ماموستا 27
ایران واپسیمصنف: علی رستمی
ترجمہ: ضمیر علی رضوی
ویرائش: یوشع ظفر حیاتی
2025-01-08
میں پیدل ہی ایک دن سے بھی کم وقت میں عراق کے حلبچہ شہر کے عَنَب گاؤں سے نوریاب گاؤں پہنچ گیا اور اگلے دن میں نے تعلیمی استثناء کارڈ کے حصول کیلیے حوزۂ علمیہ میں حوزے کے انچارج، جناب حاجی ماموستا ملا زاہد ضیائی سے رجوع کیا۔ انہوں نے مجھے غصے سے کہا: ’’چونکہ تم عراق جا چکے ہو، اس لیے قانوناً استثناء کارڈ کا اجراء ممکن نہیں ہے مگر یہ کہ تم حلف نامہ جمع کراؤ کہ تم دوبارہ عراق واپس نہیں جاؤگے، اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ تمہیں کسی دینی مدرسے میں اپنی تعلیم جاری رکھنی ہوگی، تو شاید ہم تمہارے لیے کچھ کر سکیں۔‘‘
بہت چکر کاٹنے کے بعد میں خانقاہ گاؤں جانے اور اس گاؤں میں تعلیم حاصل کرنے والے، محمد امین امامی کے ساتھ ملحق ہونے پر مجبور ہوگیا۔ محمد امین، ایرانی نژاد تھے اور ان کے گھر والے عراق میں رہتے تھے۔ ان کا تعلق امامی قبیلے سے تھا جس کے قریب ہزار گھرانے تھے اور ان میں سے کچھ لوگ عراق کے کردستان میں مقیم تھے۔ انہیں ملٹری سروس کی مشکل نہیں تھی کیونکہ ان کے پاس عراقی شہریت تھی۔ دوسرے کچھ طلباء کے ساتھ میں وہیں ٹھہر گیا۔ میں نے قریب تین مہینے تک ماموستا سید محمد مصطفائی صاحب سے کتاب ’اظہار‘ اور مرحوم حاجی شیخ نجیب اشرافی صاحب سے کتاب ’ریاض الصالحین‘ پڑھی۔ پہلے کتاب، علم نحو اور دوسری، احادیث نبوی کی کتاب ہے۔ اس دوران، طاہر ضیائی صاحب جو پاوہ میں طلباء کے استثناء کارڈ کے اجراء کے انچارج تھے، انہوں نے بڑی مہربانی سے میرا تعلیمی استثناء کارڈ جاری کردیا اور مجھ سے کہا: ’’تم جہاں تعلیم حاصل کرنا چاہو، کرسکتے ہو۔‘‘
رمضان المبارک کا مہینہ آیا، میں بزگورہ گاؤں(قوری قلعہ کے قریب روانسر شہر کا ایک نواحی گاؤں) میں اور ملا محمد امین امامی صاحب، دہ سرخ گاؤں(جوانرود شہر کا ایک نواحی گاؤں) میں امام مسجد کی حیثیت سے تبلیغ دین میں مشغول ہوگئے۔ رمضان المبارک کے آخر میں گاؤں کے لوگوں نے ہمیں تحفے کے طور پر تقریباً ڈیڑھ سو تومان دیے جو ہمارے لیے بہت اہمیت رکھتے تھے۔
اس سال رمضان المبارک کے مہینے میں مجھے دو اچھی عیدیاں ملیں: سفر کرنے اور تعلیم حاصل کرنے کے پیسوں کا بندوبست، کہ اپنی طالب علمی کے چند سالوں کے دوران اس طرح کی رقم مجھے نصیب نہیں ہوئی تھی، اور تعلیمی استثناء کارڈ کا حصول، کہ سالوں سے میں جس کے پیچھے لگا ہوا تھا۔ رمضان المبارک کے ایک ہفتے بعد، میں اپنی تعلیم جاری رکھنے کے لیے، ملا محمد امامی کے ساتھ عراق لوٹ گیا۔ میں تھوڑے عرصے کے لیے ہی عَنَب میں رکا اور پھر میں دوسرے کئی گاؤں میں بھی گیا، لیکن اپنی تعلیم جاری رکھنے کے لیے مجھے کہیں بھی حجرہ نہیں ملا۔ میں نے ایران واپس لوٹنے کا فیصلہ کیا۔ پچھلی بار کی طرح اس بار میں گرفتاری اور لازمی ملٹری سرویس کے لیے بھیجے جانے کے لیے پریشان نہیں تھا اور اب ایران واپسی میرے لیے کوئی چیلنج نہیں تھا۔ یہ کارڈ میرے لیے اپنی تعلیم کو جاری رکھنے کا ایک سنہری موقع بن گیا۔
