جب یادداشت چلی گئی

ترجمہ: محب رضا

2024-06-07


 میں مجموعی طور پر تقریباً چھ سال جیل میں رہی ،البتہ  دو  مرتبہ گرفتاریوں کے نتیجے میں ۔ پہلی بار ، چند سال بعد ایک فوجی نے میرے فرار  میں مدد کی، میں نہیں جانتی کیوں! شاید وہ اسلامی تنظیموں کے خفیہ افراد میں سے ایک تھا۔ وہ میرے  ہاتھ کے علاج کے لیےمجھے ہسپتال لے گئے، جو ایک افسر کی سنگدلی کی وجہ سے ٹوٹ گیا تھا۔ ہسپتال میں، عملے کےایک  کارکن کی مدد سے، میں  فریج  کے کارٹن کے اندر چھپ گئی اوروہ مجھے  ہسپتال سے باہر  نکال لے گئے۔

میں دونوں  گرفتاریوں کے درمیان تقریباً  تنہا رہی۔ میں نے چند جگہوں پر مزدوری کی تاکہ گزارہ ہو سکے،دکانوں پر کام کرنے سے لیکر قالین صاف کرنے تک۔ میرے اندر ہمت نہیں تھی کہ اپنے شہر لوٹ سکوں ، ساواک کے  ڈر سے بھی ،جنہو ں نے بلاشبہ میرے خاندان کو زیر نظر  رکھا ہوا تھا  اور یادداشت کےکھو جانے کی وجہ سے بھی ، میرا خیال تھا کہ میں انہیں ڈھونڈ نکالنے کے قابل نہیں ہوں ۔

گروپ  سے دوبارہ رابطہ  قائم ہو گیا تھا۔ کچھ عرصے بعد ، ایک دن جب میں نے انقلاب چوک پر کسی کو پیغام  پہچاناتھا تو مجھے دوبارہ گرفتار کر لیا گیا۔ اس بار میں سیکھ چکی تھی کہ ساواک کے ایجنٹوں سے  کیسے نمٹنا ہے ۔ میں نے  نشئی ہونے  کا بہروپ بھرا اور ایک عادی نشئی کی طرح ہرسوال کا  ادھر ادھرسےجواب   دینے لگی۔ بدقسمتی سے ایک افسرکو، جیل کے پچھلے دورانیہ  میں مجھے دیکھے ہوئے ہونے کی وجہ سے ، مجھ پر شک ہوا ،انہوں نے میرے انگلیوں کے نشانات لیے  اور مجھے دوسری بار سیاسی قیدی کے طور پرتفتیشی  سنٹر کی پچھلی جانب جیل منتقل کر دیا ۔

اس بارشکنجوں میں اضافہ ہوگیا تھا، خاص طور پر ذہنی اذیت کے شکنجوں میں ۔ انہوں نے مجھے ،اپنے سر اور چہرے کے ساتھ ان چیزوں کو تلاش کرنے پر مجبور کیا جن کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ وہ بیت الخلا  کے گٹر میں موجود ہیں، اور پھر مجھے اجازت نہیں دی کہ اپنا سر اور چہرہ دھوسکوں ۔مجھے اس حالت میں اتنی  دیر رہنا پڑا کہ کثافت میرے جسم پر خشک ہو گئی۔ انہوں نے میرے اوپروحشی کتوں کو چھوڑا،اور مجھے ذہنی اذیت دینے کے لیے غلط قسم کی  عورتوں کے سیل میں ڈال دیا۔

خوش قسمتی سے دہشت کے  یہ دن اور راتیں، باہر سنائی دینے والی انقلاب کی آوازوں کے ساتھ ختم ہو گئے۔

 مجھے 1977  کے آخر میں کئی دوسرے لوگوں کے ساتھ رہا کر دیا گیا۔ تھوڑے عرصے کے لیے میں موجودہ امام خمینی اسپتال کے نفسیاتی امراض  کے وارڈ میں داخل رہی۔ مجھے ٹھیک سے یاد نہیں کہ مجھے سیاسی قیدیوں کے تحفظ کی کمیٹی نے کب تحفظ دیا، لیکن اس بار میری حالت ،دونوں جیلوں کے درمیانی فاصلے  کے دوران کی  حالت سے بہتر تھی۔

انقلاب کی کامیابی کے فوراً بعد میں نے مسجد امیر المومنین (ع) میں کام شروع کیا۔ اب، اپنے  اور اپنے خاندان کے بارے میں میری یادداشت مکمل طور پرمحو ہو چکی تھی ۔ جب جنگ شروع ہوئی تو میں نے بسیج  میں شامل ہو کرمحاذ پر امدادا ور سامان کی فراہمی شروع کر دی ، یہاں تک کہ ایک دن جنگی علاقےسے واپسی  پر معجزانہ طور پرمیری یادداشت بحال  ہو گئی ۔ یہ ایام محرم و  عاشوراتھے۔ میں نے آذربائیجانی  ماتمی انجمن  جا کر منت مانی کہ میں اپنے خاندان کو تلاش کر سکوں۔ اسی دوران میں نے زندان میں دیکھے خواب  سے ملتا جلتا ایک خواب دیکھا جس میں امام خمینی نے مجھے پھر ایک امانت دی۔

ہم مسجد میں تھے جب ریڈیو نے اعلان کیا کہ عراقی طیاروں نے مسجد سلیمان پر بمباری کی ہے اور... مجھے ایک دم سب کچھ یاد آگیا۔ یہ 1362  کا ذکر ہے  جب میں  نےبارہ سال کی جدائی کے بعد اپنے خاندان کو دوبارہ ڈھونڈ نکالا، سب کچھ بدل چکا تھا۔ چھوٹے بچے بڑے ہو چکے تھے اور میرا بڑا بھائی محاذپر شہید ہو گیا تھا،  میرے دوسرے بھائی کوجنگی زخمی ہونے کا اعزاز حاصل ہوا تھا۔ میرے والد کو میری سرگرمیوں کی وجہ سے گچساران جلاوطن کر دیا گیا تھا اور اسی وجہ سے میں نے اپنے خاندان کو اس شہر میں پایا۔

میرے والد نے بتایا کہ میری گرفتاری اور انکے مسلسل  میرے بارےپوچھتے رہنے کے بعد،آخر کار جیل والوں نے انہیں جیل سے کپڑوں کا ایک پیکٹ بھجوایاور پیغام دیا: تمہاری بیٹی  چند رات پہلے فرار ہوتے ہوئے قتل  ہو گئی ... اور میری ماں اس غم  میں  اس دنیا سے چلی  گئی۔

منبع: ابتهاج شیرازی، فریبا، از حماسه برترید، تهران، دبیرخانه کنگره بررسی نقش زنان در دفاع و امنیت، 1376، ص 25 - 26.

 

 


22bahman.ir
 
صارفین کی تعداد: 100



http://oral-history.ir/?page=post&id=11928