منجمد گوشت

مترجم: ضمیر علی رضوی

2024-11-11


ایک دن، خرم آباد کے ایک عالم دین جن کا نام عماد جزائری تھا، میری دکان پر آئے اور انہوں نے ہمیں آیت اللہ گلپایگانی کا ایک اطلاعیہ دیا کہ جو منجمد گوشت بیرون ملک سے لایا جا رہا ہے وہ نجس اور حرام ہے. میں نے اس اطلاعیے کی کاپیاں کروالیں اور ان میں سے ایک کو اپنی دکان کے شوکیس کے اندر لگادیا. ایک دن ٹریڈ یونین کا ایک اہلکار آیا، اس نے اس اطلاعیے کو دیکھا اور چلا گیا، ٹریڈ یونین کا سربراہ آیا اس نے دیکھا، پڑھا اور چلا گیا. بعد میں انٹیلیجنس ایجنسی کا ایک اہلکار آیا اس نے اطلاعیے کو اکھاڑ لیا اور کہنے لگا: تم نے اسے اپنی دکان میں کیوں لگایا ہے؟ میں نے کہا: کیوں نہ لگاؤں؟ اس نے کہا: یہ حکومت کے خلاف ہے! میں نے کہا: اس کا حکومت سے کیا لینا دینا؟ چار پیسے کے بھوکے قصائی یہ گوشت لا رہے ہیں!

مختصر یہ کہ مجھے تفتیش کے لیے لے گئے. فون آیا، انہوں نے کہا: اسے ساواک لے آؤ؛ قریب پندرہ دنوں تک میں ایک تہ خانے میں قید رہا جس کی قریب بیس سینٹی میٹر کی کھڑکی ایک گلی میں کھلتی تھی. اس کمرے کے برابر سے کچھ گھنٹوں کے وقفے سے ویززز... کی آواز آتی تھی. اس نے میرا دماغ خراب کردیا تھا کیونکہ مجھے پتہ نہیں چل رہا تھا کہ یہ کس چیز کی آواز ہے. جب بھی وہ دروازہ کھولتے تھے تو ایک آدمی کھانا لاتا تھا دوسرا مجھ سے تفتیش کرتا تھا. وہ کہتے تھے: یہ تمہیں کہاں سے ملا؟ میں نے کہا: میں اپنی دکان کے ساتھ والی مٹھائی کی دکان پر پانی پینے گیا تھا جب واپس آیا تو یہ دکان کے شوکیس پر رکھا تھا. انہوں نے کہا: تو تم نے اسے شوکیس کے اندر کیوں لگایا؟ میں نے کہا: کیوں نہ لگاؤں؟ میں نے اس لی لگایا تاکہ سب لوگ دیکھیں، منجمد گوشت نہ خریدیں. اس نے کہا: تمہیں نہیں معلوم کہ اس گوشت کو حکومت درآمد کرتی ہے؟ میں نے پوچھا: حکومت درآمد کرتی ہے؟ حکومت کا گوشت سے کیا لینا دینا. کچھ با اثر مویشی بیوپاری جو زیادہ پیسہ کمانا چاہتے ہیں، ایسا کر رہے ہیں. مختصر یہ کہ انہوں نے یہ پتہ لگانے کی ہر ممکن کوشش کہ یہ مجھے کہاں سے ملا، لیکن وہ پتہ نہیں لگا پائے.

انہوں نے مجھے ملٹری بیس بھیج دیا. وہاں ملٹری کورٹ تھا. ایک افسر آیا، اس نے پوچھا: یہ ملزم کون ہے؟ جیسے ہی اس نے مجھے دیکھا، کہنے لگا: ارے جناب آپ ہیں، عجیب بات ہے؟! میں سمجھا کوئی اہوازی عرب ہے!(میرا نام عبد الرزاق شیخ زین الدین ہے. پورا عربی ہے). اب وہ میرا ہمدرد ہونے کا دکھاوا کرنے لگے. انہوں نے مجھ سے جو تفتیش کی تھی، اس نے خود اس کی رپورٹ کو اٹھا کر پھاڑ دیا اور ایک دوسری رپورٹ لکھی. اب وہ مجھ پر احسان کرنا چاہتا تھا. مختصر یہ کہ میں نے دستخط کردیے اور انہوں نے کہا: کسی کو آپکی ضمانت لینی ہوگی کہ جب بھی آپکو بلایا جائے گا، آپ آئیں گے. میں نے فون کیا، ایک آدمی آیا اس نے میری ضمانت لی اور میں رہا ہوگیا.

 

 

 

 

 

منبع: کلباسی، مجتبی، خاطرات مرحوم عبد الرزاق شیخ زین الدین پدر شهیدان مهدی، مجید زین الدین، قم، انتشارات شهیدین زین الدین، 1391(2012)، ص ۳۱-۳۰.


22bahman.ir
 
صارفین کی تعداد: 23



http://oral-history.ir/?page=post&id=12203