مراجع کرام کا قم سے نجف پیغام بھیجنے کا طریقہ
مترجم: ضمیر علی رضوی
2024-12-02
6 جون(۱۶ خرداد) کی صبح میں(حیدر میریونسی) گھر سے نکلا. میرا ارادہ تھا کہ میں اپنے جاننے والوں سے ملوں اور گزشتہ روز 1342 / 1963 - 5 جون/15 خرداد- کے واقعات کے بارے میں ان سے پوچھوں اور خیر خیریت معلوم کروں. میں بہت سی جگہوں پر گیا جیسے محمدی عراقی صاحب کے والد "حاجی بہاء الدین محمدی عراقی صاحب" کے گھر- جو اس وقت اسلامک ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن میں ہیں – وہ ہمارے ایک مرشد تھے اور ہم ان سے بہت عقیدت رکھتے تھے. میں ان کی خیر خیریت معلوم کرنے کے لیے ان کی خدمت میں پہنچا. صبح کے قریب نو بج رہے تھے، جیسے ہی میں ان کے گھر میں داخل ہوا تو انہوں نے فرمایا: "بہت اچھا ہوا کہ آپ آگئے؛ گزشتہ رات 5 جون(15 خرداد) کا دن ختم ہونے کے بعد علماء نے ایک میٹنگ کی اور اخبار میں پاکروان کے بیان- کہ جس میں اس نے عوام کو انتشار پھیلانے والا بتایا تھا- کے بارے میں بات کی. اس نے اس بیان میں یہ بھی کہا کہ جن لوگوں نے ہنگامہ آرائی شروع کی تھی ان کا قلع قمع کردیا گیا ہے اور کچھ کو گرفتار بھی کیا گیا ہے". اور یہ کہ پاکروان نے کہا ہے: "علماء بھی ہمارے ساتھ ہیں". علماء نے فیصلہ کیا کہ پاکروان کی ان باتوں کے حوالے سے موقف اختیار کریں اور کہیں کہ حضرت امام اکیلے نہیں ہیں اور یہ ثابت کریں کہ علماء بالکل ان لوگوں کے ساتھ نہیں ہیں. بہرحال اس میٹنگ میں انہوں نے فیصلہ کیا کہ جس طرح سے بھی ہو ایک بیان جاری کیا جائے اور حضرت امام کی تحریک کی تائید کی جائے". حاجی بہاء الدین صاحب نے اپنی گفتگو میں مجھے مزید بتایا: "میں چاہتا ہوں کہ آپ ایک پیغام نجف پہنچائیں کہ نجف کے علماء بھی قم کے مراجع اور علماء کے اقدامات سے آگاہ رہیں تاکہ اگر وہ مناسب سمجھیں تو فیصلہ کریں. آپ اس کام کے لیے تیار ہیں؟" میں نے کہا: "جی ہاں". انہوں نے فرمایا: "پھر آپ حاجی مرتضی حائری صاحب کے گھر جائیں اور اپنی تیاری کی خبر دیں". میں حاجی مرتضی حائری صاحب کے گھر گیا اور میں نے اسے عرض کیا: " آپ کی گزشتہ رات کی میٹنگ کے بارے میں اگر کسی جگہ کے لیے کوئی پیغام ہے تو میں حاضر ہوں". چونکہ حائری صاحب پہلے سے میرے والد کو جانتے تھے تو انہوں نے کہا: "اگر تمہارا چھوٹا بھائی اس کام کے لیے آئے تو بہتر ہے". میں نے کہا: "اگر آپ کی اجازت ہو تو فی الحال میں تیار ہوں". انہوں نے کہا: " ٹھیک ہے، کوئی مسئلہ نہیں، اب اگر آپ تیار ہیں تو آیت اللہ گلپایگانی صاحب کی خدمت میں جائیں اور اپنی تیاری کی خبر دیں". انہوں نے ایک شرعی مسئلہ پوچھنے کا بھی کہا تھا جو بد قسمتی سے اس مجھے یاد نہیں ہے. وہ خواتین سے متعلق ایک شرعی مسئلہ تھا. یہ شرعی مسئلہ پوچھنا، آیت اللہ حائری اور آیت اللہ گلپایگانی کے درمیان ایک کوڈ تھا. آیت اللہ حائری نے فرمایا: " چونکہ گلپایگانی صاحب کے گھر کو پولیس نے گھیر رکھا ہے وہ تمہیں اندر نہیں جانے دیں گے لیکن اگر تم یہ شرعی مسئلہ پوچھو گے تو گلپایگانی صاحب سمجھ جائیں گے اور تمہیں بلوا لیں گے."
