کتاب "شرح درد اشتیاق" کا تعارف

مصنف: اصغر کاظمی
ترجمہ: ضمیر علی رضوی

2024-11-01


ڈاکٹر محمد رضا ظفرقندی کی محاذ،  جنگ اور فیلڈ اسپتالوں میں سروس کے دنوں کی یادوں کو سن 2022(1401) میں راحلہ صبوری کی کاوشوں سے 466 صفحات پر مشتمل "شرح درد اشتیاق" نامی کتاب میں سورہ مہر پبلیکیشنز نے شائع کیا. میڈیکل کے قیدی افراد کی یادوں کے عناوین کی تعداد کو ملا کر دفاع مقدس میڈیکل ڈیپارٹمنٹ کی کتابوں کے عناوین کی تعداد 100 کے قریب ہے.

"شرح درد اشتیاق" راحلہ صبوری صاحبہ کی پانچویں کتاب ہے جو زبانی تاریخ اور دفاع مقدس لٹریچر کے سلسلے میں تدوین کی گئی ہے. کتاب کے ابواب کے درمیان ہر باب سے متعلق تصویریں اور دستاویزات پیش کیے گئے ہیں تاکہ قاری کو واقعات کی تفصیلات کا مزید اطمینان حاصل ہو سکے.

البتہ غیر میڈیکل دستاویزات کے درمیان ڈاکٹر ظفرقندی کے روزانہ کے نوٹس کا ایک خاص مقام ہے. یہ کتاب اسپتال کے ماحول میں 40 گھنٹے کے انٹرویو کی بنیاد پر تشکیل پائی ہے. اسپتال کے ماحول میں انٹرویو کرنا، انٹرویو کرنے والے کے لیے، میڈیکل کی فضا کو بہتر طور پر سمجھنے میں اور گفتگو کے معیار کو بہتر بنانے میں موثر ہے.

دفاع مقدس کی میڈیکل گروپ کی کتابوں کی تدوین اور نشر میں عام مخاطبوں پر توجہ رکھنا بنیادی چیز ہے کیونکہ ڈاکٹر کے کام کا خاص ہونا اور اس شعبے کی خصوصی اصطلاحات کا فراوان استعمال، باتوں کے سمجھنے کو دشوار بنا دیتا ہے. جب کوئی فوجی نرس یا ہیلپر محاذ کے دنوں کی یادیں بیان کرتا ہے تو ممکن ہے کہ اس کے مخاطب عام لوگ ہوں لیکن ایک اسپیشلسٹ یا سرجن کا اپنی آپریشن تھیٹر کی یادوں کو بیان کرنا آسان نہیں ہوتا. آپریشن تھیٹر کا ایک خاص ماحول ہوتا ہے اور ان باتوں کے مخاطب کم ہی ہوتے ہیں لیکن ہماری زیادہ تر کوشش یہ ہوگی کہ ہم عام مخاطبوں کو بھی ملحوظ خاطر رکھیں. ڈاکٹر کی یادوں کی تدوین میں میڈیکل کے خصوصی نکات کی سادہ نویسی کام کو کئی گنا مشکل بنا دیتی ہے. ڈاکٹر اور انٹرویو لینے والا دونوں کو زیادہ سے زیادہ کوشش کرنی پڑتی ہے تاکہ عام مخاطبوں کے لیے میڈیکل کے خاص مفاہیم اور اصطلاحات کی سلیس نگاری اور سادہ نویسی کی جاسکے. کتاب "شرح درد اشتیاق" میں، متن اور حاشیے میں اس اہم نکتے کا خیال رکھا گیا ہے تاکہ عام مخاطب بھی کتاب سے منسلک ہو سکیں.

دفاع مقدس کی میڈیکل ڈپارٹمنٹ کی کتب، میڈیکل کے تجربات کے علاوہ جنگ کے اس انسانی پہلو کو بھی آشکار کرتی ہیں جس سے بے توجھی کسی صورت بھی جائز نہیں ہے.

