ریڈ کراس اور سید علی اکبر ابو ترابی کا واقعہ

بیرک نمبر 13

راوی: کرنل محمد خوش نیت
انتخاب: فریبا الماسی
مترجم: ضمیر علی رضوی

2024-11-11


سن 1984 میں ہماری موصل کیمپ میں منتقلی کے چند ماہ بعد، مولانا سید علی اکبر ابو ترابی صاحب بھی وہاں تشریف لے آئے. مولانا صاحب کو جنگ کے اوائل میں ہی گرفتار لیا گیا تھا. ہم نے پہلے سے ہی تفتیش کے لیے لے جائے گئے اور تشدد کا نشانہ بنائے گئے قیدیوں کی زبان سے ان کے بارے میں بہت سن رکھا تھا. ہم جانتے تھے کہ ابوترابی نامی شخص جو عالم دین بھی ہیں اور سپاہ میں بھی ہیں، بد قسمتی سے ان کی شناخت ظاہر ہوگئی اور اب وہ بعثی حکومت کے بہیمانہ تشدد کا شکار ہیں. ہم ان کی سلامتی کے لیے دعائیں کرتے تھے. قیدی بتاتے تھے کہ ہم تفتیشی سیلز میں ان کی آہ و بکا اور دعای توسل کی آوازیں سنتے تھے اور ان پر مسلسل تشدد کیا جاتا تھا، لیکن جیسے ہی انہیں تھوڑا سا موقع ملتا تھا تو وہ جیل کی راہداری میں آتے تھے. وہ قیدیوں کی ہدایت کرتے تھے. ان کا  کیمپ میں آنے کا بھی عجیب واقعہ تھا: تفتیشی سیل میں ایک عراقی جنرل ان پر بہت تشدد کرتا ہے. اس حد تک کہ جب وہ ان کا منہ نہیں کھلوا پاتا تھا تو وہ کیل سے ان کے سر پر وار کرتا ہے.

(اسی تشدد کی وجہ سے وہ تا حیات اعصابی مسائل کا شکار رہے.)

جب انہیں کیمپ لایا جاتا ہے تو پہلی بار ریڈ کراس کا وفد ان کا انٹرویو لیتا ہے، وہی جنرل، انگریزی پر عبور رکھنے والے اپنے ایک جاسوس کو ان پر نظر رکھنے کے لیے بھیجتا ہے تاکہ وہ دیکھیں کہ مولانا صاحب ان لوگوں سے کیا کہتے ہیں. جب صلیب احمر کے افراد ان سے عراقیوں کے برتاؤ کے بارے میں پوچھتے ہیں تو وہ جواب دیتے ہیں کہ نہیں نہیں، ہمیں کوئی مسئلہ نہیں ہے، ہمارے حالات بہت اچھے ہیں اور عراقیوں کا برتاؤ بھی بہت اچھا ہے.

ریڈ کراس کے وفد کے جانے کے بعد، عراقی جنرل، مولانا صاحب کو اپنے کمرے میں بلاتا ہے اور ان سے  کہتا ہے: "تم نے انہیں کیوں نہیں بتایا کہ ہم نے تم پر تشدد کیا ہے؟ ہمیں لگ رہا تھا کہ تم ہماری شکایت کروگے!" مولانا صاحب پہلے جواب دینے سے گریز کرتے ہیں لیکن جب انہوں نے جنرل کا اصرار دیکھا تو کہنے لگے: " ہم دونوں مسلمان ہیں. میں مسلمان، اپنے مسلمان بھائی کی شکایت ایک غیر مسلم سے کیسے کر سکتا ہوں کہ جس کا پتہ نہیں کہ وہ کس ارادے سے اس کیمپ میں آیا ہے؟!"

عراقی جنرل، مولانا صاحب کی باتوں سے بہت متأثر ہوتا ہے. وہ رونے لگتا ہے اور کہتا ہے: مولانا صاحب میں آپ کو قسم دیتا ہوں، بتائیں میں آپ پر کیے تشدد کی تلافی کے لیے کیا کر سکتا ہوں؟ میں صدام کے پاس جاتا ہوں اور اس سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ آپ کو رہا کردے."

