جنگ اور حکومت(جنگ و دولت)
سید محمد صدر کی یادوں میںمحیا حافظی
ترجمہ: ضمیر علی رضوی
2025-02-25
سید محمد صدر، آیت اللہ سید رضا صدر کے بیٹے اور امام موسیٰ صدر کے بھتیجے، ایک ایسے سیاستدان ہیں جو اب تک وزارت خارجہ، وزارت داخلہ اور تشخیص مصلحت نظام کونسل میں مختلف عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں۔ کتاب ’’جنگ و حکومت(جنگ و دولت)‘‘، 1985 سے 1989 تک وزارت داخلہ کے معاون برائے سماجی و سیاسی امور کی حیثیت سے ان کی یادوں پر مشتمل ہے۔ یہ کتاب ’محمد قبادی‘ کی تحقیق اور تحریر ہے اور اسے ’سورہ مہر پبلیکیشنز‘ نے شایع کیا ہے۔
اس سے پہلے راوی، کتاب ’انقلاب اور ڈپلومیسی‘ میں اپنے خاندانی پس منظر، پیدائش اور تعلیم سے لے کر سن 1989 میں وزارت خارجہ میں اپنی خدمات کے اختتام تک کے بارے میں بتا چکے ہیں۔ کتاب ’جنگ و حکومت‘ انہیں یادوں کا تسلسل ہے؛ اس طرح سے کہ کتاب کے ابتدائی 5 صفحات، گزشتہ کتاب کے آخری صفحات لگتے ہیں۔ کتاب میں مختلف حصوں میں کہیں کہیں راوی نے اس کتاب کا حوالہ دیا ہے۔
کتاب کا متن ان انٹرویوز سے اخذ کیا گیا ہے جو راوی نے سن 1996 میں انقلاب اسلامی لٹریچر آفس کو، سن 2008 میں انقلاب اسلامی دستاویزی مرکز کو اور سن 2019 میں مؤلف کو دیے ہیں۔ اسی طرح سے کتابوں کے سرسری سے مطالعے اور وزارت داخلہ میں خدمات کے سالوں دوران لکھی راوی کی ڈائری نے بھی ان یادوں کی مدد کی ہے۔ کتاب کو سوال و جواب کی صورت میں ترتیب دیا گیا ہے۔ مؤلف نے روان قلم کے ساتھ تین قسم کے انٹرویوز کو ڈائری کے متن کے ساتھ ملا کر ایک یکساں اور ہم آہنگ متن پیش کیا ہے۔
کتاب میں گفتگو کے متن کو معمول کی فصل بندی کی رعایت کے بغیر پیش کیا گیا ہے۔ اس کے باوجود قاری کی رسائی کو آسان بنانے کے لیے متن کی 36 موضوعی تقسیم بندیاں کرکے انہیں فہرست کے عنوان سے کتاب کے شروع میں لایا گیا ہے۔ مؤلف، بیان شدہ موضوعات کے ایک دوسرے سے جڑے ہونے کے بارے میں دیباچے میں لکھتے ہیں: ’’میں کس طرح محاذ اور جنگ کے واقعات کو، حکومت کے فیصلوں اور گلی کوچوں اور لوگوں پر ان کے اثرات سے جدا کرتا! کیا ایسا ہو سکتا تھا کہ پابندیوں کی بات کی جائے اور محاذ اور محاذ کے پیچھے(عوام) پر ان کے اثرات کے بارے میں بات نہ کی جائے! یادوں کے درمیان میں کس طرح دفتری اور سیاسی مناسبتوں کے بارے میں بات کرتا لیکن نظریات کے اشتراک اور اختلاف کی جانب اشارہ نہ کرتا۔‘‘ روشن اور واضح ہونے کے اعتبار سے کتاب کا متن، دقیق اور قابل قبول ہے۔ حاشیے کی صورت میں مؤلف کی وضاحتوں کے ساتھ راوی کی ضمنی گفتگو نے بھی متن کو روشن اور واضح بنانے میں مدد کی ہے۔ حاشیوں میں ضمنی وضاحتوں سے لے کر لوگوں کے تعارف اور یہاں تک کہ زیر بحث سالوں کے دوران ڈالر کی قیمت جیسی چیزوں کو بھی بیان کیا گیا ہے جو قاری کے احترام اور اس کے ممکنہ خدشات کے متعلق مؤلف کے صحیح فہم کا مظہر ہے۔
اس کتاب کی ایک خصوصیت، پیش کردہ بیانات پر انٹرویور کی کڑی نگرانی ہے۔ انٹرویور نے بڑی ذہانت اور مہارت سے بیانات کو صحیح سمت میں آگے بڑھایا ہے؛ اس طرح سے کہ جہاں کہیں بھی ضرورت پڑی تو انہوں نے سوالات پوچھ کر یا گفتگو کے دوران ٹھہر کر، ضمنی گفتگو یا موضوعات کی بے جا وسعت کا راستہ روکا ہے۔ اس طریقہ کار نے نہ صرف متن کی ہم آہنگی میں اضافہ کیا ہے بلکہ یہ یادوں کے مزید حقیقی اور مستند نظر آنے کا بھی باعث بنی ہے؛ وہ چیز جو زبانی تاریخ کے شعبے میں ایک بنیادی چیلنج سمجھی جاتی ہے۔
راوی کے نقطہ نظر پر بجا تنقیدوں کے باوجود، کتاب کی خوبیوں کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ یہ کتاب تاریخی واقعات خاص طور پر جنگ کے آخری سالوں اور اس کے بعد کے زمانے کے دقیق اور تفصیلی بیانات کے ایک مجموعے کو پیش کرنے میں پوری طرح سے کامیاب ہوئی ہے، راوی کی بہت سی یادیں اور باتیں، پہلی بار اس کتاب میں نقل کی گئی ہیں جو اس کے مواد کو مزید پرکشش بناتی ہیں۔ اس کے علاوہ کتاب کا مطالعاتی اور تحقیقی کام، تفصیلات کو بیان کرنے کے حوالے سے مؤلف کی حساسیت کو ظاہر کرتا ہے۔ متن کی یکسانیت اور حکایات کی ہم آہنگی بھی اس زمانے کے حالات اور پیش رفت کی ایک مجموعی اور واضح تصویر حاصل کرنے میں قاری کی مدد کرتی ہے۔
ان تمام باتوں کو بیان کرنا اگرچہ بعض جگہوں پر یہ ذاتی فیصلوں سے ملی ہوئی ہیں، لیکن مجموعی طور پر اس بیان نے قاری کے لیے اس زمانے میں ملک کے اہم سماجی اور سیاسی واقعات کو صحیح اور مکمل طور پر سمجھنے کے لیے زمینہ فراہم کیا ہے۔ اس کتاب نے حکایات کے ساتھ ساتھ تاریخ کے کچھ پوشیدہ پہلوؤں کو بھی اجاگر کیا ہے، ان نئی حکایات، دقیق تحقیقات اور فنی تدوین کے سبب یہ کتاب ایران کی معاصر تاریخ کے شائقین کے لیے ایک قابل غور اور قیمتی منبع بن سکتی ہے۔
کتاب ’’جنگ اور حکومت ۔ سید محمد صدر کی یادوں میں‘‘ کا پہلا ایڈیشن سن 2024(1403) میں 352 صفحات پر مشتمل کتاب کی صورت میں شائع کیا گیا ہے۔
تاریخ شفاهی :: جنگ و دولت (oral-history.ir)
oral-history.ir
صارفین کی تعداد: 90
http://oral-history.ir/?page=post&id=12432