ماموستا 23
مصنف: علی رستمی
ترجمہ: افشین زہرا
ویرائش: یوشع ظفر حیاتی
2024-05-24
عنب گاؤں ، تو یلہ گاؤں کے ایک سوم کے برابر تھا اور اسمیں تقریباً اسی ۸۰ خاندان رہتے تھے یہ گاؤں حلبچہ کے ساتھ ہی واقع تھا ۔ اعتقادی اعتبار سے دیکھیں تو یہاں کے لوگ صوم و صلوات کے پابند تھے اور ان کا احکام اسلامی کی رعایت کرنا اور نماز و روزے اور دیگر عبادتوں کو پابندی سے بجالانا ہمارے گاؤں کے مقابلے میں کافی اچھا اور بہتر تھا یہ لوگ اور امانات ایران کے لوگوں سے کہیں زیادہ مہذب اور اچھے تھے ان کے اخلاق اور اچھے کردار کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ ہم طلباء جسطرحدشہ گاؤں میں اپنے کھانے پینے اور دیگر اخراجات کیلئے لوگوں کے دروازوں پر ان کے گھروں پر جاتے تھے تاکہ چندہ جمع کر سکیں یہاں نو بت ہی نہ آتی تھی ، مالی حساب سے بھی آسودہ تھے اور ہمارے اخراجات اور کھانے پینے اور دیگر ضروریات کیلئے خود ہی یہ لوگ اپنی زکات خیرات، صدقات حتی تحائف و نذورات بھی خود ہی آکر دے جاتے تھے ۔ لہذا کسی طالب علم کو ضرورت ہی نہ پڑتی تھی کہ وہ کسی کے دروازے پر جائے اور تقاضہ کرے اس طرح ایک طرف تو وہ اپنے اللہ کے حکم کے مطابق عمل کرتے ہوئے اپنے زکات صدقات نکال دیتے تھے تو دوسری طرف ہم شاگردوں اور طالب علموں کی عزت نفس کو بھی مجروح ہونے سے بچا لیتے تھے اور ہم کسی کے دروازے پر جاکر اس سے مانگنے سے بچ جاتے تھے اور اسطرح ہم یکسوئی کے ساتھ اپنی ساری توجہ پڑھائی پر مرکوز رکھتے اور پچھلے علاقوں اور سالوں کی اس کوفت سے بچ جاتے جو ایک پہاڑ سے دوسرے پہاڑ، ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں جاتے ہوئے اٹھانی پڑتی تھی اور اس دوران ہماری تعلیم بھی متاثر ہوتی تھی۔
ابھی مجھے عنب گاؤں میں آئے ہوئے چھ ماہ کا عرصہ ہی ہوا تھا کہ مولانا محمود صاحب میرے استاد بن گئے اور میں نے پھر ان کے درس میں بیٹھنا شروع کر دیا۔ مولانا محمود صاحب ایک نیک متدین شفیق اور نرم مزاج انسان تھے بس نماز جمعہ اور نما ز جماعت نہیں کرواتے تھے وہ بھی اسوجہ سے کہ وہ اخوان المسلمین (۱) کا جز تھے ان کیلئے مسلسل مختلف کتابیں ، چھوٹے رسالے، بغداد اور دوسرے شہروں سے آتے رہتے تھے وہ ہمیں بھی نصیحت کرتے تھے کہ ہم ان کتابوں اور رسالوں کو پڑھیں اور ہمیں تشویق دلاتے تھے کہ ہم بھی اخوان المسلمین کے رکن بن جائیں اور ممبر شپ حاصل کر لیں۔ مگر ہمیں ان کی اس رائے اور تجویز سے کوئی لگاؤ نہ تھا اور ہم اس تجویز پر کان نہ دھرتے تھے اور یہی کہتے تھے " ہم یہاں صرف تحصیل علم کیلئے آئے ہیں اور کسی بھی سیاسی و غیر سیاسی گروہ یا تنظیم کی رکنیت لینے کا کوئی شوق نہیں ہے۔"
مگر یہ بات بھی سچ ہے کہ ان رسالوں اور کتابوں کے پڑھنے کی وجہ سے ہمیں مسلمان ممالک کے حالات ان کی تحریکوں بالخصوص غاصب اسرائیل کی چالوں کا اندازہ ہوتا تھا اور ہمارا ذہن کھلتا تھا اور یہی کتابیں اوران رسالوں کا مواد باعث بنا کہ ہمیں دنیائے اسلام کی بہت سی شخصیات کے بارے میں جاننے کا موقع ملا اور ان کے افکار اور جہادی شخصیت سے ہم آشنا ہو سکے۔
ہمارے مولانا محمود صاحب کی ایک خاص عادت تھی وہ یہ کہ وہ درس شروع کرنے کے پانچ منٹ کے بعد ہی، سو جاتے تھے اور ہم جو پہلے ہی سے اس وقت کے منتظر اور آمادہ ہوتے ایک تکیہ ان کے سر کے نیچے رکھ دیتے تھے اور وہ کلاس کا کمرہ جو ان کے سونے کے کمرے میں تبدیل ہو چکا ہوتا ہے خاموشی سے وہاں سے دور ہو جاتے تھے ۔ پندرہ بیس منٹ کے بعد مولانا صاحب نیند سے بیدار ہو جاتے تھے اور با آواز بلند " سبحان اللہ" کہہ کر درس کو دوبارہ وہیں سے شروع کر دیتے تھے ان کی ہمیشہ سے عادت تھی اور ہمیشہ ہی رہی
۱۹۶۸ کے موسم گرما کی بات ہے کہ ایک روز افواہ پھیل گئی کہ ایک رات قبل حلبچہ کمیونسٹ پارٹی کے کچھ لوگ جو "شیوعی" کے نام سے مشہور تھے مخفی طور پرعنب گاؤں آ گئے تھے اور فلاں [۔۔۔۔] شخص کے گھر میں بیٹھ کر ایک سیاسی مخفی میٹنگ کر کے گئے ہیں جس میں انہوں نے کئی اہم موضوعات ہرخصوصی فیصلے کئے ہیں اور یہ میٹنگ مکمل طور پر راز میں رکھی گئی ہے۔
یہ خبر پورے گاوں میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی سب ہی ناراض اور غصے میں تھے اخوان المسلمین گروپ جس میں جناب مولا محمود صاحب سر فہرست تھے جو ڈیمو کریٹک پارٹی اور ملڑی کے حامی اور کمیونسٹ پارٹی کے اصل رقیب تھےملا محمود صاحب اس غیر مذہبی نشست کے مسجد کے ساتھ ہی منعقد ہونے اور بلانے والوں اور تشکیل دینے والوں سے سخت ناراض تھے اور شدید برہم ہو رہتے تھے ۔
ہمارے درس کا وقت تھا، ہم نے اپنے درس کے وقت مولانا محمود صاحب سے سوال کر دیا کہ استاد صاحب، محترم جناب[....] صاحب جنہوں نے کمیونسٹ پارٹی کے لوگوں کو اپنے گھر بلایا اور اپنے گھران کی میٹنگ تشکیل دی ظاہراًایک مذہبی انسان ہیں جو نماز جمعہ اور نماز جماعت سے خاص شغف رکھتے ہیں اور دینی کاموں میں اس طرح پیش پیش ہوتے ہیں کہ اگر ان کے مالی حالاتاجازت دیتے تو وہ ایک مولانا کی پوری زندگی کا خرچہ اٹھانے پر راضی تھے۔
صارفین کی تعداد: 413
http://oral-history.ir/?page=post&id=11904