مولانا صاحب انکار کردیتے ہیں اور کہتے ہیں: "نہیں ایسا مت کرنا. میں نہیں چاہتا کہ تم مجھے رہا کردو، بس مجھ سے ایک وعدہ کرو کہ مجھے کیمپوں میں منتقل کیا جائے گا اور اپنے ہم وطن قیدیوں کے بیچ رہنے دیا جائے گا."

عراقی جنرل وعدہ کرتا ہے اور اپنے وعدے پر قائم رہتا ہے. اسی بنا پر مولانا صاحب کو مسلسل کیمپوں میں منتقل کیا جاتا تھا، وہ تمام قیدیوں سے رابطے میں تھے، وہ ان کا درد دل سنتے تھے، ان کی مشکلات دور کرتے تھے اور ان کی رہنمائی کرتے تھے.

ہم نے مولانا صاحب کے بارے میں اس طرح کے بہت سے قصے سن رکھے تھے لیکن ابھی تک ہماری ان سے ملاقات نہیں ہوئی تھی. یہاں تک کہ موصل کیمپ میں ہماری منتقلی کے چند ماہ بعد ہمیں پتہ چلا کہ وہ بھی اس کیمپ میں آگئے ہیں.

اپریل سن 1984(1363) کے وسط میں،ایک دن، شام کی گنتی کے بعد جب قیدی اپنی بیرکس میں جارہے تھے کہ کیمپ کا دروازہ کھلا. عراقی فوجیوں کے ساتھ کچھ قیدی کیمپ میں آئے. عراقیوں نے ان لوگوں کو مار پیٹ اور گالم گلوچ کے بغیر بیرک-13 میں منتقل کردیا. اس کیمپ کے ماضی کو دیکھا جائے تو ہر نئے آنے والے قیدی کو مارا پیٹا جاتا تھا، سب کو حیرت ہو رہی تھی کہ قیدیوں کے اس گروہ کو کیوں نہیں پیٹا گیا. لیکن ہم سب خوش تھے کہ عراقیوں کو عقل آگئی ہے. اس دن میں شدید زخمی ہونے کی وجہ سے کیمپ کے اسپتال میں داخل تھا. بہرحال مجھے پتہ نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کتنے ہیں. ہم نے کبھی کبھار گشت پر آنے والے عراقی فوجیوں سے پوچھا یہ قیدی کتنے افراد ہیں؟ پہلے تو وہ جواب نہیں دے رہے تھے، گریز کر رہے تھے، آخرکار ہمارے بہت زیادہ اصرار پر ان میں سے ایک نے بتایا: " وہ 50 لوگ ہیں."

بظاہر وہ لوگ مولانا صاحب کو نہیں پہچانتے تھے. ہم نے پوچھا: "پرانے قیدی ہیں یا نئے؟"

انہوں نے بتایا: "پرانے!"

ہم نے پوچھا: "وہ لوگ کون ہیں؟"

