ میں مسجد کی طرف جا رہا تھا۔ انہوں نے کہا: ’عارف کہاں جارہے ہو؟‘ میں نے کہا: ’جناب میں مسجد جا رہا ہوں۔‘ انہوں نے کہا: ’آپ کو مسجد جانے کی اجازت نہیں ہے۔ کانی میران کی مسجد جھوٹ، غیبت اور فتنے کی جگہ بن چکی ہے۔‘ میں نے کہا: ’جناب، آپ کون ہیں؟‘ انہوں نے بتایا: ’میں عبد القادر جیلانی[1] ہوں۔ میں آپ کو حکم دیتا ہوں کہ آپ مسجد نہیں جائیں گے۔‘‘

خلیفہ عارف کی باتیں سن کر مجھے بہت دکھ ہوا اور میں نے کہا: ’’خلیفہ صاحب، یہ شیطان کا وسوسہ ہے۔ عارف خدا شناس۔ عبد القادر جیلانی کو نماز جمعہ، نماز جماعت اور مسجد نے انسانی کمالات تک پہنچایا ہے اور انہیں عبد القادر جیلانی بنایا ہے نہ کسی اور چیز نے۔ خدا کے لیے آپ اس پر نظر ثانی کریں اور دوبارہ مسجد آئیں۔‘‘

جب ہم مریوان کے مختلف گاؤں میں تھے تو فرقہ بہائیت کی تبلیغ کی ملی جلی اور مایوس کنندہ خبریں سنتے تھے اور کہا جارہا تھا کہ گیلانی نامی شخص کا دواخانہ، مریوان میں بہائیت کی دعوت کا مرکز بن چکا ہے اور دوائی خریدنے آنے والے اکثر افراد کو وہ گمراہ کر رہے ہیں۔ گیلانی کے بہت سے گاہک یہ سمجھ رہے تھے کہ گیلانی اور دورود کے شیخ صاحب کا کوئی تعلق ہے کیونکہ شیخ، طبابت بھی کرتے تھے اور لوگ تجویز کردہ دوائیں لینے کے لیے گیلانی کے دواخانے سے رجوع کرتے تھے۔

بہائیت نے شاہ کی حکومت کے سائے میں اور ان لوگوں کی پشت پناہی سے پوری آزادی کے ساتھ، اہل سنت کُرد نشین علاقوں تک اپنی سرگرمیوں کا دائرہ کار بڑھا لیا تھا اور اس بیچ وہ اکیلا شخص جس نے کُردستان میں اس گمراہ فرقے کے خطرے کے بارے میں آواز اٹھائی، وہ احمد مفتی زادہ صاحب تھے کہ جن کی کیسٹیں سنندج، بانہ اور مریوان جیسے شہروں میں لوگ سنا کرتے تھے۔ میں نے مفتی زادہ صاحب کا نام بہت سنا تھا اور میں نے ان کی جو پہلی کیسٹ سنی تھی وہ وہی تھی کہ جس میں وہ بہائیت کے خطرے سے آگاہ کر رہے تھے۔

بدقسمتی سے بہائیت کی تبلیغ، پاوہ تک بھی پہنچ چکی تھی۔ اپنے پاوہ کے سفر کے دوران میں نے سنا کہ پاوہ کی ڈسپنسریز کے نیٹ ورک کا سربراہ، ایک بہائی شخص ہے۔ مفتی زادہ صاحب کی انکشافاتی تقریروں کی مدد سے جو میں نے پہلے سن رکھی تھیں، میں نے کئی نشستوں میں عوام کو آگاہ اور ہوشیار کرنے کے لیے بہائیت کے خطرہ کو بیان کیا۔

 

 

 


[1]  عبد القادر جیلانی(1011۔1166)، جن کا لقب غوث جیلانی تھا، آپ کا پورا نام ’عبد القادر بن صالح جنگی دوست جیلانی، آپ پانچویں اور چھٹی صدی ہجری کے ایرانی شاعر، عارف اور  صوفی تھے۔ آپ تصوف کے سلسلہ قادریہ کے بانی، صوفیوں کے ایک مشہور شیخ اور شیخ طریقت ہیں۔ آپ کے دیگر القاب ثموت الثقلین، شیخ کل، شیخ مشرق اور محی الدین ہیں۔



 
صارفین کی تعداد: 38



http://oral-history.ir/?page=post&id=12438