فاو کے اسپتال کے میل نرس
محیا حافظی
مترجم: ضمیر علی رضوی
2024-11-01
"ایوبی اسپتال میں، میں نے یہ واقعہ نہیں دیکھا لیکن فاو کے اسپتال میں، میں نے خود دیکھا. روزانہ کم از کم ایک بار ہم دیکھتے تھے کہ عراقی طیارے اسپتال پر بمباری کرنے کے لیے اس علاقے سے آتے تھے! لیکن ہماری فورسز اسپتال کی چھت پر اتنی مٹی بجری ڈال دیتی تھیں کہ وہ ایک ٹیلے جیسا بن جاتا تھا اور ہمارے ساتھیوں کو بم وغیرہ کی آوازیں کم ہی سنائی دیتی تھیں. اسپتال کی چھت پر ہمیشہ ایک دو لوڈر موجود رہتے تھے جو اسپتال کو چھپانے کے لیے چاروں طرف سے مسلسل اس پر پر مٹی ڈالتے رہتے تھے. وہ آتے تھے مثال کے طور پر ایک میزائل مارتے تھے ایک گڑھا بن جاتا تھا تو وہ اسے دوبارہ بھر دیتے تھے. فاو کے فاطمہ زہرا اسپتال کے ارد گرد تقریبا 6 طیارہ شکن توپیں تھیں."
یہ متن کتاب کے سفید سرورق کے پیچھے لکھا ہوا ہے. کتاب کے سرورق پر دریائے بہمن شیر(فاو کا علاقہ) کے کنارے موجود نخلستان میں لی گئی راوی کی تصویر موجود ہے. نیچے لکھیں عبارت کے ساتھ یہ تصویر، تصویروں اور دستاویزات والے حصے میں موجود ہے. کتاب "فاو کے اسپتال کا میل نرس"، سید کاظم اولیائی پور کی یادیں کو سن 2022(1401) میں "بنیاد حفظ آثار و نشر ارزش های دفاع مقدس استان خراسان جنوبی"( صوبہ جنوبی خراسان کی فاؤنڈیشن برائے تحفظ آثار و نشر اقدار دفاع مقدس) کی طرف سے 192 صفحات پر مشتمل 500 نسخوں کی تعداد میں شائع کیا گیا ہے. انٹرویو اور اس کتاب کی تدوین کو "مصطفی فروتن تنہا" نے انجام دیا ہے.
راوی، دفاع مقدس کے زمانے میں فاطمہ زہرا فیلڈ اسپتال میں سرجن اسسٹنٹ میل نرس تھے. انہوں نے اپنی یادیں، 11 انٹرویو سیشنز میں بیان کی ہیں اور 28 فروری 2022 کو تکمیلی انٹرویو لیا گیا ہے. یہ کتاب، مقدمے، عرض مؤلف، چار ابواب(بچپن اور جوانی، انقلاب، جنگ اور جنگ کے بعد کا زمانہ) کے ساتھ تصاویر اور دستاویزات پر مشتمل ہے.
راوی کے بچپن اور جوانی کے باب میں موجود کتاب کا مواد، مخاطب کو بیرجند(شہر) کو مزید جاننے میں مدد کرتا ہے. پھر اس کے بعد راوی کا ہائی سکول کا زمانہ، انقلاب کے ایام اور راوی کی جنگ سے پہلے تک کی سرگرمیاں ہیں. اس کے بعد جنگ شروع ہو جاتی ہے. پہلے وہ تین مہینے تک ایک بسیجی کی حیثیت سے اور پھر کئی مرتبہ جنگی علاقوں کے اسپتالوں میں سرجن اسسٹنٹ میل نرس کی حیثیت سے محاذ پر موجود رہے. جنگ کے واقعات کے بعد، راوی کی ازدواجی زندگی، بیرجند کے اسپتالوں میں ان کی نرسنگ، مختلف اسپتالوں کو ڈیزائن کرنے اور انہیں آراستہ کرنے میں ان کی اعانت اور اس شعبے کی مشکلات کے بارے میں بات کی گئی ہے.
