ماموستا 33
مصنف: علی رستمی
ترجمہ: ضمیر علی رضوی
ویرائش: یوشع ظفر حیاتی
2025-01-19
نوریاب کے تین رہائشیوں کی گولی باری کے ذریعے سزائے موت کی افسوس ناک خبر
ایک سال کی تعلیم و تدریس کے بعد، میں اپنے تین شاگردوں کے ساتھ مریوان لوٹ آیا اور مریوان اور پنجوین[1] کی سرحد کے ساتھ واقع، مرانہ گاؤں میں جناب ماموستا ملا علی سعادتی افشاری[2] کی خدمت میں پہنچا اور پڑھائی شروع کردی۔ میں ایک سال تک مرانہ گاؤں میں رہا۔
سن 1967(1346) تک اورامانات کے اردگرد، شہنشاہی(بادشاہی) نظام کا مقابلہ جاری رہا۔ شہنشاہی(بادشاہی) حکومت کے خلاف قبائل، بیگ زادوں، ایران اور کردستان کی ڈیموکریٹک پارٹی کے ممبران کے درمیان ایک باہمی تعاون شروع ہوگیا تھا، اس گروہ کے ساتھ شاہ کی حکومت کا رویہ اتنا سخت تھا کہ اپنا رعب اور دبدبہ قائم کرنے کے لیے ستمبر1969(مہر1348) میں حکومت نے پاوہ شہر میں ڈیموکریٹک پارٹی کے حامی، مشتبہ حامی اور طاغوتی نظام کے مخالف تقریباً تیس افراد کو گرفتار کرلیا اور انہیں تہران، ہمدان، تبریز اور ارومیہ جیسے شہروں کی جیلوں میں بھیج دیا۔ ان میں سے اکثر کو لمبی لمبی قیدوں کی سزائیں سنائی گئیں۔ ان میں سے کچھ افراد کو پیرانشہر کی جلدیان گیریژن لے جایا گیا اور دکھاوے کا مقدمہ چلانے کے بعد گولی باری کے ذریعے سزائے موت دے دی گئی۔
ان بے گناہوں میں نوسود شہر کے نواحی گاؤں دزآوری گاؤں کا ایک رہائشی، جو گاؤں کا استاد تھا اور نوریاب گاؤں کے تین رہائشی شامل تھے۔ ان تمام افراد کو گاؤں میں رات کے وقت گرفتار کرکے جلدیان گیریژن لے جایا گیا تھا اور انہیں بڑی بے رحمی سے گولی باری کے ذریعے سزائے موت دے دی گئی تھی۔ پاوہ کے سیکیورٹی ادارے اور ساواک کے قریبی افراد کی جانب سے سوگوار گھر والوں کو اطلاع دی گئی تھی کہ ان لوگوں کی سزائے موت کی وجہ ملک سے غداری، تیمور بختیار[3]، حزب تودہ اور عراق میں مخالفین سے تعلقات اور شہنشاہی نظام میں خلل اور اس کی نقصان پہنچانے جیسے اقدامات تھے۔
نوریاب جیسے ایک چھوٹے سے گاؤں میں چار لوگوں کو گولی باری کے ذریعے سزائے موت، ایک عجیب صدمہ تھا جو حکومت نے عوام کو پہنچایا تھا اور عوام کے کئی گروہ خاص طور پر گاؤں کے جوانوں نے عراق کے گاؤں اور شہروں کی جانب ہجرت کرلی تھی۔ بہت سے گھرانے ٹوٹ گئے۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں تھی جو آسانی سے لوگوں کے اذہان سے محو ہوجاتا۔
انہی دنوں، ایک دن میں حجرے میں ماموستا ملا علی افشاری کی خدمت میں پڑھائی میں مشغول تھا کہ گاؤں کے سردار آئے اور انہوں نے کہا: ساواک اور جینڈرمیری کے سربراہان سمیت مریوان کے کچھ ذمہ داران، سرحدی گاؤں کے دورے پر آئے ہیں اور وہ مرانہ آنے والے ہیں۔ انہوں نے ماموستا سے طالب علموں کے ساتھ استقبال کی تقریب میں شرکت کرنے کو کہا۔
جناب ماموستا ملا علی افشاری، حجرے کے طالب علم اور کچھ گاؤں والے ہم سب مسجد کے پاس جمع ہوگئے اور ان کے پہنچنے سے پہلے ایک قطار بنا کر ان کا انتظار کرنے لگے؛ بالکل کسی ملک کی اعلیٰ شخصیات کی طرح، لیکن ایک چھوٹے سے گاؤں میں۔ گاؤں کا سردار، ہمارے ملک کا رہنما بن چکا تھا اور ہمارے پاس اطاعت کرنے کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہیں تھا۔