میں اپنی کتابیں اور ذاتی سامان کندھے پر ڈال کر نوریاب آگیا۔ اس کٹھن ہجرت میں، ملا عبد الرحمٰن رحیمی نجاری صاحب بھی میرے ساتھ تھے جو پہلے دشہ(گاؤں) میں قریب دو سال تک میرے روم میٹ تھے۔ وہ کچھ سالوں تک عراق کے تویلہ میں تعلیم حاصل کرنے میں مشغول رہے۔
ایران واپسی کے بعد، قریب ایک ماہ تک میں اپنی تعلیم جاری رکھنے کے لیے جگہ کی تلاش میں در بہ در بھٹکتا رہا۔ اس کے باوجود کہ مجھے آس پاس کے شہروں اور پاوہ کے مشرقی گاؤں کے حوزوں سے کوئی امید بھی نہیں تھی، میں گاؤں یاری(جوانرود شہر کا ایک نواحی گاؤں) گیا۔ ماموستا ملا احمد فخری، گاؤں کے امام جمعہ اور مدرس تھے اور ان کے کچھ طالب علم بھی تھے۔ مسجد کے صحن میں ایک چھوٹا سا حوض تھا۔ رات کو میں گاؤں کی مسجد میں تھا۔ صبح جب میں اپنے دوستوں کے ساتھ حوض کے پاس وضو کر رہا تھا تو وہاں کا ایک رہائشی مسجد کے اندر داخل ہوا اور طلباء کے سامنے برہنہ ہوگیا۔ زبان پر غسل کی نیت لاتے ہوئے وہ تین مرتبہ پانی کے اندر گیا اور ہر بار اس نے حوض کا کچھ پانی باہر ڈالا اور وہ دھیمی آواز میں بول رہا تھا: ’’غسل کرتا ہوں غسل جنابت۔۔۔!‘‘
عراق میں تعلیم حاصل کرنے کے تجربے نے شاید میری توقعات کو بڑھا دیا تھا۔ میں ماموستا فخری کی خدمت میں پہنچا اور میں نے انہیں اپنی پریشانی بتائی۔ انہوں نے فرمایا: ’’یہاں حمام نہیں ہے اور لوگ مجبور ہیں۔‘‘
گاؤں کی حفظان صحت کی بری صورتحال اور بنیادی سہولیات کے فقدان نے اس گاؤں میں میری تعلیم جاری رکھنے کو ناممکن بنادیا۔ میں نے علاقے کی تعلیمی سہولیات کا جائزہ لینے کے بعد اورامانات کے علاقے سے باہر ہجرت کرنے کا فیصلہ کیا۔ میں نے ملا عبدالرحمٰن رحیمی کے ساتھ مریوان جا کر وہاں اپنی تعلیم جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔ ہمارے اس انتخاب کی اصلی وجہ یہ تھی کہ ہمیں یقین ہوگیا تھا کہ قریبی شہروں جیسے جوانرود اور روانسر میں ہمارا تعلیم جاری رکھنا ممکن نہیں تھا۔ خطے کے دو دوسرے مدارس یعنی روانسر کے گاؤں دولت آباد کا ایک مدرسہ جس کے پرنسپل، ماموستا ملا مجید موحد تھے اور مراد آباد(روانسر شہر کا ایک نواحی گاؤں) کا ایک مدرسہ جس کے پرنسپل ماموستا شیخ محمد سعید تھے، کے رتبے اور سطح کے نچلی ہونے نے ہمارے وہاں رکنے کا ارادہ بدل دیا۔ ارد گرد کے حوزوں میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے سب سے اہم معیار، بہترین اساتذہ کی نعمت سے بہرہ مند ہونا تھا تاکہ ہم ان کے آگے زانوئے تلمذ تہ کرسکیں۔ ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ مریوان اور اس کے آس پاس کے گاؤں کے حوزوی مراکز سب سے زیادہ قریب اور قابل رسائی ہیں اسی لیے ہم وہاں کے لیے روانہ ہوگئے۔
صارفین کی تعداد: 53
http://oral-history.ir/?page=post&id=12328