اسلامی حکومت کے کتابچوں کی تقسیم اور امام(خمینی رہ) کے دروس کی ریکارڈنگ
ترجمہ: ضمیر علی رضوی
2025-02-25
کچھ عرصے بعد مختلف مواقع پر امام خمینی رہ کے اطلاعیے آنا شروع ہوگئے۔ جب امام کا تقریر کا پروگرام ہوتا تھا تو وہ حکم فرماتے تھے کہ ریکارڈر لایا جائے۔ شروع میں سید ہادی موسوی صاحب، اسلامی حکومت کے دروس کو ریکارڈ کرتے تھے جنہیں بعد میں چھاپا جاتا تھا۔ اسلامی حکومت کے یہ کتابچے جو عربی زبان میں چھپتے اور ترجمہ ہوتے تھے انہیں بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن ہم انہیں عراق میں تقسیم نہیں کرسکتے تھے۔ میں، رستمی صاحب کے ساتھ مل کر ان میں سے کچھ کتابچے، بغداد کے بازار میں ایک دو لوگوں کے پتے پر لے کر گیا اور تقسیم کرنے کے لیے ان کے پاس چھوڑ دیے۔ کچھ عرصے بعد مجھے پتہ چلا کہ کتابچے تقسیم نہیں ہوئے ہیں، کیونکہ انہیں کچھ لوگوں نے ڈرادیا تھا۔ پھر ہم مجبور ہوگئے کہ خود انہیں یونیورسٹی کے سامنے طلباء میں تقسیم کریں یا بسوں میں تقسیم کریں، اس طرح سے ہم نے اسلامی حکومت کے کتابچے تقسیم کیے۔ پھر بغداد کے کچھ جوانوں نے ہم سے رابطہ کیا اور جب وہ نجف آتے تھے تو وہ کتابچے لے کر بصرہ اور دوسرے شہروں میں پہنچادیتے تھے۔۔۔
امام کے دروس ریکارڈ کرنے کے لیے میں نے ایک ریکارڈر لیا تھا جو ایمپلی فائر بھی تھا اور ریکارڈر بھی۔ ہم نے مسجد کے ستونوں پر دو لاؤڈ اسپیکر لگادیے تھے اور اس کا مائک منبر کے سامنے رکھ دیا تھا، ہم چاہتے تھے کہ دروس نشر بھی ہوں اور ریکارڈ بھی۔ میں نے محتشمی پور صاحب سے بھی کہا تھا کہ دھیان رکھیے گا۔ جب امام درس شروع کرتے تھے تو شروع میں وہ بہت آہستہ بولتے تھے اور چونکہ مسجد بڑی تھی اس لیے اکثر لوگ عام طور پر آواز نہ آنے کی شکایت کرتے تھے۔ امام کا طریقہ کار یہ تھا کہ جب وہ درس کے لیے تشریف لاتے تھے تو پہلے کچھ دیر وہ منبر کے پاس بیٹھتے تھے اور پھر منبر پر جاتے تھے اور درس شروع کرتے تھے۔ جب وہ منبر کے پاس بیٹھے تو انہیں مائک دکھا جو منبر کہ پاس رکھا ہوا تھا، انہوں نے مجھ سے فرمایا: ’’یہ کیا ہے؟‘‘ میں نے عرض کیا کہ لوگوں کو آواز نہیں آتی، ہم نے یہ لگایا ہے تاکہ سب سن سکیں۔ انہوں نے فرمایا: ’’جسے آواز نہیں آتی وہ آگے آجائے۔‘‘ محتشمی صاحب نے عرض کیا جناب؛ ہم تو آگے ہیں لیکن ہمیں بھی آواز نہیں آتی۔ امام خاموش ہوگئے اور ہم نے امام کی خاموشی کو رضامندی سمجھ لیا۔ اس دن سے ہم نے دروس کو ریکارڈ کرنا شروع کردیا۔ بعد میں ہم نے ایک ایک کرکے الگ ایمپلی فائر اور الگ ریکارڈر لے لیا اور ہم عام طور پر آلات کو منبر سے نیچے لگاتے تھے۔ ان کیسٹوں کی تعداد قریب 85 تھی اور ان میں خلل الصلوٰۃ کے دروس بھی شامل تھے، بدقسمتی سے ابھی تک ہم ان کیسٹوں کو نجف اشرف سے لانے میں کامیاب نہیں ہو پائے ہیں۔[1]
منبع: خاطرات سال ھای نجف، ج 2، تھران، نشر عروج، چ 1، 1389، ص 33۔35.
[1]۔ یہ انٹرویو صدام کے زوال سے پہلے، جناب رحمت صاحب سے لیا گیا ہے، خوش قسمتی سے عراق کی آزادی کے بعد تمام کیسٹیں ایران منتقل کردی گئی تھیں اور اب بھی ان سے فائدہ اٹھایا جارہا ہے۔
22bahman.ir
صارفین کی تعداد: 18
http://oral-history.ir/?page=post&id=12424