پھر انہوں نے جواب نہیں دیا، یہاں تک کہ صبح ہو گئی. معمول کے مطابق گنتی کے لیے بیرکس کے دروازے کھل گئے. سب لوگ اپنے اپنے کاموں میں لگ گئے. کچھ لوگ نئے آنے والے قیدیوں کے پاس چلے گئے تاکہ پتہ چلے کہ وہ کتنے لوگ ہیں. کچھ دیر نہیں گزری تھی کہ قیدیوں میں شور اٹھا کہ مولانا ابو ترابی بھی نئے آنے والے قیدیوں میں شامل ہیں. جب یہ خبر کیمپ میں پھیلی تو ہم سب خوش ہو گئے. سارے قیدی بیرک نمبر 13 میں جمع ہو گئے تھے. بیرک لوگوں سے بھری ہوئی تھی اور اب کسی کو ناشتے کا خیال نہیں تھا. سب لوگوں نے پروانوں کی طرح مولانا صاحب کے گرد حلقہ بنایا ہوا تھا. میں آگے نہیں گیا کیونکہ میں نے سنا تھا کہ مولانا صاحب کو قیدیوں کے زخمی ہونے کی خبر سے بہت دکھ ہوتا ہے. بہرحال وہ صبح سے ظہر کی نماز تک اور ظہر کی نماز سے شام تک قیدیوں کے ساتھ مسلسل ٹہل رہے تھے، باتیں کر رہے تھے اور قیدی ان سے وعظ و نصیحت سن رہے تھے اور مولانا صاحب اس دن صرف ظہر کی نماز ہی پڑھ پائے تھے. یہاں تک کہ غروب آفتاب کے قریب کہ کاش وہ شام نہ آتی. شام کے قریب 4 یا 5 بجے عراقی فوجی، قیدیوں کی گنتی کے لیے آئے اور سیٹی بجی.

معمول کے مطابق قیدی صفیں بنا کر اپنی اپنی بیرکس کی کھڑکی کے ساتھ بیٹھے تھے. ہماری گنتی بھی کلینک میں ہوئی. فوجی کیمپ سے نکل کر اپنے ہیڈ کوارٹر چلے گئے. اچانک کیمپ پر ایک خوفناک خاموشی چھا گئی. تھوڑی دیر بعد عراقی لوٹ آئے. ہمیں کوئی دکھائی نہیں دے رہا تھا کیونکہ کلینک، بیرک-13 سے ایک بیرک کے فاصلے پر تھا، بس ہمیں دیوار سے ٹکرانے والے ڈنڈوں اور تاروں کی آوازیں اور نئے آنے والے قیدیوں کی چیخ و پکار سنائی دے رہی تھی. یہاں تک کہ اس بیرک کے تالے اور دروازے کے کھلنے کی آواز سے کیمپ کی موت کی خاموشی ٹوٹی. پتہ چلا کہ ہمیشہ کی طرح عراقی مارپیٹ کے لیے بیرک-13 میں داخل ہوئے ہیں.

پہلے تو عراقیوں نے مولانا صاحب کو جماعت سے الگ کیا اور جماعت کو پیٹا. تاروں اور ڈنڈوں کی ضربوں کے ساتھ چیخ و پکار کی آوازیں پورے کیمپ میں گونج رہی تھیں. کسی کو بھی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کرے اور کوئی کچھ کر بھی نہیں سکتا تھا. ہم نے بعد میں سنا کہ مولانا صاحب نے اپنے ساتھی قیدیوں سے کہا تھا: " اگر وہ لوگ روزانہ 10 قیدیوں کو کیمپ کے ستونوں پر پھانسی دے دیں تب بھی کسی کو اعتراض کا حق نہیں ہے کیونکہ ہم قیدی ہیں."

ہم اسپتال کے اندر سے صرف سن کر ہی ان واقعات کے بارے میں جان پا رہے تھے. بعد میں ایک نیا آنے والا قیدی بتا رہا تھا کہ تھوڑے آرام اور سانس لینے کے بعد فوجیوں نے مولانا صاحب کو اپنے بیچ گھسیٹ لیا اور سب ان پر ٹوٹ پڑے. جس کے پاس جو کچھ تھا وہ اس سے انہیں مار رہا تھا، تار سے، بیلٹ سے، کوڑے سے، جوتے سے، لاتوں سے. ہمیں باہر سے صرف تار اور کوڑے کی آواز سنائی دے رہی تھی نہ کوئی چیخ نہ کوئی پکار!

