مایوس عوام کی اربعین کے جلوس میں شرکت

ترجمہ: محب رضا

2024-06-13


محرم اور عاشورہ کے دنوں میں حکومت کو جو دھچکا لگا تھا اس کی بنا پر، مزید براں  لویزان میں شاہی گارڈز میں موجودانقلابی افراد کے انتہائی جراتمندانہ اقدام کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا تھا کہ اربعین کے دن، حکمران  انتظامیہ خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔محترم بزرگان کی تحلیل بھی یہی تھی کہ ممکن ہے اس دن حکومت انتقام لینے کی کوشش کرے۔

اسی مناسبت سے،آیت اللہ طالقانی کے گھر میں ہونے والی خصوصی ملاقات میں تمام پہلوؤں پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ کیونکہ موضوع  بحث یہ تھا کہ کیا اربعین کے جلوس  میں بھی  نو، دس محرم کی طرح  عمل کیا جائےیا پھرلڑائی کے  سازوسامان اور اس طرح کے مزید امکانات کے ساتھ نکلا جائے ؟

آیت اللہ ڈاکٹر بہشتی کی رائے  یہ تھی کہ ہمیں لیس ہونا چاہیے اور اکٹھے رہنا چاہیے تاکہ ضرورت پڑنے پر ہم ایک متحدہ محاذ بنا سکیں۔ ان کا عقیدہ یہ تھا کہ اگر حکومت کی افواج  عوام پر بندوق اٹھاتی ہے  تو ہمیں بھی اسلحہ اٹھانا چاہیے۔

اس مقصد کے لیے ہم نے ایک گروہ بنایا اور کچھ افرادکو اس گروپ میں بھرتی کیا۔ ہم نے انہیں دو آپریشنل ٹیموں کی شکل میں  تربیت دی۔ قرار یہ تھا کہ ہم نے مظاہروں میں مسلح ہو کر شرکت کرنی ہے اور اگر ضرورت پڑے تو حکم کے مطابق عمل کرنا ہے۔

 ہم مزید اسلحہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ یہ ہتھیار اس رقم سے لیےگئے تھے جو امام نے ہمیں پیرس سے بھیجی تھی۔یہ رقم ترکی کے ذریعے ہم تک پہنچی اور اس میں ڈاکٹر یزدی نے کردار ادا کیا تھا۔

اس جلوس کی خطرناک نوعیت کے باعث، چند دیگر مسلح گروہ بھی بن گئےتاکہ ضرورت پڑنے پر اپنے فرائض انجام دے سکیں ۔

اربعین کی آمد سے قبل رے شہر کے ساتھیوں نے بدر نامی گروپ بنایا۔ ان کے پاس کوئی ہتھیار نہیں تھا۔ اباذرگروپ نے بھی اپنے وجود کا اعلان کیا، اس گروپ نے زیادہ تر نظریاتی کام  انجام دیا۔

مجاہدین خلق نامی تنظیم نے یوم اربعین کے جلوس میں شرکت کی لیکن اس بار وہ ہمیشہ آگے چلنے کے برخلاف جلوس کے پیچھے چل رہے تھے۔ یہ ہمیشہ موقع کی تلاش میں رہتے تھے کہ بہتی گنگا میں ہاتھ دھو لیں۔ جہاں تک مجھے یاد ہے، وہ ہمیشہ ایسے ہی تھے اور اپنے آپ کو خطرے میں نہیں ڈالتے تھے اورایسے خطرناک مواقع پر کنی کترا کر نکل جاتے تھے ۔البتہ فائدہ اٹھانے کے مواقع پر تازہ دم میدان میں موجود ہوتے تھے ۔

مجھے ٹھیک  طرح سے یاد ہے کہ جلوس والے دن وہ سب سے پیچھے تھے  (ان کے جھنڈے ، جلوس میں ان کی جگہ دکھا رہے تھے ) جیسے ہی انہیں محسوس ہوا کہ جلوس  میں خطرہ کا امکان ہے تو انہوں نے خطرے کے مرکز سے دور رہنے کو ترجیح دی۔ جبکہ اس سے قبل ، جب خطرے کا کوئی امکان نہیں ہوتا تھا تو وہ سب سے آگے ہوتے تھے تاکہ منبر انکے قبضے میں رہے۔

ہم دوستوں کے ساتھ امام حسین علیہ السلام چوک میں جمع ہوئے۔ محمد بروجردی، شکوری، حسین صادقی، مسعود صفری، علی تحیری اور علی نخلی اس مسلح گروہ میں شامل تھے، جس کوجلوس میں شرکت کرنا تھی۔

ہم میں سے ہر ایک کے پاس ایک ریوالوراور  دو دستی بم تھے جو ہم نے اپنے پیٹ پر باندھے ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ میں نے دو مشین گنیں گاڑی کی ڈگی میں رکھی ہوئی تھیں تاکہ ضرورت پڑنے پرانہیں استعمال کیا جا سکے۔ میں اچھی مقدار میں ٹی این ٹی)دھماکہ خیز مواد(اورمٹھی بھر مصالحہ بھی لایا ہواتھا۔

میرا اور میرے دوستوں کا تجزیہ یہ تھا کہ اگر حکومت عوام پر حملہ کرنا چاہے تو وہ ایساامام حسین علیہ السلام چوک سے کرے گی۔ اسی لیے ہم وہاں جمع ہوئے تھے۔ دوسری طرف یہ احتمال بھی تھا کہ حکومتی اہلکارلوگوں کو تہران نو کی جانب محاصرے میں لے کرانکا باقی جمیعت سے رابطہ منقطع کردیں  اور پھر حملہ کریں۔ اسی تجزیے کی بنیاد پر ہم نے اپنے افراد کو دو گروہوں میں تقسیم کردیا۔ یوم اربعین  کے جلوس میں تمام گروہوں کی جانب سے افراد شرکت کرتے تھے۔البتہ جو افراداس جلوس میں شامل تھے، میری نظر میں وہ عجیب تھا۔

سادہ لباس میں موجود کچھ فوجی ، کچھ تاجروں کی موجودگی ،جنہوں نے کل تک کوئی رابطہ نہیں کیا تھا، بہت سے خاندانوں، دوستوں اور جاننے والوں کی موجودگی جو ہمیشہ مایوسی کی باتیں کرتے تھے ، یہ سب اس حقیقت کی نشاندہی کر رہے تھے کہ حکومت کی ایرانی عوام کے درمیان اب کوئی جگہ نہیں بچی ہے۔

منبع: خاطرات اکبر براتی،‌ تهران، حوزه‌ هنری،‌ دفتر ادبیات انقلاب اسلامی،‌1375،‌ ص 109 – 110.

 

 


22bahman.ir
 
صارفین کی تعداد: 352



http://oral-history.ir/?page=post&id=11943