امام خمینی(ره) کی لائبریری کی غارت گری

مترجم: ضمیر علی رضوی

2024-12-02


 ان دنوں قم کے قرآن و عترت کلینک کی موجودہ بلڈنگ ایک پرانا بڑا گھر تھا، اس کی دو منزلیں تھیں اور ایک وسیع صحن تھا. میں  نہیں جانتا کہ اس گھر کے مالک نے اسے کس عنوان سے امام خمینی کو دیا تھا. مجھے خود بھی نہیں پتہ تھا کہ کیا کرنا ہے. طے پایا کہ اس جگہ ایک لائبریری قائم کی جائے. ایک دن حاجی مجتبی تہرانی صاحب مجھ سے ملے اور فرمایا کہ امام خمینی کی رائے یہ ہے کہ اس جگہ ایک لائبریری قائم کی جائے، آپ کو تو اس کام کا تجربہ ہے، اس لائبریری کے قیام میں کچھ عرصے تک آپ ہماری مدد کیجیے. مجتبی تہرانی صاحب، امام خمینی کے شاگردوں میں سے ہیں اور ایک فاضل شخصیت ہیں، انہوں نے امام خمینی کی کاسب(مکاسب) پر  حاشیہ لگایا ہے اور اس وقت وہ تہران میں درس خارج دیتے ہیں.

میں جوان تھا اور امام خمینی سے محبت بھی کرتا تھا. میں نے جلد ہی اس پیشکش کو قبول کرلیا، اگلے دن میں وہاں چلا گیا اور کام شروع کردیا. مجھ سے پہلے انہوں نے کچھ کتابیں جمع کی ہوئی تھیں. کچھ کتابیں مرحوم مرعشی نجفی صاحب نے بھی انہیں تحفے کے طور پر دی تھیں. میں نے ان سب کی فہرست بنائی، اگرچہ وہ خطی کتب نہیں تھیں لیکن اچھی اور قیمتی کتابیں تھیں جو بازاروں اور دوسری جگہوں پر نہیں ملتی تھیں. چونکہ  مرعشی صاحب کے پاس متعدد نسخے تھے تو انہوں نے کچھ نسخے انہیں تحفے کے طور پر دے دیے تھے.

لائبریری کے انچارج مجتبی تہرانی صاحب تھے. انہوں نے امام خمینی کو بھی اطلاع دے دی تھی کہ عراقچی صاحب بھی ہماری مدد کر رہے ہیں. ہم انہیں لائے ہیں تاکہ وہ کتب خانے کی ضروری کتب کی فہرست بنا دیں تاکہ انہیں خریدا جا سکے. زیادہ تر میرا مقصد یہ ہوتا تھا کہ میں تکراری کام نہ کروں اور اس لائبریری کی کتابیں وہی کتابیں نہ ہوں جو مرعشی نجفی صاحب یا فیضیہ اور مسجد اعظم کی لائبریریوں میں موجود ہیں، بلکہ میں چاہتا تھا کہ محققین اور مؤلفین کے لیے کچھ نئے منابع و مآخذ اور کتب فراہم کروں. اسی لیے میں نے آستان قدس لائبریری جیسی  بڑی لائبریریوں اور دوسری جگہوں سے ایک تفصیلی فہرست تیار کی. تہرانی صاحب اس فہرست کو نجف لے گئے وہاں انہوں نےاس فہرست کو امام خمینی کی خدمت میں پیش کیا تاکہ ان سے خریداری کے لیے پیسے لے سکیں. امام خمینی نے فرمایا: "یہ کیا ہے؟" تہرانی صاحب نے جواب دیا کہ یہ لائبریری کے لیے ہیں. اس کے پیسے دے دیجئے تاکہ ان کا انتظام کیا جا سکے. امام خمینی نے فرمایا: میں ان کتابوں کے لیے سہم امام نہیں دوں گا. اگر تفسیری، فقہی یا اصولی کتب ہوں جن کا طلباء مسلسل مطالعہ کرتے ہیں تو کوئی حرج نہیں؟ میں مدد کروں گا لیکن ان کے لیے میں کوئی مدد نہیں کر سکتا اور انہوں نے ایک ریال بھی نہیں دیا، اس کے ساتھ انہوں نے فرمایا: "اگر آپ کسی ڈونر کو ڈھونڈ لیتے ہیں تو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے". تہرانی صاحب اس سفر سے خالی ہاتھ لوٹ آئے، اس سے اس سے گویا منتیں کرنے پر مجبور ہو گئے، کچھ عرصے بعد ڈونر بھی مل گیا اور کسی حد تک لائبریری تیار ہونا بھی شروع ہو گئی.