میدان جنگ میں فریقین ایک دوسرے پر آگ برساتے ہیں اور ایک دوسرے کے قتل کا ارادہ رکھتے ہیں. ڈاکٹر ظفرقندی کی یادوں میں متعدد مرتبہ ملتا ہے کہ انہوں نے عراقی زخمیوں کا علاج کیا ہے اور فیلڈ اسپتال کا بیڈ، اپنے اور دشمن کے لیے ایک سا ہی ہے. فیلڈ اسپتال جنگ کے اچھے اور برے کا ایک موڑ ہوتا ہے. جو چیز اسپتال کے باہر دکھائی دیتی ہے وہ جا رحیت اور قتل و غارت گری ہے لیکن اسپتال کے اندر سب لوگ اسی کوشش میں لگے ہوتے ہیں کہ ہر آنے والے زخمی کی امداد اور علاج کریں. ہم سب جانتے ہیں کہ سرجیکل بلیڈ، تلوار سے زیادہ تیز دھار ہوتا ہے لیکن اسپتال میں یہ بلیڈ صرف انسانوں کی جان بچانے کا کام کرتا ہے.

جو کچھ عراق میں موجود ایرانی قیدیوں کے بارے میں بتایا گیا ہے وہ مختلف ہے. زخمیوں کو قتل کرنا ایک غیر انسانی کام ہے جسے بارہا بعثی انجام دیتے تھے. فیلڈ اسپتال میں یہ دو ممتاز اور مختلف پہلو نظر آتے ہیں؛ انسانیت کا طلوع اور غروب اسی موڑ پر ہوتا ہے. اسی لیے ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل اسٹاف کی یادیں چاہے میڈیکل کے خاص پہلو سے ہوں یا انسانی پہلو سے، توجہ اور جائزے کے قابل ہیں. فیلڈ اسپتالوں پر ہوائی اور توپ خانوں کے حملے بھی  بعثیوں کی جارحیت میں شامل تھے کہ جن کی جانب کتاب "شرح درد اشتیاق" میں متعدد مرتبہ اشارہ کیا گیا ہے.

فیلڈ اسپتال سے زیادہ، ڈاکٹرز ایران کے محاذ پر زخمیوں کی امداد میں مشغول ہوتے تھے. درہ شیلر، کہ جہاں فرنٹ لائن سے فیلڈ اسپتال کا فاصلہ زیادہ تھا، کے آپریشن کے دوران ڈاکٹر ظفرقندی رضاکارانہ طور پر "کانی مانگا"(پہاڑ) کی بلندیوں پر فرنٹ لائن پر جاتے ہیں تاکہ ایک پیرامیڈکس کی طرح(لیکن ڈاکٹر کی مہارت کے ساتھ) زخمیوں کا علاج معالجہ کر سکیں. آپریشن والفجر-4 کی سب سے شدید لڑائی جو ایک مہینے تک جاری رہی، کانی مانگا کی 1904 کی زین اسبی(گھوڑے کی زین) ناہموار چوٹی پر ہوئی. چوٹی 1904 کبھی ہمارے کنٹرول میں آجاتی تھی اور کبھی عراقیوں کے کنٹرول میں، توپ خانوں کی بھاری گولہ باری سے کانی مانگا ایک آتش فشاں جیسا دکھائی دیتا تھا، لیکن ہمارے جنگجوؤں، جن کے ساتھ ایک ڈاکٹر بھی تھے، نے زین اسبی ناہموار چوٹی میں ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹایا. ڈاکٹر ظفرقندی کام ختم ہونے تک زخمیوں کے پاس ہی رہتے تھے تاکہ انہیں اپنے علاج کی فکر نہ ہو. ڈاکٹر، جنگی علاقے سے اس وقت نکلتے ہیں کہ جب وہ خود اسٹریچر پر لیٹ جاتے ہیں! وہ بھی دوسرے جنگجوؤں کی طرح کیمیائی حملے سے متاثر ہوگئے تھے.

بے شک ڈاکٹر ظفرقندی کی جنگ کے بعد کی یادیں بھی تفصیلی اور قابل توجہ ہیں اور وہ خود بھی دفاع مقدس کے زمانے کے کیمیائی نقصانات کو جھیل رہے ہیں.

سینا اسپتال کے شمالی حصے میں ایک عمارت بنائی گئی ہے کہ جس کے اخراجات ظفرقندی خاندان کی طرف سے کیے گئے ہیں.

کتاب "شرح درد اشتیاق" لائق مطالعہ کتاب ہے اور ڈاکٹر ظفرقندی اور صبوری صاحبہ کی کئی سالوں کی کوششیں قاری سے پوشیدہ نہیں ہیں. کتاب کے نام کا انتخاب، بد قسمتی سے عشقیہ اور شاعراںہ  ہے:

                         سینه خواهم شرحه شرحه از فراق     تا بگویم شرح درد اشتیاق

ایک سینہ چاہتا ہوں جو فراق سے ٹکڑے ٹکڑے ہوا ہو      تاکہ میں درد اشتیاق کی شرح کہہ سکوں.

