ماموستا 37
مصنف: علی رستمی
ترجمہ: ضمیر علی رضوی
ویرائش: یوشع ظفر حیاتی
2025-02-26
سلین میں رات گزارنا اور دورود کی خانقاہ میں قیام
ہم دورود کے راستے میں دو راتوں تک ملا ابراہیم سلینی کے گھر والوں کے مہمان رہے۔ ایک رات ہم ان کے گھر میں سلین کے باغوں میں اور دوسری رات پہاڑیوں میں ان کے گرمیوں کے ہٹ میں سوئے اور پھر ہم دورود کے لیے روانہ ہوگئے۔ یہ دوسری بار تھا کہ ہم اس گاؤں میں اور اس کی خانقاہ میں جا رہے تھے۔
ایران اور عراق کے نقشبندی خاندان کے بزرگ، جناب شیخ عثمان نقشبندی جنہوں نے سن 1959(1338) میں عبد الکریم قاسم[1] کی کمیونسٹ حکومت کے مظالم کی وجہ سے ایران میں پناہ لے لی تھی، کی موجودگی کی وجہ سے ایران اور عراق کے کُردستان اور دوسری ایرانی اور غیر ایرانی اقوام کے نقشبندی مریدوں کے لیے دورود گاؤں، افکار کے تبادلے اور آمد و رفت کا ایک مرکز تھا، لیکن ان امور سے ہٹ کر ہماری توجہ صرف دینی علوم کے حصول پر تھی۔
دورود اب چند سال پہلے والا دورود نہیں تھا۔ جناب ماموستا ملا محمود کالی مریوانی، جناب شیخ کی درخواست پر حال ہی میں مدرس کی حیثیت سے دورود آگئے تھے اور خانقاہ کے ساتھ ان کے لیے ایک حجرے کا انتظام کیا گیا تھا۔ انہوں نے حال ہی میں شادی کی تھی اور انہیں تدریس اور تعلیم بہت پسند تھی۔ جب میں نے یہ خبر سنی تو مجھے بہت خوشی ہوئی۔ ہم ان کی خدمت میں پہنچے اور ان سے شاگردی کی اجازت مانگی۔ ماموستا نے کھلے دل کے ساتھ ہماری درخواست قبول کرلی۔ میں نے ان کی خدمت میں علم منطق کی کتاب ’مغنی الطلّاب‘ تألیف جناب ابھری شروع کی اور دورود کے حجرے میں چھ ماہ کے قیام کے دوران میں نے یہ کتاب اور عبد اللہ یزدی کی علم منطق کی کتاب ’مُوجّھات‘ تقریباً آدھی پڑھ لی۔ اس دوران، میں نے دورود میں تعلیم کے ساتھ ساتھ کئی مسائل، مطالب اور نکات دیکھے اور سنے۔
ملک کے اردگرد کے خطوں یہاں تک کہ عرب اور مشرق وسطیٰ کے ممالک سے بھی جناب شیخ کے عقیدتمند دورود آتے تھے اور خانقاہ میں کچھ وقت گزارتے تھے۔ ان میں سے ایک مشہور و معروف شخص جسے دورود کی خانقاہ کے اکثر رہائشی اور مقیم پہچانتے تھے، حاجی عدنان لبنانی تھے کہ جن کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ سال کے کچھ مہینے اس خانقاہ میں گزارتے ہیں۔ ایک دن میں تجسس سے انہیں ایک کونے میں لے گیا اور جتنی مجھے عربی آتی تھی اس میں، میں نے ان کہا: ’’لبنان، مشرق وسطیٰ کی دلہن مانا جاتا ہے۔ کیا آپ کا دماغ خراب ہے جو آپ اس گاؤں میں آگئے ہیں کہ جہاں کسی بھی قسم کی حفظان صحت اور فلاحی سہولیات میسر نہیں ہیں۔‘‘
