ایک ٹیلیگراف کے لیے بھاری فیس کی ادائیگی
مترجم: ضمیر علی رضوی
2024-11-11
سن 1977 میں ملک ایک شدید بحران سے گزر رہا تھا. اس سال نجف میں حاجی مصطفی خمینی صاحب(امام خمینی کے بیٹے) کی پراسرار طور پر رحلت ہو گئی تھی. ان کی موت سے عوام میں غم کی لہر دوڑ گئی جس نے حکومت کے خلاف غصے، عدم اعتماد اور احتجاج سے بھری مجالس کی شکل اختیار کر لی تھی.
حاجی مصطفی صاحب کی وفات کی خبر پہنچنے کے بعد ہم نے مشہد میں اپنا رد عمل ظاہر کرنے کے لیے منصوبہ بندی کی. میں(آیت اللہ سید علی خامنہ ای) پوسٹ اور ٹیلی گراف آفس گیا اور میں نے چار ٹیلیگراف تیار کروائے؛ ایک اپنے نام سے، دوسرا طبسی صاحب کے نام سے، تیسرا محامی صاحب کے نام سے اور چوتھا ہاشمی نژاد صاحب کے نام سے.
جب میں نے پوسٹ آفس کے کلرک کو ٹیلیگراف دیے تو وہ بہت حیران ہوا اور انہیں اپنے ساتھیوں کو دکھانے لگا، جس کے نتیجے میں سارے کلرک حیران ہو گئے؛ کیونکہ تعزیتی ٹیلی گرافوں- جو امام خمینی کی تعظیم اور ان سے گہری ہمدردی پر مشتمل تھے- کے متن میں حکومت کے خلاف باغیانہ عبارات شامل تھیں. پوسٹ آفس کے کلرک کو لگ رہا تھا کہ جب وہ مجھے ٹیلی گراف بھیجنے کی فیس بتائے گا تو میں اپنے اقدام سے پیچھے ہٹ جاؤں گا؛ لیکن میں نے ایک ہزار تومان-جو مجھ جیسوں کے لیے بڑی رقم تھی- کے نوٹ کی ادائیگی کر کے اسے حیران کردیا!
منبع: خون دلی که لعل شد، گرد آورنده محمد علی آذرشب، مترجم محمد حسین باتمان غلیج، تهران، انتشارات انقلاب اسلامی، 1397(2018)، ص 273.
22bahman.ir
صارفین کی تعداد: 67
http://oral-history.ir/?page=post&id=12205