حاجی ابو الفضل الماسی کی یادیں
انتخاب: فائزہ ساسانی خواہ
مترجم: ضمیر علی رضوی
2024-12-28
اسلام کے تمام مجاہدین کے لیے با آواز بلند صلوات: " اَللّهُمَ صَلّ عَلی مُحَمَّد وَ آلِ مُحَمَّد وَ عَجِّل فَرَجَهُم."
یہ ان خواتین کی آواز تھی جو ہمارے گھر میں جمع ہوئی تھیں اور محاذ کے لیے امداد جمع کر رہی تھیں۔ 1980(1359) کی خزاں میں جنگ حال ہی میں شروع ہوئی تھی اور بڑی تعداد میں عوامی امداد محاذوں پر بھیجی جا رہی تھی۔ ہمارا گھر ان خواتین سے بھرا رہتا تھا جو صبح سے رات تک کھانے پینے کی اشیاء پیک کرتی تھیں۔ گھر کے ایک کونے میں کچھ خواتین سبزیوں کو صاف کرنے میں مشغول ہوتی تھیں اور دوسرے کونے میں کچھ خواتین، خشک میووں کو چھوٹی تھیلیوں میں ڈال رہی ہوتی تھیں۔ چھوٹی بچیاں بھی ان تھیلیوں کو بڑے کارٹنوں میں ڈال کر بڑوں کی مدد کیا کرتی تھیں۔
تاجروں اور عوام سے اپنے تعلقات کے ذریعے میں انہیں امداد جمع کرنے کی ترغیب دیتا تھا اور وہ لوگ بھی بڑے شوق اور رغبت سے اپنی امداد ہمیں سونپ دیا کرتے تھے۔ حاجی داؤد زند، حاجی محمد خوش نژاد اور رضا محسنی صاحب ان لوگوں میں سے تھے جو ان رابطوں اور امداد جمع کرنے میں میری مدد کرتے تھے۔ جب اچھی خاصی رقم جمع ہوجاتی تھی تو میں سبزی منڈی جاتا تھا اور جن سبزیوں اور پھلوں کو مجاہدین کے لیے بھیجنا ضروری ہوتا تھا، ان کا آرڈر دے دیتا تھا۔ کچھ گھنٹوں بعد پھلوں اور سبزیوں سے بھرے ٹرک ہمارے گھر کے سامنے آکر کھڑے ہوجاتے تھے اور ایک ایک کرکے ہم کارٹنوں کو گھر کے صحن میں اتار لیتے تھے۔
میں بازار سے خشک میوے بھی خرید کر لاتا تھا اور کبھی کبھار اگر زیادہ پیسے جمع نہیں ہوئے ہوتے تھے تو دکانداروں کے مجھ پر اعتبار کی وجہ سے وہ میرا آرڈر پہنچا دیتے تھے اور جب میرے ہاتھ میں پیسے آجاتے تھے تو میں حساب برابر کردیتا تھا۔
میں جہاں کہیں بھی دیکھتا تھا کہ کچھ لوگ جمع ہیں، تو میں اس موقع سے فائدہ اٹھاتا تھا اور امداد جمع کرنے لگتا تھا، چاہے مسجد ہو یا بازار، مجلس ہو یا خاندانی محافل۔ اگر گرمیاں ہوتی تھیں تو میں پیسوں کو ایک ریشمی رومال میں رکھ لیتا تھا اور اگر سردیاں ہوتی تھیں تو اپنے گرم ٹوپے میں۔ لوگوں کو بھی میری آواز کی عادت ہو چکی تھی:
مجاہدین اسلام کی امداد۔ باطل کے خلاف حق کے محاذوں کی امداد۔ ان شاء اللہ دنیا میں ایک دو گے تو آخرت میں سو ملے گا۔ خدا تمہارے مال میں برکت دے۔ صدام اور اس کے آقاؤں کے نیست و نابود ہونے کے لیے با آواز بلند صلوات!
