دو شہیدوں کی والدہ سے ملاقات

صبر و ایمان کا محراب

سائیٹ تاریخ شفاہی ایران
ترجمہ: سیدہ رومیلہ حیدر

2025-01-08


یہ گھر سادہ تھا، مگر ایثار اور روحانیت کی خوشبو سے بھرا ہوا تھا۔ جب آپ اس مقدس مقام میں داخل ہوتے ہیں، تو پہلی چیز جو آپ کی نظر کو اپنی طرف کھینچتی ہے، ایک خوبصورت محراب ہے جو گھر کے ایک گوشے میں پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہے؛ ایک محراب جس کے گرد ریلنگ اور ایک دروازہ ہے جو گویا اس دنیا اور آسمان کے درمیان ایک پل بنا رہا ہے۔ محراب کے اندر چار جائے نمازیں بچھی ہوئی ہیں۔ دو شہیدوں، صادق اور فخرالدین مہدی برزی کی تصویریں، رہبر انقلاب کی تصویر کے ساتھ، آپ کی نظروں کو لبھاتی ہیں۔ یہاں، گھر کے ہر کونے میں شہداء اور انقلاب کی یاد کو زندہ رکھا گیا ہے۔

زہرا شیخ سفلی، صبر اور ایمان کی پیکر ایک ماں ہیں؛ ان کے چہرے پر سکون اور دل ایثار و قربانی سے سرشار ہے۔ وہ ایمان رکھتی ہیں کہ جو کچھ بھی ہوا ہے، وہ خدا کی طرف سے امتحان ہے۔ صادق مہدی برزی، ان کا بڑا بیٹا، 1983 میں شہید ہوا؛ ایک بار محاذ سے واپس آنے کے بعد۔ وہ دوبارہ میدان میں گیا اور اس بار واپس نہیں آیا۔ چار سال بعد 1987 میں، فخرالدین مہدی برزی، ان کا دوسرا بیٹا، جو اپنی قرآن خوانی کے لیے مشہور تھا، اسکی آرزوئے شہادت کی تکمیل ہوئی اور وہ بھی شہید ہوگیا۔ ہر بار جب ان کے بچے جنگ کے میدان میں جاتے، زہرا شیخ صفلی خواب میں دیکھتیں کہ وہ انہیں کھونے کے لئے تیار کر رہی ہیں۔

اس کے باوجود، وہ کبھی نہیں روئیں؛ نہ صادق کے لئے اور نہ فخرالدین کے لئے۔ ان کا ان کے راستے اور انقلاب پر ایمان اتنا گہرا تھا کہ آنسوؤں کے بجائے، ان کے لبوں پر صبر کی مسکراہٹ تھی۔ وہ کہتی ہیں: "میرے بچوں نے اپنا فرض انجام دیا، اور میں نے اپنا۔"

صادق کا جسد ان کی والدہ کے لئے انکی شہادت کے دس سال بعد لایا گیا؛ ایک ہڈی کا ٹکڑا!

اب، زہرا خانم کے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہیں۔ محمد کاظم کے، جو صادق سے بڑا اور ایک ریٹائرڈ آرتھوپیڈک ڈاکٹر ہے، دو بچے ہیں۔ فاطمہ کا ایک بچہ ہے جس کا نام اس نے اپنے شہید بھائی، فخرالدین کے نام پر رکھا ہے۔ محمد حسین، ماں کا چھوٹا بیٹا ہے، اس کے تین بچے ہیں اور وہ اسی گھر کی اوپری منزل میں رہتے ہیں۔ یہ خاندان اب کئی پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں کے ساتھ، ایک ایسے گھر کو کی فضا گرما رہا ہے جو شہداء کی یاد کو کبھی نہیں بھولا ہے۔

جب ہم زہرا خانم سے بات کرتے ہیں، تو ہمیں ان کے شوہر، حاج آغا حسین کی روح محسوس ہوتی ہے، جو 2004 میں فوت ہوگئے، انکی روح اب بھی اس گھر میں موجود ہے۔ وہ محبت، صبر اور فرض کے بارے میں بات کرتی ہیں؛ کہ انقلاب ان کے لئے اپنے پیاروں کی جان سے زیادہ قیمتی رہا ہے اور رہے گا۔

گھر کا محراب، ان کے ایمان اور ایثار و قربانی کی علامت ہے؛ ایک ایسی جگہ جہاں شہداء کی یاد ہمیشہ زندہ ہے۔ یہ ایک چھوٹا سا گھر زمین پر اور آسمان میں ایک بڑا محل ہے؛ ایک ایسی جگہ جو جنت کی خوشبو دیتی ہے۔


oral-history.ir
 
صارفین کی تعداد: 112



http://oral-history.ir/?page=post&id=12331