حاجی عدنان نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے اپنے پاس بٹھا لیا اور کہنے لگے: ’’ہم پانچ بھائی ہیں اور ہمارے پاس زندگی کی ہر آسائش موجود ہے۔ میں لبنان سے یہاں کھانے پینے، سونے اور گھومنے نہیں آیا ہوں۔ میں دین اور عرفان کا عاشق ہوں اور میں معنوی فائدے کے لیے اس سفر کی مشکلات کو جھیلتا ہوں۔‘‘
پھر انہوں نے مجھ سے پوچھا: ’’آپ کی شادی ہوگئی؟‘‘
میں نے کہا: ’’نہیں۔‘‘
انہوں نے کہا: ’’اگر میں کہوں کہ بیوی کے ساتھ نزدیکی کرنے سے فلاں لذت ملتی ہے، تو جب آپ کی شادی نہیں ہوئی تو آپ اس بات کو نہیں سمجھ سکتے یا اگر میں کہوں کہ شہد کھانے سے فلاں لذت ملتی ہے تو اگر آپ نے کبھی شہد نہ کھایا ہو تو آپ اس بات کو نہیں سمجھ سکتے۔ پس اگر میں کہوں کہ معنویت و تصوف اور عرفانی اخلاق کی راہ کا کیا اثر ہوتا ہے تو اس بات کا سمجھنا آپ کے لیے بہت مشکل ہے۔ میرا مشورہ یہ ہے کہ آپ اپنی تعلیم جاری رکھیں اور ہم اپنا کام۔ بہتر ہوگا کہ ہم ایک دوسرے سے بحث نہ کریں۔‘‘
اسی سال کے موسم گرما کی ابتداء میں جناب شیخ کا ایک قریبی شخص، ہمارے حجرے میں آیا اور اس نے کہا کہ جناب شیخ کو اپنے قابل طالب علموں سے کچھ کام ہے۔ ہم اعلیٰ سطح کے چھ طالب علم اپنے ذہن میں پتہ نہیں کیا کیا سوچنے لگے۔ یہ کہ شاید ہم میں سے کسی طالب علم سے کوئی کوتاہی ہوگئی ہے اور اس سے انہیں تکلیف پہنچی ہے یا یہ کہ طریقت کے خلاف ہمارے کسی کام کی رپورٹ ان تک پہنچی ہے۔ ہم فوراً جناب شیخ کے خصوصی حجرے میں پہنچ گئے۔ انہوں نے فرمایا: ’’کل میں اپنے بھائی شیخ مولانا سے ملنے سنندج جا رہا ہوں اور ایک ہفتے تک میں دورود میں نہیں ہوں گا۔ آپ لوگ جانتے ہیں کہ مَردوں کی خانقاہ میں ہر رات قریب سو آدمی اور خواتین کی خانقاہ میں بھی قریب اتنی ہی خواتین رکتی ہیں۔ کہیں کسی مرد یا خاتون سے کوئی غلطی نہ ہوجائے۔ آپ چھ طالب علموں کے لیے میری تجویز یہ ہے کہ آپ لوگ روز رات کو دو دو افراد کی صورت میں آدھی رات سے اذان فجر تک ان دو خانقاہوں کے گرد نگہبانی کریں اور میری خاندانی عزت کی حفاظت کریں۔‘‘
ہم نے جناب شیخ کے حکم کی تعمیل کی۔ انہوں نے کمرے سے جانے سے پہلے ہم سے کہا: ’’میرے مرید اور رشتہ دار بہت ہیں اور ان سب سے زیادہ مجھے آپ لوگوں پر بھروسہ ہے۔ آپ لوگ بھی اپنی ذمہ داری ادا کیجیے گا۔‘‘
جناب شیخ کی باتیں سننے کے بعد ہم حجرے میں واپس آگئے اور ہم نے کام کو آپس میں بانٹ لیا۔ میری شفٹ ایک سقزی طالب علم کے ساتھ لگی اور روز رات کو دو گھنٹے یعنی آدھی رات سے دو بجے تک ہم نگہبانی کرتے تھے۔ سالوں بعد، ابھی تک میرے لیے یہ معما حل نہیں ہوا کہ جناب شیخ نے اپنے تمام رشتہ داروں اور فرمانبردار مریدوں پر ہم طالب علموں کو ترجیح کیوں دی۔
