گل محمد شکاری کی یادیں
2024-06-18
انقلاب کے دنوں میں، میں گاؤں کے حمام میں کام کرتا تھا۔ میں عوامی مظاہروں کی خبریں ریڈیو پرسنتا تھا۔ کبھی کبھی میں خودیا کوئی اور شخص، گاؤں سے شہر جاتے تو وہاں عوامی جلوسوں کا مشاہدہ کرتے۔ انہی ایام میں گاؤں کے ایک استاد کو شہر میں شہید کر دیا گیا اور لوگوں کی ایک بڑی تعداد ان کے جنازے میں شرکت کرنے کےلیے بجنورد پہنچی ۔ میرے چچا کا بیٹا بجنورد میں موجودانقلابیوں میں سے ایک تھا۔ مجھ سے کچھ دیر بات کرنے کے بعداس نے مجھے،امام کے اعلانات کی تقسیم میں ان کے ساتھ تعاون کرنے کا مشورہ دیا۔ وہ بجنورد میں جناب حاجی احمدیاہوئیان کے گھر سے اعلامیے لیکر مجھے علامان تک پہنچانے کے لیے دیتے تھے۔ میں ہفتے میں ایک دو بار حمام کا سامان جیسے صابن، شیمپو اور صفائی کی چیزیں خریدنے بجنورد آیا کرتا تھا۔ ہم اعلانات کوجو کہ دو یا تین صفحوں پر مشتمل ہوتے تھے، ان اشیاء میں چھپا کر منی بس کے ذریعے گاوَں لے آتے تھے ۔ رات کو ہم یہ صفحات جو امام خمینی کے پیغامات اور تقاریر پر مشتمل ہوتے تھے ، قابل اعتماد افراد کے گھروں تک پہنچا دیتے تھے اوروہ ان صفحات کو پڑھے لکھے نوجوانوں کو نقل کرنے کے لیے دے دیتے تاکہ انکی کاپیاں مزیدافراد تک پہنچ جائیں ۔
اگلی صبح علامان کے عوام اعلان پڑھنے کے لیے جمع ہوتے اور امام کا پیغام سب تک پہنچ جاتا ۔ ایک اور ذریعہ جو ہمیں اعلانات پہنچاتا تھا، کرنل مسعود وحیدی کے والدتھے ،جو مجھے اعلانات دیا کرتے تھے۔ کمپنی کمانڈر سیکنڈ لیفٹیننٹ عاشقہ ، اعلانات کی تقسیم سے پوری طرح باخبر تھا، لیکن نہ صرف وہ اس کام میں رکاوٹ نہیں ڈالتا تھا بلکہ کئی باراس نے ہمارے ساتھ تعاون بھی کیا۔ مثال کے طور پر، اس نے مجھ سے کہا: "اعلانات کو آدھی رات کے وقت گھروں میں پہچانے کے بجائے ،عوامی حمام میں لیجا کر لوگوں کے لباس میں رکھ دیا کرو"۔ اس کے برعکس تھانے کا انچارج بہت سخت تھا اور ہمیں کئی بار دھمکیاں دے چکا تھا کہ اگر تم سے اعلانات برآمد ہوئے تو میں تمہیں عدالت کے حوالے کر دوں گا۔ ایک بار اس نے میری چچا کی بیٹی کو اعلانات رکھنے کے الزام میں گرفتار کر لیا اور اس پر بری طرح تشدد کیا تاکہ یہ معلوم کر سکے کہ یہ کہاں سے حاصل کیے ہیں اور کون سےافراد اس کام میں شریک ہیں۔ میرے چچا کی بیٹی نے اپنی زبان نہیں کھولی اور انہیں کہا کہ مجھے یہ کاغذات گلی میں ملے ہیں۔ میں جب بجنورد سے اعلانات لے کر آتا، وہ مشکوک افراد کی تلاشی کے لیے پولیس اسٹیشن کے سامنے بس کو روکتے تھے۔ لیکن میں مختلف حیلے بہانوں سے ان کے ہاتھ سے بچ نکلتا۔ اعلانات کو صفائی کرنے والی اشیاء کے درمیان گھسا کرچھپاتا تاکہ پولیس والےمشکوک نہ ہوں۔ ایک بار انکو میرے سامان پر شک ہوا، لیکن ڈرائیور کمال جرات سے ان سے مخاطب ہوا اور کہا : "یہ سامان گل محمدکا نہیں ہے۔" اسی وقت میں نے خود کو بیمار ظاہر کیا اور بس سے دور جا کر زبردستی الٹی کرنے لگا تاکہ شاہ کے حکومتی اہلکاروں کا مجھ پر سے شک دور ہو جائے ۔ الحمدللہ، اعلانات بغیر کسی مشکل کے گاؤں پہنچ گئے اور تقسیم کیے گئے۔
منبع: امینی، ابوالحسن، با جوانمردان مرزبان، ابوالحسن امینی، فرهاد فروزان، به سفارش فرماندهی مرزبانی خراسان شمالی و اداره کل حفظ آثار و نشر ارزشهای دفاع مقدس خراسان شمالی، تهران، صریر، 1395، ص 37 - 39.
22bahman.ir
صارفین کی تعداد: 470
http://oral-history.ir/?page=post&id=11951