مصلیٰ قدس[i] میں ہمیں ایک کمرہ دے دیا گیا تاکہ امداد کو با آسانی جمع کیا جاسکے۔ ہمارے ایک ساتھی نے گتے پر موٹا موٹا لکھا: ’’ باطل کے خلاف حق کے محاذوں کا امدادی مرکز‘‘ اور اسے اس کمرے کے دروازے پر چپکا دیا۔ ہر ہفتے ہم جمعے کی نماز میں لوگوں سے امداد جمع کرتے تھے اور ان کی گنتی کرنے اور رپوٹ تیار کرنے کے بعد منتظمین کو دے دیتے تھے۔ ان کاموں کی ذمہ داری، محسنی بھائی کی تھی۔[ii]
نہتے لڑنا
جنگ کے ابتدائی دنوں میں ہی جہاد(آرگنائزیشن) کے افراد سے میری جان پہچان ہو گئی تھی اور مجھے لگا کہ میں اس محاذ پر انقلاب کی زیادہ خدمت کر سکتا ہوں۔ مارچ 1981(فروردین 1360) میں، میں اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر جہادی امور جو زیادہ تر تعمیراتی کام ہوتے تھے، کو انجام دینے کے لیے آبادان چلا گیا۔ ان بوڑھے اور جوان، مزدور اور ملازم، خواندہ اور ناخواندہ سب کے سب بسیجیوں کا جوش و خروش، کبھی بھی میرے ذہن سے نہیں نکلتا جو اپنے دین اور انقلاب کے دفاع کے عشق میں جنوب کے محاذ پر پہنچے تھے۔ اس جوش و خروش کے ساتھ تھکاوٹ کا گرد و غبار ان کے پورے بدن پر چھایا ہوا تھا۔ جب میں مجاہدین سے جنگی حالات کے بارے میں پوچھتا تھا تو وہ ناخوش نظر آتے تھے اور کہتے تھے: ’’ آپ جا کر بڑوں سے کہیے گا کہ ہماری مدد کریں۔ ہمارے پاس لڑنے کے لیے گولیاں تک نہیں ہیں۔ جب ہم لائن آف فائر بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں کئی راتوں تک اسلحہ اور گولہ بارود اکٹھا کرنا پڑتا ہے تاکہ ہم ایک رات دفاع کرسکیں۔‘‘
یہ بالکل وہی وقت تھا کہ جب ’’بنی صدر‘‘ ملک کا صدر تھا اور ’’زمین دو اور زمین لو‘‘ کی سیاست کے ساتھ جنگ کے امور کو چلا رہا تھا۔ میں جنگی علاقے سے واپس آیا لیکن میرا دل وہیں لگا ہوا تھا۔ میں نے مجاہدین کے حالات دیکھے تھے کہ وہ نہتے لڑ رہے تھے اور حکومت ان کی کوئی مدد نہیں کر رہی تھی۔ دوسری طرف، امام خمینی(رہ) نے یہ حکم دیا تھا کہ تفرقہ انگیز نعرہ نہ لگایا جائے، لیکن بنی صدر کے طرفدار ’’ صد در صد، بنی صدر‘‘(سو فیصد، بنی صدر) کا نعرہ لگا رہے تھے اور اس کا دفاع کر رہے تھے۔
ایک رات میں نے حرم میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ ملاقات رکھی۔ ہم نے صحن بزرگ میں آیت اللہ مرعشی نجفی کی اقتداء میں مغرب اور عشاء کی نماز پڑھی۔ لوگ صفوں میں بیٹھے ہوئے تھے۔ جیسے ہی نماز ختم ہوئی اور دعائے سلامتی امام زمانہ(عج) پڑھی گئی، تو لوگوں کے اٹھ کر جانے سے قبل، انقلاب سے پہلے احتجاجی مظاہروں کے دنوں کی طرح، صحن اتابکی میں ہمیشہ پانی سے بھری حوض کے کنارے، قطب راوندی کی قبر کے کنارے میں لوگوں کی طرف منہ کرکے کھڑا ہو گیا اور میں نے ’’ صدام مردہ باد‘‘ کا نعرہ لگایا۔ نعروں کے بعد میں نے بلند آواز سے کہا: ’’ اے لوگو! جان لو کہ محاذ پر صرف حزب اللہ ہے جو خدمت کر رہی ہے اور مجاہدین نہتے لڑ رہے ہیں۔‘‘