کچھ دیر گزری. پتہ نہیں آدھا گھنٹہ یا ایک گھنٹہ، لیکن مار پیٹ کا پہلا مرحلہ ختم ہوگیا اور آوازیں بند ہوگئیں. تھوڑی دیر بعد کلینک کا دروازہ کھلا، جس بیڈ پر میں تھا وہ دروازے کے سامنے تھا. مسعود نامی ایک لمبا چوڑا سارجنٹ دروازے سے داخل ہوا. پہلے اس نے ایک نظر ڈالی، سب لوگ اپنے اپنے بیڈز پر بیٹھے ہوئے تھے. کسی نے بھی رد عمل کا اظہار نہیں کیا. اس نے آواز لگائی: " ڈاکٹر حسین کہاں ہے؟"

ڈاکٹر حسین نے کلینک کے آخر سے جواب دیا: " ہاں، میں یہاں ہوں!"

سارجنٹ مسعود نے کہا: " ہم ایک زخمی لائے ہیں."

پھر وہ مسکرایا اور آہستہ سے کہنے لگا: " اس نے اپنے بلیڈ مار لیا ہے،"

ہم نہیں جانتے تھے کہ وہ کس کے بارے میں بات کر رہا ہے کیونکہ زخمی راستے میں اور کلینک کی دیوار کے پیچھے تھا. مولانا صاحب بالکل سیدھے اور لبوں پر مسکراہٹ کے ساتھ لیکن سینے کی بائیں جانب، ہتھیلی جتنے خون کے دھبوں کے ساتھ کلینک میں داخل ہوئے. کوئی بھی اپنی جگہ سے نہیں ہلا. سابقہ ہم آہنگی اور ہدایات کے مطابق کسی نے بھی رد عمل کا اظہار نہیں کیا. ڈاکٹر حسین اور ان کے اسسٹنٹ بہروز صاحب آگے بڑھے اور کچھ گفتگو کی اور پوچھا: " کیا ہوا ہے؟"

سپاہیوں نے اپنے جرم پر پردہ ڈالنے کے لیے کچھ ڈر اور گھبراہٹ کے ساتھ سارجنٹ مسعود کا جملہ دہرایا: " وہ خود کو بلیڈ سے مارنا چاہتا تھا." مولانا صاحب کو دیکھ کر پتہ چل رہا تھا کہ وہ بہت تھکے ہوئے ہیں اور ناتواں ہیں لیکن وہ دشمن کے سامنے کمزوری ظاہر نہیں کرنا چاہتے تھے. بڑی مشکل سے وہ اپنے آپ کو سیدھا کھڑا رکھ پائے، فوجیوں کے کلینک سے جاتے ہی اور  دروازہ بند ہوتے ہی وہ زمین پر گرنے ہی والے تھے کہ ڈاکٹر حسین اور بہروز صاحب نے ان کے بازو پکڑ لیے اور انہیں دروازے سے سب سے پہلے بیڈ پر لٹا دیا، انہوں نے جلدی سے گرم پانی تیار کیا، ان کی قمیض کے بٹن کھولے، پھر زخم کی صاف صفائی اور بدن سے خون صاف کرنے بعد ان کے زخم پر ٹانکے لگائے. اس کے بعد بہروز صاحب نے انہیں کچھ دودھ اور کھجوریں دیں. ڈاکٹر حسین، مولانا صاحب کو نہیں پہچانتے تھے، تھوڑی گفتگو کے بعد انہوں نے پوچھا: " مولانا صاحب کے کیا حال ہیں؟ وہ ٹھیک ہیں؟ انہیں بھی مارا ہے؟"

مجھ سے برداشت نہیں ہوا. مجھے رونا آنے لگا اور میں کمبل کے نیچے چلا گیا. بس میں نے اتنا سنا کہ مولانا صاحب نے جواب دیا: " اسے مارا ہے، اب وہ آپ کی خدمت میں ہے اور اس نے آپ کو پریشانی میں ڈال دیا ہے."

