الذین و الذینہ / دوپہر کے کھانے کا وقت ہے / ہمیں بھوک لگی ہے

ترجمہ: ضمیر علی رضوی

2025-02-22


ہمارے(فاطمہ کشاورزیان) پیدل مارچ کا معمول یہ تھا کہ لڑکے، ہمارے اسکول(محبوبہ متحدین اسکول) کے پیچھے واقع اپنے سیکنڈری اسکول سے نکل کر گرلز اسکول کی طرف آتے تھے تاکہ ہم ساتھ مل کر پیدل مارچ کی میں جائیں۔ برادران گزشتہ دنوں کے معمول کے مطابق، ہمارے اسکول کے قریب آئے اور انہوں نے دروازہ کھولا۔ میں اور دوسری کچھ طالبات جو انقلابی بھائیوں کے آنے کی منتظر تھیں، ہم ان کے ساتھ چلے گئے۔ اسکول کی پرنسپل نے دھمکی دینا شروع کردی اور کہا: ’’کشاورزیان صاحبہ! اگر آپ نے اسکول سے باہر قدم نکالا تو آپ کے نظم و ضبط کے نمبر صفر ہوجائیں گے۔‘‘ پرنسپل کی باتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے ہم نعرہ لگاتے ہوئے برادران کے ساتھ چل پڑے۔

اگلے دن ہم پیدل مارچ میں جانے کا ارادہ رکھتے تھے، پرنسپل نے سختی سے مزاحمت کی۔ یہ مزاحمت بالکل فطری تھی؛ کیونکہ ساواک کو یقیناً پتہ چل جاتا اور پرنسپل کے لیے اس واقعے کے سنگین نتائج نکلتے۔ ہم نے دوپہر تک انتظار کیا تاکہ ہم پیدل مارچ میں جانے کے لیے ان کی رضامندی حاصل کرسکیں لیکن وہ بھی ضد پر اڑی ہوئی تھیں اور اجازت نہیں دے رہی تھیں۔ پرنسپل کی مزاحمت، گزشتہ دنوں سے زیادہ بڑھ چکی تھی۔ اب دوپہر ہوچکی تھی اور بچوں کو بھوک لگنے لگی تھی، وہ پیدل مارچ سے ناامید ہوکر اسکول سے جارہے تھے کہ میرے ذہن میں ایک ترکیب آئی۔ جیسے تیسے ہمیں اپنے کام میں جوش لانا تھا تاکہ بچے بور نہ ہوں؛ اسی لیے میں نے بچوں سے کہا: ’’آؤ پرنسپل آفس کے دروازے پر چلتے ہیں اور جو شعر میں پڑھ رہی ہوں وہ پڑھتے ہیں۔‘‘ بچوں نے کہا: ’’تم اپنا شعر سناؤ، دیکھیں کیسا ہے۔‘‘ میں نے انہیں شعر سنایا: ’’الذین والذینہ / دوپہر کے کھانے کا وقت ہے / ہمیں بھوک لگی ہے(الذین والذینہ / وقت ناھارہ / گشنہ مونہ)۔‘‘ بچے بھی دہرانے لگے؛ پھر ہم پرنسپل آفس تک پہنچ گئے۔ جیسے ہی ہم پہنچے تو میں نے بچوں کی طرف منہ کرکے کہا: ’’چلو، سب مل کر، جو شعر یاد کیا ہے اسے بلند آواز سے پڑھو؛ لیکن یاد رہے کہ تم لوگوں کو شعر پڑھتے وقت اس کے ساتھ ساتھ پیر زمین پر مارنے ہیں یعنی ایک ترنم بننا چاہیے!‘‘

بچوں نے اس پروگرام کے تحت عمل کیا جو میں نے ان کے لیے تیار کیا تھا۔ اسکول کے ہال میں ایک ہنگامہ مچ گیا۔ پرنسپل گھبرائی ہوئی تیزی سے اپنے آفس سے باہر آگئیں۔ جب انہوں نے یہ صورتحال دیکھی تو انہوں نے دوبارہ دھمکیاں دینا شروع کردیں: ’’اگر تم لوگوں نے اسکول سے باہر قدم رکھا تو میں تم سب کو ساواک کے حوالے کردوں گی۔‘‘ اس زمانے میں ابھی تک لوگ ساواک کے نام سے ڈرتے تھے لیکن اس سب کے باوجود، ہم نے پیدل مارچ میں جانے کا مصمم ارادہ کرلیا تھا اور ہم نے پرنسپل کی باتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے کام کو جاری رکھا یہاں تک کہ اسکول کی صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لیے پرنسپل بچوں کو جانے کی اجازت دینے پر مجبور ہوگئیں۔

جب ہم ہنستے مسکراتے اسکول سے نکل رہے تھے تو پرنسپل نے بلند آواز سے کہا: ’’کشاورزیان، سب سے پہلے میں تمہارا نام ساواک کو دوں گی!‘‘

 

منبع: کوثر، پنجمین جشنوارہ خاطرہ نویسی دفاع مقدس با موضوع خاطرات زنان ایثارگر مازندرانی در انقلاب اسلامی و دفاع مقدس، ساری، سرو سرخ بنیاد، 1396، ص 33۔34.


22bahman.ir
 
صارفین کی تعداد: 26



http://oral-history.ir/?page=post&id=12417