ایک دن ملا جمال فتحی پور نودشہ ای صاحب جو سن 1966(1345) میں عَنَب گاؤں میں میرے ساتھ تعلیم حاصل کر رہے تھے، دورود میں ہمارے حجرے کے مہمان ہوئے اور انہوں نے مجھ سے کہا: ’’میں رات کو خانقاہ میں ختمہ[2] کی محفل میں قرآن مجید کی تلاوت کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
ہم طالب علم ختمہ کی محفل میں کبھی کبھار ہی شرکت کرتے تھے۔ میں نے ملا جمال صاحب کے احترام میں اس رات تقریب میں شرکت کی۔ وہ اس تقریب میں قرآن مجید کی تلاوت کرنا چاہتے تھے۔ میں نے انہیں سمجھایا اور کہا: ’’ اگر آپ کو عبور حاصل نہ ہو تو اس طرح کی محفل میں قرآن مجید کی تلاوت آپ کو مہنگی پڑ سکتی ہے۔‘‘
چونکہ بڑے بڑے کُرد، فارس اور ترکمان قاری، مریدی کے لباس میں ان نشستوں میں شرکت کرتے تھے، اسی لیے میں نہیں چاہتا تھا کہ ان کے سامنے ایک ملا کہ جس کی ذمہ داری، تبلیغ قرآن ہے، قرآن کو ضعیف یا غلط پڑھے۔ عشاء کی نماز کے بعد محفل شروع ہوئی اور محفل کے بیچ میں جناب شیخ عثمان صاحب داخل ہوئے اور ایک ٹارچ کے ذریعے صدر حلقہ میں پہنچ گئے۔
سب لوگوں کو پتہ چل گیا کہ جناب شیخ نشست میں تشریف لا چکے ہیں۔ محفل ختمہ کے اختتام پر پہلے جناب شیخ نے ایک خاص معنوی حالت میں اور بہت خوبصورتی سے سورۃ النجم کی تلاوت کی اور ان کی تلاوت کے بعد دو دوسرے افراد نے کچھ آیات کی تلاوت کی۔ پھر ملا جمال نے تلاوت شروع کی اور سورۂ مطففین(آیت دوم اور سوم) کی تلاوت کی، جیسے ہی وہ اس آیت پر پہنچے: ’’ الَّذِینَ إِذَا اکْتَالُوا عَلَى النَّاسِ یَسْتَوْفُونَ وَإِذَا کَالُوهُمْ أَوْ وَزَنُوهُمْ یُخْسِرُونَ ‘‘ اچانک وہ تذبذب کا شکار ہوگئے اور انہوں نے پہلی مرتبہ یخسرون کے یاء کو ضمے کے ساتھ اور دوسری مرتبہ یاء کو فتح کے ساتھ پڑھ دیا۔ اپنی عزت کے ڈر سے ہم لائٹیں کھلنے سے پہلے جلدی سے سیڑھیوں سے نیچے آگئے۔ مجھے ملا جمال پر بہت غصہ آیا اور میں نے کہا: ’’ ارے بھائی، جب آپ کو قل ھو اللہ اور قل اعوذ برب الناس حفظ تھی تو آپ نے ویل للمطففین کیوں پڑھی؟‘‘
اس واقعے کے بعد، طلباء میں یہ کہاوت مشہور ہوگئی تھی اور جب بھی کوئی غلطی کرتا تھا تو اسے کہا جاتا تھا: ’’ارے بھائی، جب آپ کے پاس قل ھو اللہ تھی تو آپ ویل للمطففین میں کیوں الجھے؟‘‘
جن دنوں، میں دورود میں تعلیم حاصل کررہا تھا تو میں محمود آباد کی خانقاہ میں جناب حاجی ماموستا ملا زاہد ضیائی[3] کی خدمت میں پہنچا۔ سلام دعا کے بعد انہوں نے مجھ سے پوچھا: ’’آپ نے حضرت شیخ کو بتایا کہ آپ اور وہ ایک ہی خاندان سے ہیں؟‘‘