اسی دوران، یونیورسٹی کی طالب علمی کے زمانے کی یادیں، حالات کے مطابق ڈھلنا، مختلف شعبوں کا تجربہ، مختلف سفر اور واقعات کی تفصیلات بیان ہوئی ہے. یہ کتاب سن 2021(1400) میں کورونا کی بیماری پھیلنے کے زمانے میں تیار ہوئی اور اس کی تدوین سن 2022(1401) میں اپنے اختتام کو پہنچی. عرض مؤلف کے بعد، راوی کی مختلف سالوں کی سرگرمیوں کا 3 صفحات پر مشتمل ایک تاریخ وار جدول پیش کیا گیا ہے جو محققین کے کام کو آسان بنا سکتا ہے.
اولیائی پور، بیرجند کے گاؤں خراشاد میں پیدا ہوئے. انہوں نے اپنی یادوں میں خراشاد کے لوگوں کی ثقافت اور پیشے کے بارے میں بتایا ہے. انہوں نے بنائی کی صنعت اور ریشم کے دھاگے کی روایتی تیاری کے بارے میں بات کی ہے تاکہ مخاطب اس زمانے کی ثقافت اور پیشوں سے واقف ہو سکے. ان کی پیدائش سن 1963(1342) کی ہے. سن 1983(1362) میں انہوں نے نرسنگ کی فیلڈ میں ایسوسی ایٹ ڈگری پروگرام مکمل کیا. وہ یونیورسٹی کی طالب علمی کے دوران، تہران میں سینا اسپتال میں کام کرتے تھے. سن 1985(1364) میں انہوں نے تہران کی شہید بہشتی یونیورسٹی میں اپنا نرسنگ کا ڈگری پروگرام شروع کیا. سن 1985(1364) جب وہ شہید بہشتی یونیورسٹی میں تھے تو وہ ستاد رسیدگی به مصدومان جنگ(جنگ کے زخمیوں کی دیکھ بھال کا مرکز) سے واقف ہوئے. اس مرکز کی ایک شاخ سینا اسپتال میں فعال تھی. یہ مرکز سپاہ پاسداران سے منسلک تھا اور ایک مہینے یا اس سے زیادہ لمبے مشن پر جنگی علاقوں میں فورسز بھیجتا تھا. انہیں ایک سال بعد خوزستان بھیج دیا گیا. اپنی یادوں میں آگے چل کر راوی کہتا ہے: سپاہ کے فیلڈ اسپتال لوہے یا کنکریٹ کے شیڈوں کی شکل میں ہوتے تھے. آپریشن تھیٹرز، ہال کے برابر میں واقع تھے. وہ ہاتھ دھوتے تھے اور آپریشن کرتے تھے. جب فوجی آپریشن بہت شدید ہوتا تھا جیسے ہی اس کمرے کا آپریشن ختم ہوتا تھا تو وہی سرجن دوسرے کمرے میں چلا جاتا تھا اور سرجری شروع کر دیتا تھا. فوری طور پر اس کمرے کو خالی کر دیا جاتا تھا، اس کی دھلائی ہوتی تھی تاکہ وہ اگلے آپریشن کے لیے تیار ہو. جیسے ہی وہ دستانے اتارتے تھے تو دوسرے دستانوں سے اگلا آپریشن شروع کر دیتے تھے. یہ رش اور زخمیوں کی تعداد زیادہ ہونے کی علامت تھی. آپریشن تھیٹر سے پہلے، ایمرجنسی میں کچھ زخمیوں کو اسٹریچر پر لٹا دیا جاتا تھا اور انہیں ڈرپ لگا دی جاتی تھی تاکہ ان کے بلڈ پریشر اور خون کے رساؤ پر قابو پایا جا سکے.
راوی نے 1989(1368) میں شادی کی اور اس وقت وہ بیرجند میں امام رضا(ع) اسپتال میں ہیڈ نرس تھے. وہ اپنی ریٹائرمنٹ(سن2017 یا 1396) تک بیرجند کے رازی اسپتال میں خدمات انجام دیتے رہے. وہ اس وقت بیرجند یونیورسٹی آف میڈیکل سائنسز کے ریٹائرڈ افراد کےمرکز کے بورڈ آف ڈائریکٹرز(هیئت مدیره کانون بازنشستگان دانشگاه علوم پزشکی بیرجند) کا حصہ ہیں.
oral-history.ir
صارفین کی تعداد: 122
http://oral-history.ir/?page=post&id=12176