جب میں آیت اللہ گلپایگانی صاحب کے گھر گیا تو میں نے دیکھا کہ تین اہلکار دروازے کے آگے کھڑے ہیں؛ ایک فوجی خنجر لیے، ایک سپاہی اسلحہ لیے اور ایک سپاہی وائرلیس سیٹ لیے. دروازہ تھوڑا سا کھلا تھا. میں نے اندر جانا چاہا، پولیس اہلکار نے کہا: "کہاں جا رہے ہو؟" میں نے کہا: "میں ایک مسئلہ پوچھنا چاہتا ہوں!" اس نے مجھے اندر نہیں جانے دیا، میں واپس لوٹ گیا. میں دو تین قدم ہی چلا تھا کہ ایک دوسرے اہلکار نے کہا: "اگر اسے کوئی مسئلہ پوچھنا ہے تو پوچھنے دو، ہم کیوں روکیں!" اس نے مجھے آواز دی اور میں واپس چلا گیا. شاکری صاحب -جو ابھی بھی گلپایگانی صاحب کے گھر میں ہیں- دروازے پر آئے اور میں نے انہیں مسئلہ بتایا -کیونکہ وہ مجھے اندر نہیں جانے دے رہے تھے- وہ گئے اور دو تین منٹ بعد واپس آئے اور کہنے لگے: "آقا فرما رہے ہیں کہ تم خود اندر آؤ!" جب آقا نے فرمایا تو اہلکاروں نے بھی مجھے نہیں روکا. میں گھر کے اندر چلا گیا. جب میں پہلے کمرے میں داخل ہوا تو میں نے دیکھا کہ حاجی لطف اللہ صافی صاحب اور حاجی علوی صاحب، آیت اللہ گلپایگانی کے برابر میں بیٹھے ہیں. جب میں کمرے میں داخل ہوا تو آقا کھڑے ہو کر دوسرے کمرے میں چلے گئے. میں بھی ان کے پیچھے پیچھے اس کمرے میں چلا گیا. ہم کمرے کے بیچ میں کھڑے تھے کہ انہوں نے پتلے سے کاغذ پر ٹائپ شدہ ایک اطلاعیہ نکال کر مجھے دیا. انہوں نے فرمایا: " میں چاہتا ہوں کہ آپ اس اطلاعیے کو آبادان لے جائیں، آپ لے جا سکتے ہیں؟" میں نے عرض کیا: "جی ہاں!" انہوں نے مزید فرمایا: "ممکن ہے آپ کے لیے کوئی مشکل پیش آجائے، آپ کو نقصان پہنچے اور آپ مصیبت میں پڑ جائیں".
میں نے عرض کیا: "آقا ہم تیار ہیں ہمارے دین کی راہ میں جو ہوتا ہے ہو جائے".
پھر انہوں نے دعا کی اور فرمایا: " آپ اپنے کوٹ کا استر چیر کر اس اطلاعیے کو بیچ میں بھی رکھ کر دوبارہ سی سکتے ہیں ." سفر کے لیے انہوں نے مجھے 70 تومان بھی دیے. میں نے عرض کی: "آقا اگر آپ اجازت دیں تو میں اپنے پیسوں سے چلا جاؤں تاکہ زیادہ ثواب حاصل کر سکوں." انہوں نے فرمایا: "جیسا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ یہ دین کے لیے ہے تو اس کا خرچہ بھی اسے ہی دینا چاہیے." انہوں نے مزید کہا: " اگر راستے میں اس خط کو کچھ ہو جائے اور آپ وہاں تک پہنچ جائیں تو اس خط کا خلاصہ یہ ہے کہ اب تک جو کچھ بھی حاجی روح اللہ خمینی صاحب نے اپنے اطلاعیوں اور تقریروں میں فرمایہ ہے ہماری بھی وہی موقف ہے اور کچھ نہیں. نجف کے صاحبان آگاہ ہو جائیں کہ ہم نے اسلام کی مصلحت کی خاطر یہ اطلاعیہ جاری کیا ہے، وہ جیسا مناسب سمجھیں ویسا کریں".