میں نے کمبل سے سر نکالا، میں نے دیکھا کہ ڈاکٹر حسین خاموش ہو گئے ہیں، سرخ ہو رہے ہیں اور ان کے ماتھے پر پسینہ آرہا ہے. وہ کچھ دیر خاموش رہے اور ان کی خاموشی سے پورا کلینک دکھی ہوگیا. کوئی کچھ نہیں بول رہا تھا. پھر مولانا صاحب نے خاموشی کو توڑا. چونکہ انہوں نے نماز عصر  نہیں پڑھی تھی اسی لیے انہوں نے ہاتھ منہ دھویا، وضو کیا اور نماز عصر کی تیاری کی.

اڑے ہوئے رنگ کے ساتھ وہ نماز عصر کے لیے کھڑے ہوگئے. مجھے یاد نہیں کہ سورہ حمد یا سورہ توحید کے درمیان، ان کی حالت خراب ہوگئی، وہ اپنی نماز کو مزید جاری نہ رکھ سکے اور وہ نماز توڑنے پر مجبور ہوگئے. انہوں نے تھوڑی دیر آرام کیا. ڈاکٹر حسین اور کلینک میں موجود دوسرے افراد نے ان سے گزارش کی وہ نماز عصر بیٹھ کر پڑھ لیں لیکن وہ نہیں مانے. وہ دوبارہ نماز کے لیے کھڑے ہوگئے. اذان و اقامت کے بعد انہوں نے نماز شروع کی، سورہ حمد پڑھی لیکن پھر وہ سورہ حمد کو پورا نہیں کر پائے تھے کہ ان کی حالت خراب ہوگئی اور وہ نماز کو ختم نہیں کر پائے اور اسے توڑنے پر مجبور ہوگئے. گرتے ہوئے انہیں ڈاکٹر حسین اور دوسرے کچھ افراد نے پکڑ لیا.

تیسری بار، ڈاکٹر حسین نے انہیں روک دیا اور اپنے ڈاکٹر ہونے کی حیثیت سے انہیں بیٹھ کر نماز پڑھنے پر مجبور کیا.

اس بار مولانا صاحب نے بات مان لی، انہوں نے بیٹھ کر اقامت کہی اور نماز شروع کردی. انہوں نے سورہ حمد پڑھی لیکن ابھی دوسرا سورہ مکمل نہیں ہوا تھا کہ انہوں نے اشارے سے اپنے آس پاس کے لوگوں کو بتایا کہ انہیں الٹی آرہی ہے. جلدی سے ان کے لیے ایک پلاسٹک کا برتن لایا گیا. بد قسمتی سے پشت پر لگنے والی تاروں کی ضربوں کی وجہ سے انہوں نے کلینک میں جو کچھ کھایا تھا سب باہر آگیا. انہوں نے تھوڑا آرام کیا، ان کی طبیعت کچھ بہتر ہوئی، پھر وہ نماز عصر پڑھنے کھڑے ہوگئے اور اشکوں کے ساتھ اسے ادا کیا.

ڈاکٹر حسین کے اصرار پر مولانا صاحب قریب ایک ہفتے تک کلینک میں ایڈمٹ رہے. ایک ہفتے بعد جب وہ نہانے گئے، شرافتی نامی ایک قیدی جو ان کی دھلائی پر مامور تھا، بتا رہا تھا کہ مولانا صاحب کی پشت، کندھے سے لے کر کمر تک نیلی پڑی تھی. اس وقت ہمیں ان کی عظیم روح کا پتہ چلا کہ کس طرح وہ اتنی کمزوری کو اپنے چہرے پر نہیں لارہے تھے. نہ انہوں نے عراقیوں کے سامنے خود کو کمزور ظاہر کیا اور نہ ہی قیدیوں کے جذبات کی وجہ سے زبان پر کچھ لائے.

 

منبع: شفیعی نیا، پروانه، روزهای اسارت، تاریخ شفاهی سرهنگ محمد خوش نیت، همدان، بنیاد حفظ و نشر ارزش های دفاع مقدس، انتشارات حماسه ماندگار، چ اول، 1398(2019)، ص 222.

 

 

 

 

 


oral-history.ir
 
صارفین کی تعداد: 32



http://oral-history.ir/?page=post&id=12204