یادوں کی کتاب، دستاویزات کی بنیاد پر استوار ہے اور ہماری زبانی تاریخ کا حصہ بن سکتی ہے. اسی لیے کتاب کے نام کے انتخاب میں مزید غور و خوض کیا جانا چاہیے تھا. مخاطب کی توقع یہ ہے کہ کتاب کے نام میں اس کے میڈیکل سے متعلق مواد کی جانب بھی اشارہ ہونا چاہیے.

کتاب کی روایت میں تنوع پایا جاتا ہے. اگر انٹرویور(صبوی صاحبہ) یا راوی(ڈاکٹر ظفرقندی) اس روایت میں کچھ ادھر ادھر کر دیتے ہیں یا اس میں نمک مرچ لگا دیتے ہیں تو یہ ایک گھسی پٹی سی کتاب بن کر رہ جاتی. کتاب کی خوبصورتی یہ ہے کہ کچھ ابواب پڑھنے کے بعد آپ کے اور کتاب کے درمیان ایک رابطہ قائم ہو جاتا ہے. مؤلف نے بہت ساری معلومات جمع کی ہے. یہ کتاب محض عام مخاطبوں کے لیے نہیں لکھی گئی. انہوں نے عام مخاطبوں سے قریب ہونے کی کوشش کی ہے، ایک ڈاکٹر کی انفرادی اور خصوصی روایت میں نشیب و فراز ہوتے ہیں جو عام مخاطب کو بھی اپنی طرف مائل کرسکتے ہیں. اس کتاب میں روایتوں کو کم ترین مداخلت اور دست اندازی کے، صرف ادبی ایڈیٹنگ کے ساتھ پیش کیا گیا ہے.

خلاصہ کلام یہ کہ دفاع مقدس کے جنگجوؤں کی خصوصیت، جارحیت اور ان کا مقصد قتل و غارت گری نہیں تھا. تقدیر نے غیر عسکری اور رضاکار فورسز سے میدان جنگ کے ایسے بہادر جنگجو بنائے کہ آج جن کی یادوں کو لکھنے پر مؤلفین فخر کرتے ہیں. دفاع مقدس لٹریچر، ایران کی فورسز کے جارحیت سے اجتناب اور بردباری کے فروغ کو ظاہر کرتا ہے. صدام شروع میں ایک ڈاکو تھا جو خوزستان(صوبہ) کے شہروں کو الگ کرنے اور اس کے اموال کو لوٹنے کا ارادہ رکھتا تھا. اس نے اپنے اس مقصد تک پہنچنے کے لیے 12 فوجی ڈویژنز کے ساتھ مسلط کردہ جنگ شروع کی لیکن آٹھ سال کے بعد وہ ایک ایسا دیوانہ بن گیا کہ جس کے لیے ایرانی عام شہری اور یہاں تک کہ عراقی بھی برابر ہو گئے تھے اور اس نے سب کو موت کے گھاٹ اتار دیا.  یہ جنگی مجرم 60 سے زیادہ فوجی ڈویژنز کے ساتھ بھی کامیابی حاصل نہیں کر سکا. ایران کی عوام کی ہوشیاری اور ایثار نے صدام کو ناکام کر دیا اور ہم ایرانیوں کے لیے یہ افتخار رقم ہو گیا کہ دفاع مقدس کے جنگجو اخلاق کے ساتھ، بہادری سے لڑے.

جارحیت اور قتل و غارت گری کی جنگ میں اخلاق اور انسانیت کی حفاظت کم ہی دیکھنے میں آتی ہے لیکن جنگجوؤں کی یادیں اور جنگ کے دستاویزات خاص طور پر ڈاکٹرز کی یادیں، یہ بتاتی ہیں کہ دفاع مقدس میں میڈیکل اخلاق اور انسانی پہلو کا خیال رکھا گیا ہے. ڈاکٹر نے مریض کو بچانے کی قسم کھائی ہے. چاہے وہ دشمن ہی کیوں نہ ہو. یہ بالکل مختلف، خوبصورت اور اخلاقی پہلو ہماری جنگجوؤں کی نجات اورکامیابی کا راز رہا ہے.


oral-history.ir
 
صارفین کی تعداد: 110



http://oral-history.ir/?page=post&id=12177