آیت اللہ مدنی کے بارے میں سردار محمد جعفر اسدی کی یادداشتیں

انتخاب: فائزہ ساسانی خواہ

ترجمہ: یوشع ظفر حیاتی

2024-09-24


ایک انقلابی جوان کے ہمراہ مہدی کے ساتھ جس طرح میں نے پہلے بھی بتایا کہ نورآباد میں ایک سید عالم دین بھی تھے کہ ہمارے گروہ کی سیکیورٹی اصولوں کی وجہ سے ہمیں بہت احتیاط سے ان سے نزدیک ہونا تھا تاکہ ان کی اصل شناخت جان سکیں۔ نورآباد کے مقامی دکاندار حاج موسی رضا زادہ جن سے پہلے ہی آشنائی ہوچکی تھی اور وہ ہمارے گروہ سے تعاون کررہے تھے ہم نے انہیں مامور کیا وہ اس بات کا پتہ لگا سکیں کہ یہ عالم دین بالآخر ہیں کون؟ کہاں سے آئے ہیں؟ یہاں کیا کررہے ہیں؟ ان کے نظریات کیسے ہیں؟ ان عالم دین کے پیچھے ایک نماز مغربین ہی پڑھنا کافی تھا تاکہ حاج موسی اس ماجرا کی تہہ تک جاسکیں۔ مغرب کی اذان کے ایک دو گھنٹے بعد میرے پاس آئے اور کہا کہ یہ عالم دین آیت اللہ مدنی ہیں، آذربائیجان کے شہر آذرشہر سے تعلق رکھتے ہیں اور حکومت نے انکو یہاں خرم آباد شہر بدر کردیا ہے۔

اگلی رات مہدی، محمود اور موسی کے ساتھ ہم گئے اور انکے پیچھے نماز ادا کی اور مضاف اور مطلق پانی کا فرق جاننے کے بہانے ان سے نزدیک ہوئے اور پھر اپنا تعارف کروایا اور اس طرح ہم ان کے شاگرد اور مرید بن گئے کہ نہ صرف انکی شہادت تک ان سے عقیدت رکھتے تھے بلکہ آج بھی ان کے دیدار کی حسرت نظروں میں بسی ہوئی ہے۔

ہم ابتداء میں ہی جان چکے تھے کہ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد آذرشھر سے تبریز آگئے اور اسکے بعد قم چلے گئے اور وہاں سے نجف کا رخ کیا جہاں پر آیت اللہ کوئی کے خاص شاگردوں میں شمار ہونے لگا۔ بعد میں میں نے خود انکے اجتہاد کا اجازہ آیت اللہ خوئی کے دستخط کے ساتھ دیکھا تھا۔ جب امام خمینی رح کو نجف بدر کیا گیا تو آیت اللہ مدنی اپنی پاک طینت کی وجہ سے امام خمینی رھ کی شخصیت میں جذب ہوگئے حتی ایک مرتبہ اپنے استاد آیت اللہ خوئی سے یہ اعتراض بھی کیا کہ نجف میں آپ کا مقام اور مرتبہ امام خمینی رح سے بالاتر ہے تو پھر آپ ان کی طرح کوئی تحریک کیوں نہیں چلاتے یا اعتراض کیوں نہیں کرتے؟

آیت اللہ خوئی دلیلیں پیش کرتے تھے کہ میرا کام کچھ اور ہے اور ہمیں سیاسی نقصانات کے مقابلے میں حوزہ کی حفاظت کرنا ہے اور اس طرح کی دوسری باتیں لیکن آیت اللہ مدنی راضی نہیں ہوتے تھے اور بحث طول پکڑ جاتی تھی۔ یہ بہت تلخ واقعہ ہے جو میں بہت کھل کر بیان نہیں کرنا چاہتا۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ مدنی صاحب کا شہریہ آیت اللہ خوئی نے بند کروادیا اور آپ مجبوری کی وجہ سے اور اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے ایران واپس لوٹ آئے تاکہ عوام کو امام خمینی رح کے افکار و نظریات سے روشناس کروا سکیں۔

وہ کچھ اس طرح لوٹے تھے کہ ساواک نے انکے واپس آتے ہی انکی فائل کھول دی تھی۔ خرمآباد میں انکے گھر پر ساواک کے چیف نے خود فون کیا۔ آیت اللہ مدنی کی عادت تھی وہ ہر ٹیلیفون کا خود جواب دیتے تھے۔ ساواک کے چیف نے اپنا تعارف نہیں کروایا اور ایک سرکاری افسر کے عنوان سے سوال پوچھا کہ میں کس کی تقلید کروں؟ آیت اللہ مدنی نے عقلی اور شرعی دلیلیں بیان کرتے ہوئے بتایا کہ ایک مرجع تقلید سے دوسرے مرجع تقلید کی تقلید میں جانا جائز ہے اور آج کے زمانے میں آیت اللہ خمینی رح کی تقلید کرنا واجب ہے۔ ساواک کے چیف نے کہا کہ میں سرکاری نوکر ہوں اور حکومت کے تعلقات امام خمینی رح کے ساتھ اچھے نہیں ہیں۔ آیت اللہ مدنی نے جواب دیا کہ تو میں کب کہہ رہا ہوں کہ تم انکا رسالہ عملیہ دفتر لے جاؤ؟ ضروری نہیں ہے کہ کسی کو یہ بتاؤ کہ کس کی تقلید کررہے ہو۔ تقلید کا مسئلہ خدا، مرجع تقلید اور تمہارے درمیان ہے۔

ساواک کے چیف نے خرم آباد کے ایک تاجر کو کہا کہ یہ شخص عجیب بے خوف اور نڈر انسان ہے۔ اس تاجر نے ساواک کے چیف کی یہ بات آیت اللہ مدنی کو جاکر بتائی تو انہوں نے جواب دیا کہ اس کو جا کر کہہ دو کہ میں سب کو یہی بات کہتا ہوں، یہی جو میری ذمہ داری ہے۔

اسی رویہ کی وجہ سے ساواک نے انہیں خرم آباد سے شہر بدر کرنے کا فیصلہ کیا اور رات کو انکے گھر کے دروازے پر پہنچ کر دستک دی جب آپ نے دروازہ کھولا تو آپ کو گھر کے کپڑوں میں بغیر عبا عمامے کے تھانے لے گئے اور وہاں سے نورآباد ممسنی کے علاقے بھیج دیئے گئے۔ خرم آباد سے باہر نکل کر کسی کوگھر بھیج کر آپ کا عبا اور عمامہ منگوایا گیا۔

راستے میں آپ نے کچھ ایسا برتاؤ کیا کہ سپاہی نے آپ کی نصیحت پر سونے کی انگوٹھی اتار دی اور وضو کر کے آپ کے پیچھے باجماعت نماز ادا کی۔

 

 


oral-history.ir
 
صارفین کی تعداد: 62



http://oral-history.ir/?page=post&id=12108