البتہ یہ بات عرض کر دوں کہ اس لائبریری کو درحقیقت زبردستی امام خمینی کے کندھوں پر ڈال دیا گیا تھا ورنہ امام خمینی کی ان چیزوں میں دلچسپی نہیں تھی کہ مثال کے طور پر وہ مدرسے کے ساتھ مسجد یا لائبریری بنائیں، وہ بالکل بھی اس طرح کے کام نہیں کرتے تھے اور ان کی اپنی زیادہ کتابیں بھی نہیں تھیں. اس طرح کے کام زیادہ تر مرعشی نجفی صاحب انجام دیتے تھے جو واقعی میں کتاب شناس تھے. مرحوم علامہ امینی جو خود ایک بڑے کتاب شناس تھے اور نجف میں انہوں نے امیر المؤمنین(ع) لائبریری بھی قائم کی تھی، وہ کہتے تھے: " میں مرعشی نجفی صاحب کے سامنے کچھ بھی نہیں ہوں." امام خمینی کی بھی اس بات کی طرف توجہ تھی اور یہاں تک کہ انقلاب کی کامیابی کے بعد انہوں نے حکومت کو حکم دیا کہ نجفی صاحب کی لائبریری کی ساتھ تعاون کیا جائے اور وہ نجفی صاحب کی نگرانی میں ہی رہے. بعد میں، میں نے سنا کہ خامنہ ای صاحب کی رائے یہ ہے کہ نجفی صاحب کی لائبریری کو وسعت دی جائے اور اسے جدید ترین ساز و سامان سے آراستہ کیا جائے.

لیکن امام خمینی بالکل بھی اس وادی میں نہیں تھے اور یہاں تک کہ وہ مساجد کے لیے بھی اجازت نہیں دیتے تھے کہ وجوہات شرعیہ(شرعی فنڈز جیسے زکات وغیرہ) سے خرچ کیا جائے. ہمارے ایک دوست  سید ہاشم حمیدی صاحب ہیں-جو دو مرتبہ اسلامی مجلس شوریٰ(ایران کی پارلیمنٹ) میں ہمدان کی عوام کے نمائندے رہ چکے ہیں، وہ ایئر فورس میں امام جماعت ہیں اور یونیورسٹی میں تدریس بھی کرتے ہیں-انہوں نے انقلاب کی کامیابی سے قبل، قریب 35 سال پہلے کسی مسجد کی بلڈنگ کی تکمیل کے سلسلے میں امام خمینی کو ایک خط لکھا تھا کہ وہ اجازت دے دیں کہ مؤمنین اس مسجد کی بلڈنگ کی تکمیل کے لیے سہم امام سے پیسے خرچ کر لیں. حضرت امام نے جواب میں لکھا: " چونکہ مساجد زیادہ تر رقابت میں بنائی جاتی ہیں اسی لیے میں اجازت نہیں دے سکتا اور مؤمنین کو چاہیے کہ وہ خیرات(چندے و عطیات) کے ذریعے مدد کریں. اس لیے امام خمینی کو مدارس اور لائبریریاں اور اس طرح کی دوسری چیزیں بنانے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی.

ہم لائبریری میں کام میں مصروف تھے اور فہرست نگاری کر رہے تھے اور یہ وہ دن تھے کہ ابھی لائبریری کا افتتاح نہیں ہوا تھا، اچانک میں نے دیکھا کہ کوئی دروازہ کھٹکھٹا رہا ہے. مشہدی علی جو خدمتگار تھا جیسے ہی اس نے دروازہ کھولا تو کچھ افسران اور کچھ پینٹ کوٹ پہنے افراد اسلحے کے ساتھ اندر گھس گئے. پہلے وہ میرے کمرے میں آئے. انہوں نے کہا: "تم یہاں کیا کر رہے ہو؟" میں نے کہا: "میں کتابوں کی فہرست نگاری کر رہا ہوں". ان میں سے ایک جو ان کا ہیڈ تھا، اس نے غصے میں اور بدتمیزی سے کہا: اٹھو یہاں سے باہر نکلو، وہ بہت بدتمیز تھا اور نازیبا الفاظ استعمال کر رہا تھا. حاجی تہرانی صاحب اوپر والی منزل پر تھے، ان لوگوں نے جا کر انہیں ڈھونڈ لیا اور چونکہ وہ لائبریری کے انچارج تھے تو انہیں اپنے ساتھ ساواک لے گئے. اسی رات اہلکار دوبارہ آئے اور انہوں نے لائبریری کی تمام کتابیں جمع کر کے لوٹ لیں. اگلی ہی رات انہوں نے یخچال قاضی میں امام کے گھر پر دھاوا بول دیا اور ان کی ذاتی کتابیں یہاں تک کہ کچھ خطی کتابیں اور ان کے اپنے ہاتھ سے لکھی ہوئی کچھ کتابیں بھی لوٹ لیں.

یہ تعاقب اور جاسوسیاں جاری رہیں یہاں تک کہ ایک دن ایران میں موجود، امام کے چھوٹے بیٹے مرحوم احمد صاحب کو ساواک بلایا گیا تاکہ وہ وہاں جا کر کتابوں کو حاصل کرلیں. وہ نہیں گئے اور انہوں نے کہا کہ اگر میں نے ساواک میں قدم رکھا تو امام خمینی میری ٹانگ کاٹ دیں گے. وہ لوگ خود لے کر گئے تھے تو انہیں خود ہی لاکر اپنی جگہ پر رکھنی ہوں گی، وہ لوگ بھی نہیں لائے. انقلاب کی کامیابی تک ان کتابوں کا کچھ پتہ نہیں تھا، انقلاب کی کامیابی کے بعد مجھے نہیں معلوم ان کا کیا ہوا.

 

 

منبع: آیت الله حاج شیخ علی عراقچی، تدوین عبد الرحیم اباذری، تهران، چاپ و نشر عروج(وابسته به مؤسسه تنظیم و نشر آثار امام خمینی(ره)، ۱۳۸۹(2010)، ص ۲۹۱-۲۹۴.


22bahman.ir
 
صارفین کی تعداد: 58



http://oral-history.ir/?page=post&id=12244