گوهرالشریعه دستغیب کی یادیں

مصنف: طیبه پازوکی
ترجمہ: سیدہ رومیلہ حیدر

2024-10-03


حکومت کے خلاف انکشاف کے لیے ہمارا ایک اور کام گلی اور بازار کے لوگوں کو آگاہ کرنا تھا۔ چونکہ بازار خریداری کا مرکز تھا، اس لیے ہم وہاں سے گزرنے والے اور وہاں کے دکانداروں کے جذبات کو اچھی طرح بیدار کر سکتے تھے۔ جدوجہد کرنے والے دکاندار بھی اس بات پر یقین رکھتے تھے بازار حکومت کے خلاف انکشاف کے لیے بہترین جگہ ہے۔

ہم نے گھر پر خواتین سے ملاقات کا وقت طے کیا اور اگلے دن ہم ایک ایک کر کے بازار کے سامنے پہنچ گئے اور مقررہ وقت پر وہاں جمع ہو گئے۔ پھر ہم سب اللہ اکبر اور لا الہ الا اللہ کے نعرے لگاتے ہوئے بازار میں داخل ہوتے۔ ہمارا مدعا یہ تھا کہ وہ ہمارے شوہروں یا بچوں کو لے گئے ہیں اور انہیں ہراساں اور تشدد کا نشانہ بنا رہے ہیں اور انہیں مارنا چاہتے ہیں۔ بلاشبہ، دکاندار اپنے گھر والوں، دوستوں اور جاننے والوں کو بتاتے جو وہ بازار میں ہوتا دیکھ رہے تھے۔ بعض اوقات جب پولیس اہلکار ہمیں گرفتار کرنے پہنچتے تو دکاندار جو واقعی مسلمان تھے۔ اپنی رفاقت ظاہر کرنے کے لیے، ہمیں فرار ہونے میں مدد کرتے۔ لیکن ان مدد کے باوجود بعض اوقات بعض کو گرفتار کر لیا جاتا تھا۔

مجھے یاد ہے کہ ایک نوجوان عورت، جو ہمارے قریبی جاننے والوں میں سے ایک تھی، جس کا شوہر جیل میں تھا اور اس نے اپنی چھ سات ماہ کی بیٹی کے ساتھ کچھ وقت ہمارے گھر میں گزارا، ایک بار اپنے بچے کو مشہدی رضا کے پاس چھوڑ کر ہم دونوں ساتھ بازار گئے۔ اس دن جب افسروں نے حملہ کیا تو ہم بھاگتے ہوئے بازار کی بھول بھلیوں میں ایک دوسرے کو کھو بیٹھے۔ میں نے اسے ڈھونڈنے کی بہت کوشش کی لیکن وہ مجھے نہیں ملی تو میں اکیلی ہی گھر لوٹ آئی۔ مجھے امید تھی کہ وہ خود واپس آجائے گی۔ لیکن جب کئی گھنٹے گزر گئے اور اس کی کوئی خبر نہ ملی تو میں نے اندازہ لگایا کہ اسے گرفتار کر لیا گیا ہے۔ میں بہت پریشان تھی۔ دوسری طرف اس کا بچہ بھوکا تھا جسے ہم سے انسیت نہیں تھی اور مسلسل رو رہا تھا۔ ہمارے پاس گھر میں پاسچرائزڈ دودھ تھا۔ میں نے اسے گرم کیا، بچہ دودھ پی کر سو گیا۔ میں نے اپنے آپ سے کہا کہ اگلی صبح میں شیراز میں اس کے گھر والوں کو اطلاع دوں کہ وہ اس کے لیے کچھ کریں۔ میں جانتی تھی کہ گھر سے فون کرنا صحیح کام نہیں تھا۔ میں کسی کے گھر نہیں جا سکتی تھی، فون نہیں کر سکتی تھی۔ اس لیے میں ٹیلیفون سینٹر گئی اور اس کے والد سے کہا: "مسئلہ کچھ یوں ہے، آپ تہران آئیں اور کوشش کریں، تاکہ آپ اسے ڈھونڈ سکیں۔" دو تین دن بعد اس خاتون کے والدین تہران آئے کوششوں کے بعد ضمانت پر اسے رہا کر دیا۔ رہائی کے بعد جب وہ اپنی بیٹی کو لینے ہمارے گھر آیا تو اس نے بتایا کہ اس دن بازار میں کئی اور لوگوں کو گرفتار کیا تھا۔

 


22bahman.ir
 
صارفین کی تعداد: 91



http://oral-history.ir/?page=post&id=12123