میں نے بتایا: ’’نہیں۔ میں کئی بار ان کی خدمت میں گیا ہوں، لیکن میں نے اس بارے میں انہیں کچھ نہیں بتایا اور ضرورت بھی نہیں ہے۔ اگر میں نے پڑھائی کی اور عالم دین بن گیا، تو جناب شیخ کو خوشی ہوگی کہ ہم ایک ہی خاندان سے ہیں اور میرے اور ان کے پانچویں جد، خالد صاحب ہیں اور اگر میں صاحب علم نہ بن سکا تو جناب شیخ کی نظر میں، میں بھی جمال دزآوری صاحب اور دوسرے گاؤں کے طلباء کی طرح رہوں گا۔[4]
[1] 14 جولائی 1958(23 تیر 1337) کے سلطنت مخالف فوجی بغاوت میں جنرل عبد الکریم قاسم، ایک بائیں جانب کے عراقی فوجی نے فیصل کے خلاف فوجی بغاوت کردی اور عراق کی بادشاہی حکومت کا سلسلہ ختم کردیا۔ عبد الکریم قاسم کی حکومت نے واضح طور پر سوویت یونین کا ساتھ دینا شروع کردیا اور انہیں عراق کی کمیونسٹ پارٹی کی حمایت حاصل ہوگئی۔ سی آئی اے کی سربراہی میں دائیں جانب والوں کے قاتلانہ حملے میں وہ ہلاک ہوگئے۔
[2] شب بدھ اور شب جمعہ ہونے والی صوفیاء کی ایک ذکر کی محفل، جس میں لوگ حلقے کی صورت میں بیٹھتے ہیں اور ایک حلقے کا سربراہ ہوتا ہے جو رہنمائی کرتا ہے اور دنیا سے بے رغبتی اور موت کی یاد کی تلقین کی جاتی ہے۔
[3] محمد ضیائی پاوہ ای ولد ملا صلاح الدین پاوہ ای ولد حاجی لطف اللہ ولد حاجی عوض پاوہ ای ولد حاجی عیسیٰ ولد حاجی عبد اللہ ولد حاجی احمد ولد حسن ولد صفر، کا تعلق پاوہ سے تھا۔
[4] خدا کا شکر ہے کہ میں نے جناب شیخ کو پہچانا اور انہوں نے بھی انقلاب کی کامیابی کے بعد مجھے پہچان لیا۔ جب وہ ترکی میں تھے تو دو مرتبہ انہوں نے ہورامان تخت کے امام جمعہ،ماموستا ملا عبد اللہ مردوخی اور دوسرے ساتھیوں کے ذریعے پیغام بھیجا کہ میں تہران میں ذمہ داران سے رابطہ کروں اور ان سے شیخ کی ایران اور دورود واپسی کی اجازت لوں۔ میں دو مرتبہ تہران گیا اور اس وقت کے ذمہ داران جن میں اسلامی پارلیمنٹ کے سربراہ، جناب کروبی صاحب سے ملاقات اور گفتگو کی۔ انہوں نے جناب شیخ کی واپسی کا خیر مقدم کیا اور اجازت دے دی، لیکن مقامی ذمہ داران کا کہنا تھا کہ دورود کی جائیدادیں شیخ کی ملکیت سے خارج ہوچکی ہیں۔ ان کا دورود گاؤں واپس آنا ضروری نہیں ہے اور ان لوگوں کی شیخ کی واپسی میں کوئی دلچسپی بھی نہیں تھی۔ میں نے خبر بھیج دی کہ فی الحال متعلقہ ذمہ داران جناب عالی کی واپسی کے متعلق متفق نہیں ہیں اور ترکی میں رہنا ہی بہتر ہوگا۔
صارفین کی تعداد: 39
http://oral-history.ir/?page=post&id=12437