آیت اللہ سید احمد علم الہدیٰ کی یادداشت

سڑک پر نماز جماعت

ترجمہ: یوشع ظفر حیاتی

2024-06-08


امام خمینی رح نے دستور دیا کہ عوام چار بج کر تیس منٹ پر سڑکوں پر نکل آئیں اور عوام سڑکوں پر نکل آئی اور ہم نے مغرب کی نماز سڑک پر ادا کی۔ شبھاز اسٹریٹ پر ہم نماز پڑھنے کھڑے ہوئے۔ خیابان شہباز عورتوں اور مردوں سے بھری ہوئی تھی۔ ابھی تک انقلاب کی کامیابی کا اعلان نہیں ہوا تھا۔ پولیس والوں کی بڑی تعداد مظاہرین کو گرفتار کرنے کے لئے پہنچی ہوئی تھی۔ ہمارے محلے کے کچھ نوجوانوں نے ان پر حملہ کردیا تھا جس کے بعد وہ ان کا پیچھا کرتے کرتے نماز کی جگہ تک پہنچ گئے تھے۔ انہوں نے نمازیوں پر فائرنگ شروع کردی لیکن خوش قسمتی سے صرف ایک شخص کو گولی لگی اور کسی کو بھی نقصان نہیں پہنچا۔

اس پوری مدت میں ہمارے گھر پر بھی چند مرتبہ چھاپے مار چکے تھے، لیکن ہمارے گھر کا دروازہ چونکہ مظبوط لوہے کا بنا ہوا تھا تو انہوں نے جتنا بھی بندوقوں اور لاتوں کا استعمال کیا دروازہ نہیں کھلا۔ خلاصہ یہ کہ وہ ہمیں ڈھونڈ نہیں پائے۔ جب شاہ پور بختیار حکومت میں آیا تو صورتحال مکمل طور پر تبدیل ہوچکی تھی اور اس نے کرنل صدری کی جگہ کسی اور کو مامور کردیا، لہذا ہم بھی واپس آگئے۔ بہرحال جب امام خمینی رح تشریف لائے تو پورے ایران میں جدوجہد کا آغاز ہوگیا اور اب چاہے کسی بھی جگہ سرگرمیاں ہوں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا اسی لئے ہماری مسجد میں بھی دیگر جگہوں کی طرح عوام سرگرمیوں میں مشغول تھی۔

گیارہ فروری کو جب امام خمینی رح نے یہ دستور دیا کہ عوام سڑکوں پر نکلے تو عوام سڑکوں پر نکل آئی اور سرگرمیاں شروع ہوگئیں۔ ہم نے مغرب کی نماز سڑک پر ہی ادا کی۔ خیابان شہباز میں ہم نماز کے لئے کھڑے ہوئے، پوری خیابان عورتوں اور مردوں سے بھری ہوئی تھی۔ البتہ ابھی تک انقلاب کی کامیابی کا اعلان نہیں ہوا تھا۔ پولیس والے بعض افراد کو گرفتار کرنے آئے تھے۔ جن پر ہمارے محلے کے بعض نوجواں نے حملہ کردیا تھا اور اس جھڑپ میں پولیس والے نوجوانوں کا تعقب کرتے ہوئے نماز کی جگہ تک پہنچ گئے تھے جہاں پر انہوں نے فائرنگ کردی۔ خوش قسمتی سے صرف ایک شخص کو گولی لگی اور کسی اور کو نقصان نہیں پہنچا۔ کلی طور پر ان مظاہروں میں بس دو افراد شہید ہوئے تھے۔

انقلاب کی کامیابی کے بعد ہماری مسجد میں کمیٹی بنائی گئی، البتہ ہم نے اس کمیٹی کے کاموں کا محور ثقافتی سرگرمیوں کا بنایا۔ چونکہ ہم نے دیکھا کہ سب ہی انقلابی کمیٹیوں اور اسلحے وغیرہ کی فراہمی جیسے کاموں میں مشغول ہیں اور اس کام کے لئے عسکری ادارے بھی سرگرمیاں انجام دے رہے ہیں تو ہم نے ثقافتی سرگرمیوں کا انتخاب کیا۔ اس دوران منافقین کی جانب سے بھی انقلاب کے ابتدائی ایام میں مشکوک سرگرمیاں انجام دی جاتی رہیں۔

لرزادہ مسجد کے نوجوان بھی مسلسل ہماری مخالفت کرتے رہتے تھے۔ انہوں نے ہماری مسجد کے چاروں طرف مجاہدین خلق کے مونوگرام چھاپ دیئے تھے اور لرزادہ لائبریری کا نام بدل کر قومی مجاہدین تحریک میں رکنیت اختیار کرنے کا دفتر رکھ دیا گیا تھا۔ عمید صاحب کو بھی اب اندازہ ہوتا جارہا تھا کہ یہ لوگ ابتدا ہی سے مخلص نہیں تھے۔ آہستہ آہستہ انکی سرگرمیوں میں شدت آتی گئی اور تین چار مہینوں کے بعد انہوں نے اعلان کیا کہ مسجد لرزادہ مجاہدین خلق آرگنائزیشن کے زیر استعمال ہے اور انقلابی جوان یہاں سے باہر نکل جائیں۔ خلاصۃ یہ کہ انقلابی کمیٹیوں کے جوان کی ان سے جھڑپ ہوئی اور انہوں نے عمید صاحب پر حملہ کردیا اور فائرنگ کردی، ان کو مسجد سے نکال باہر کیا۔ اس جھڑپ میں ان کے دو کارکن ایک خفیہ گھر میں مارے گئے، ایک دو کو پھانسی ہوگئی اور باقی فرانس بھاگ گئے۔ ان میں سے بس ایک شخص میں تھوڑی تبدیلی آئی جو اب ایک نیوٹرل ذہنیت کے ساتھ زندگی گذار رہا ہے اور اسے کسی چیز سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ وہ ایک تاجر ہے اور ان مسائل میں نہیں پڑتا۔ البتہ انتہائی متدین انسان ہے۔ اس جھڑپ میں اس نے اپنے بیٹے کی حمایت کی تھی اور اسی کے اصرار اور درخواست پر بس یہی ایک شخص باقی بچا۔ البتہ وہ کبھی بھی جنگ پر بھی نہیں گیا۔

(منبع: خاطرات سید احمد علم الهدی، تدوین: دکتر محسن الویری، تهران: مرکز اسناد انقلاب اسلامی، 1387، صص167-166. )


oral-history.ir
 
صارفین کی تعداد: 277



http://oral-history.ir/?page=post&id=11931