اس لیے میری ذمہ داری تھی کہ میں اس اطلاعیے کو جیسے بھی ہو عراق پہنچاؤں، لیکن پہلے مجھے آبادان میں شیخ عبدالرسول قائنی نامی صاحب کے پاس جانا تھا. میں کبھی بھی آبادان نہیں گیا تھا اور میں انہیں نہیں جانتا تھا. دوسری طرف شہر قم پوری طرح سے گھرا ہوا تھا. اگر کوئی بھی شہر سے باہر جانا یا اندر آنا چاہتا تھا تو اس کی مکمل چھان بین کی جاتی تھی. پہلے میں نے بس کے ذریعے اراک جانے کا ارادہ کیا. میں شام کو اراک پہنچا. رات کو میں ریلوے اسٹیشن گیا اور ٹرین کے ذریعے اہواز کے لیے روانہ ہو گیا. وہاں سے میں ماہشہر کی بندرگاہ گیا. چونکہ مجھے آبادان شہر کے بارے میں معلوم نہیں تھا اور کسی سے پوچھنے کی بھی میری ہمت نہیں ہو رہی تھی تو میں نے کسی سے پوچھا بھی نہیں، لہذا ماہشہر کی بندرگاہ میں، میں حاجی رفیعی کی خدمت میں پہنچا. آپ مرحوم آیت اللہ بروجردی کی طرف سے ماہشہر کی بندرگاہ میں تھے اور ہمارے داماد بھی ہیں -اس وقت وہ شہر رے کے امام جمعہ ہیں- میں نے ان سے کہا کہ وہ میری رہنمائی کریں. انہوں نے نقشے سے میری رہنمائی کی کہ میں کہاں سے اور کس ذریعے سے وہاں پہنچ سکتا ہوں اور شیخ عبدالرسول قائنی صاحب کے مدرسے جا سکتا ہوں.
آخر کار 8 جون(۱۸ خرداد) کو میں مدرسے پہنچا. کچھ لوگ اور طلباء وہاں موجود تھے. میں نے شیخ عبدالرسول صاحب سے گفتگو کی اور کہا: "میں قم سے آیا ہوں اور قم کے علماء اور مراجع کی طرف سے نجف کے علماء کے لیے ایک پیغام لایا ہوں." انہوں نے کہا: "پیغام دیجیے". میں نے اپنی پینٹ کے پائنچے میں چھپایا ہوا لفافے میں موجود خط نکال کر انہیں دیا. راستے میں تین مرتبہ میری تلاشی ہوئی تھی لیکن خدا کا شکر ہے وہ برآمد نہیں ہوا. حاجی قائنی صاحب نے وہاں موجود ایک طالب علم سے کہا: " معزز طلباء! یہ آپ کے مہمان ہیں". میں نے ایک طالب علم کے حجرے میں رات گزاری اور اگلی صبح حاجی قائنی صاحب کی خدمت میں پہنچا. انہوں نے کہا: "میرا سلام پہنچا دیے گا اور کہیے گا کہ رات ایک بجے آپ کا پیغام ایران کے بارڈر سے نکل چکا". آخرکار 8 جون(۱۸ خرداد) کو وہ پیغام نجف کے علماء اور مراجع تک پہنچ گیا.
منبع: خاطرات ۱۵ خرداد، دفتر پنجم، به کوشش علی باقری، تهران، حوزه هنری، دفتر ادبیات انقلاب اسلامی، ۱۳۷۶(1997)، ص ۳۰۶-۳۰۹.
15khordad42.ir
صارفین کی تعداد: 79
http://oral-history.ir/?page=post&id=12243