ذمہ داران آئے اور مصافحہ اور خیر خیریت معلوم کرتے ہوئے گاؤں کے سردار، ماموستا ملا علی افشاری اور طالب علموں کے سامنے سے گزرے۔ ہم نے طالب علموں والا لباس پہنا ہوا تھا اور کپڑوں اور چہرے سے ہم باقی لوگوں سے الگ دکھ رہے تھے۔ ساواک کے سربراہ نے ماموستا سے پوچھا: ’’یہ لوگ طالب علم ہیں؟‘‘ اور جب اس نے جواب میں ’’ہاں‘‘ سنا تو خوش ہوکر ہم میں سے ہر ایک کی خیر خیریت معلوم کی۔ جب مریوان ساواک کا سربراہ مجھ تک پہنچا تو میں نے اپنا تعارف کروایا۔ اس نے کہا: ’’آپ کہاں سے ہیں؟‘‘
پاوہ کا نام سن کر اسے خوشی ہوئی اور اس نے کہا: ’’میں پہلے پاوہ کے سیکیورٹی ادارے کا سربراہ رہ چکا ہوں۔ تم پاوہ میں کہاں سے ہو؟‘‘
میں نے بتایا: ’’نوریاب۔‘‘
گویا اسے نوریاب کا نام سن کر برا لگا، اسے حیرت ہوئی اور اس نے پوچھا: ’’تمہارے پاس نوریاب کی کیا خبر ہے؟‘‘
میں نے بتایا: ’’ہر تھوڑے دن بعد، میں خط کے ذریعے گھر والوں کی خیر خیریت معلوم کرلیتا ہوں۔‘‘
تب اس نے مجھے خبر دی: ’’پچھلے ہفتے تمہارے علاقے کے چار لوگوں کو ہم نے سزائے موت دی ہے۔‘‘
نوریاب کے رہائشی کچھ افراد کی گرفتاری کے بارے میں تو مجھے معلوم تھا لیکن ان میں سے چند افراد کی گولی باری کے ذریعے سزائے موت کی خبر سن کر مجھے بہت دکھ ہوا۔ نوریاب کے جیل جانے اور سزائے موت پانے والے افراد ہمارے دوست، رشتے دار اور پڑوسی تھے۔ اس خبر نے مجھے اتنا دکھی اور بے چین کردیا کہ آگے کی گفتگو اور تقریب کے انعقاد کے طریقے پر میرا دھیان نہیں گیا۔ ان لوگوں کے جانے کے بعد، میں نے فوراً اپنی والدہ کو خط لکھا اور اگلے دن اسے پوسٹ کرنے مریوان چلا گیا۔ دو ہفتے بعد خط کا جواب آیا: ’’ نیازی لہونی، مجید نورائی، عطا پیاب اور جعفر کریمی صاحب کو گولی باری کے ذریعے سزائے موت دے دی گئی ہے۔‘‘[4]
[1] عراق کے صوبۂ سلیمانیہ کے دشت شیلر میں واقع ایک چھوٹا سا گاؤں۔
[2] آپ کا تعلق تکاب کے افشاروں سے تھا، آپ نے مریوان میں شادی کی تھی اور وزارت تعلیم کی طرف سے آپ کو ملازمت مل گئی تھی اور ابھی آپ سنندج میں رہتے ہیں۔
[3] تیمور بختیار(1914۔1970)، ایک فوجی، سیاستدان، ملک کی سیکیورٹی اینڈ انٹیلیجنس آرگنائزیشن کے بانیوں میں شامل، پہلوی حکومت کی ساواک کے سب سے پہلے چیف تھے۔ شاہ نے بختیار کی تنقیدوں کی وجہ سے سن 1962(1341) میں انہیں ریٹائر کردیا۔ تیمور بختیار کو شاہ کی مخالفت کی وجہ سے ملک چھوڑ کر جانا پڑا اور آخرکار 7 اگست 1970(16 مرداد 1349) کو عراق کے صوبۂ دیالہ کی ایک شکار گاہ میں ساواک کے ایجنٹس نے انہیں قتل کردیا۔
[4] نیازی لہونی، کا تعلق نوسود کے بیگ زادوں سے تھا اور وہ قبائلی دور میں نوریاب گاؤں کے سردار تھے۔ مجید نورائی، ان کا ذریعۂ معاش ایران اور عراق آمد و رفت کرکے تجارت کرنا تھا۔ عطا پیاب، خلیفہ محمد سعید کے بیٹے جن کی پاوہ شہر میں حجامت کی دکان تھی۔ جعفر کریمی، دزآور کے رہائشی، نوریاب گاؤں کے استاد تھے۔ انقلاب کی کامیابی کے بعد، تہران کے سفر کے دوران حجت الاسلام کروبی کے ساتھ ایک میٹنگ میں، مرکزی شہید فاؤنڈیشن نے اس واقعے کے شہداء کو شہید فاؤنڈیشن میں شامل کرلیا اور ان کے گھر والوں کو انتظامی اور خدماتی سہولیات حاصل ہوگئیں۔
صارفین کی تعداد: 42
http://oral-history.ir/?page=post&id=12353