کچھ لوگوں کے ذہن میں یہ سوال آیا کہ میں نے اس طرح کی بات کیوں کی۔ جیسے ہی میری نعرے بازی ختم ہوئی، ایک ایک کرکے لوگوں کے سوال شروع ہوگئے:
ـ کیا حکومت ان کی مدد نہیں کر رہی؟
ـ وہ حکومت جو جنگ کے موقع پر مجاہدین کی مدد نہ کرے وہ کس کام کی؟
ـ کاش خدا ہر منافق کو نیست و نابود کر دے۔
صدام کو بھی جھیلیں اور ان اندرونی ناکارہ لوگوں کو بھی۔
جب میں نے یہ نعرے لگائے تب مجھے سکون ملا۔ مجھے لگا کہ میں نے ان مجاہدین کے لیے جو اپنے پورے وجود کے ساتھ ملک کا دفاع کر رہے تھے دین کا کچھ کام کر دیا۔ ان لوگوں نے اس حد تک ماحول گرما دیا تھا کہ گویا صرف بنی صدر ہی جنگ لڑ رہا ہے۔ بنی صدر اور بہشتی کا جھگڑا شروع ہوگیا تھا۔ آہستہ آہستہ جب سب لوگوں کو سمجھ آگیا کہ جیسا وہ سمجھ رہے تھے، ویسا نہیں ہے اور بنی صدر کا دل، امام خمینی(رہ) اور انقلاب کے لیے نہیں دھڑکتا تو ’’ صد در صد، بنی صدر‘‘(سو فیصد بنی صدر) کے نعرے، ’’مرگ بر بنی صدر‘‘ (بنی صدر، مردہ باد) کے نعروں میں تبدیل ہوگئے۔ جب میں نے 21 جون 1981(31 خرداد 1360) کے دن ریڈیو پر بنی صدر کی معزولی کی خبر سنی تو میں خوشی سے پھولے نہیں سما رہا تھا۔
اس وقت ہم سے گولہ بارود مانگتے اور صدام سے نہتے لڑنے والے ان مظلوم مجاہدین کے چہرے ایک ایک کرکے میری آنکھوں کے سامنے آرہے تھے۔ میں جب بھی محاذوں پر جاتا تھا تو امداد جمع کرنے کے لیے پہلے سے زیادہ وقت اور توانائی صرف کرتا تھا۔ دوسری جانب، جیسے جیسے ہمارے رابطے لوگوں اور تاجروں سے بڑھتے جارہے تھے ویسے ویسے امداد بھی بڑھتی جارہی تھی۔ کبھی کبھار تو ہم جہاد(آرگنائزیشن) کے تعاون سے قریب 20 ٹرک، جنگی علاقوں میں بھیجتے تھے۔ عوام دل کھول کر محاذ کی مدد کرتی تھی۔ سونے سے لے کر بھیڑوں تک، قالین اور گھریلو سامان سے لے کر جوتوں اور بوٹس تک یہ سب کی سب چیزیں محاذوں کی امداد کے لیے دی جاتی تھیں۔
ایک رات، جب ہم مسجد زین العابدین(ع) میں امداد جمع کر رہے تھے اور دوستوں کی مدد سے انہیں گاڑی میں ڈال رہے تھے، تو ایک آواز میرے کانوں سے ٹکرائی: ’’ مرزا! مرزا! میں دیکھنے کہ مڑا کہ کس نے مجھے آواز دی۔ ایک جھکی ہوئی کمر والے بزرگ تھے۔ وہ آگے آئے اور انہوں نے کہا: ’’ مرزا ابو الفضل! ڈاکٹر نے مجھے لیموں کھانے کا کہا تھا، میں نے دو کلو لیموں خرید لیے۔ اب جب میں نے سنا کہ تم محاذ پر جا رہے ہو تو اب یہ مجھے نہیں چاہییں۔ تم انہیں مجاہدین کے لیے لے جاؤ۔‘‘ میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔ کچھ دیر کے لیے میں ان بزرگ کو دیکھتا ہی رہ گیا۔ میں نے ایک نظر ان کے بوڑھے ہاتھوں پر ڈالی اور ایک نظر لیمووں کی تھیلی پر۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ میں کیا کہوں۔ میں نے ان سے تھیلی لے لی، ان کی پیشانی کا بوسہ لیا اور ان کا شکریہ ادا کیا۔ جب میں آبادان پہنچا تو میں نے کچھ لیموں آبادان میں اور باقی کوت شیخ[iii] کے علاقے میں مجاہدین تک پہنچا دیے۔ ایسے لوگ کم نہیں تھے کہ جو خود تنگدستی کا شکار ہوتے تھے لیکن وہ جہاں کہیں سے بھی پیسے حاصل کر سکتے تھے انہیں حاصل کرکے، محاذوں کی مدد کے لیے ہم تک پہنچا دیتے تھے۔ میں جتنا لوگوں کا ایثار اور مہربانی دیکھتا تھا، اتنا احتیاط کرتا تھا کہ کہیں امدادی اشیاء کی خریداری یا انہیں پہچانے میں کوئی اسراف یا کوتاہی نہ ہو جائے۔ میں دیکھ رہا ہوتا تھا کہ کچھ لوگ چند تومان جمع کرکے مجاہدین کو بھیجنے کی خاطر کتنی مشقتیں کرتے تھے۔ ہمارے بھیجے جانے والے ہر گروپ کے ساتھ کم از کم ایک مولانا ہوتے تھے، کیونکہ طالب علم(حوزوی) بھی شہری امداد جمع کرنے میں ہمارے ساتھ ہوتے تھے اور جنگی علاقوں میں بھی ان کی موجودگی ضروری تھی۔ حاجی متمسکی، حاجیان، رحمانی، فاضلی اور عسگری صاحب ہمارے گروپ کے مولانا تھے۔ کبھی کبھار وہ خود رہنمائی کرتے تھے کہ میں مختلف علاقوں میں جاؤں اور انقلاب اور جنگ کے بارے میں گفتگو کروں اور ہمیشہ کی طرح نعرے لگاؤں۔ میں جہاد(آرگنائزیشن) کے ساتھ کام کرنے کے علاوہ دوسرے اداروں کے ساتھ بھی محاذ پر جاتا رہتا تھا، چہار مردان(علاقہ) سے لے کر چہل اختران(علاقہ) کے جوانوں تک، حوزہ علمیہ کے طلباء سے لے کر تعمیراتی جہاد آرگنائزیشن(جہاد سازندگی) اور سترہویں ڈویژن کے اہلکاروں تک کے ساتھ ۔ سب کا اپنا ہی ماحول اور انداز تھا۔ مجھے مجاہدین سے محبت تھی اور وہ بھی مجھ سے محبت کرتے تھے، اگر میں کبھی نہیں جاتا تھا تو وہ دوستوں سے میرے بارے میں پوچھتے تھے۔ ہر بار جب ہم مجاہدین کے لیے امداد لے کر جاتے تھے تو وہ اس قدر خوش ہوجاتے تھے کہ ہمارے استقبال میں ہوائی فائرنگ کر دیتے تھے۔ ہمارے کام سے مجاہدین کو بہت حوصلہ ملتا تھا۔ اگر ہم نے تعمیراتی جہاد(آرگنائزیشن) میں خدمت کرنے کا مزہ نہ چکھا ہوتا تو میں ضرور مجاہدین کے ساتھ جنگی علاقوں میں تعینات ہوتا۔[iv]
[i] بلوار امین کے پل کے ساتھ واقع شہر قم کی نماز جمعہ کا مصلیٰ(نماز کی جگہ)
[ii] حاجی علی محسنی اس بارے میں بتاتے ہیں: ’’ آستانہ چورنگی کے پاس ایک ٹوٹا پھوٹا بینک تھا کہ جسے تعمیراتی جہاد(جھاد سازندگی) نے حکومت کے زریعے اپنے استعمال میں لے لیا تھا۔ ہم نے اپنے کچھ انقلابی ساتھیوں جیسے حاجی داؤد زند اور ابو الفضل الماسی کے ساتھ عمارت کی صاف صفائی کی اور کام میں مشغول ہوگئے۔ حاجی داؤد اور ابو الفضل کے عوام اور تاجروں سے اچھے تعلقات قائم کر لیے تھے اور وہ مجاہدین کو حوصلہ دینے کے لیے جنگی علاقوں میں جاتے تھے اور ان تک امداد پہنچاتے تھے۔‘‘
[iii] خوزستان صوبے میں رامھرمز شہر کا ایک نواحی گاؤں۔
[iv] منبع: یزدانی، رضا، ابو الفضلِ مرگ بر شاہ، راہ یار، 1402، ص 85۔
oral-history.ir
صارفین کی تعداد: 95
http://oral-history.ir/?page=post&id=12300