ماموستا 22
مصنف: علی رستمی
ترجمہ: افشین زہرا
ویرائش: یوشع ظفر حیاتی
2024-05-24
جسم عنب میں روح و دل وطن میں !
صبح ہوتے ہی میں برادر نادر کے ساتھ عنب گاؤں کی جانب روانہ ہو گیا ، درہ شیش سے عنب تک کا فاصلہ تقریبا پندرہ منٹ کا تھا ، نادر مجھے پہلے اپنے ایک رشتے دار کے گھر لے کر گیا کیونکہ وہ چاہتا تھا سفارش بھی بڑی ہو اور اس کام کے ہونے کا یقین بھی سو فیصد ہو جائے ، ان صاحب کا نام بھی نادر تھا اور وہ حاج نادر عنبی کے نام سے مشہور تھے ، انہوں نے ہماری خاطر مدارات کی اور جب ہم چائے پی چکے تو حاج نادر نے اپنے بیٹے برادر توفیق کو ہمارے ساتھ کردیا اور ان کو کہا کہ ہمیں وہ مولانا محمود صاحب کے گھر لے جائیں اسطرح ہم تینوں ملا محمود صاحب کے گھر پہنچےبرادر نادر نے سلام دعا کے بعد مولانا صاحب سے میرا تعارف کروایا اور جو کچھ ان کے والد درویش محمد سعید نے ان کو کہنے کی تاکید کی تھی سب کا سب بیان کردیا مولانا محمود صاحب نے اس تعارف کے بعد مجھ سے میری ہجرت کا سبب دریافت کیا اور میرے دروس اور مضامین کے بارے میں مجھ سے سوالات کئے میں نے بھی ان کو شروع سے سب بتایا کہ کس طرح میں نے اپنے ابتدائی مضامین کو دشہ گاؤں کے مدرسے میں پڑھا اور یہاں تک کیسے پہنچا اس کے ساتھ ہی اپنی خواہش کا بھی اظہار کر دیا کہ اب چاہتا ہوں کہ آپ مجھے اپنے شاگرد کے طور پر قبول کر لیں اور تحصیل علم میں میری مدد کریں ۔ انہوں نے جواب دیا : مبارک ہے (یعنی بہت اچھا ہے یہ کام) مگر میں بذات خود تم کو درس نہیں دے پاؤں گا میں تمہارے مضامین کو پڑھانے کی ذمہ داری ایک سینئر طالب علم کو دے دوں گا اور اسکو یہ نصیحت بھی کر دوں گا کہ تمہارا ہر طرح سے خیال رکھے اور تمہیں کوئی شکایت نہ ہو اس سے"۔
مولانا محمود صاحب کے چند شاگرد اس گاؤں سے باہر کے بھی تھے اور کچھ ان سے پڑھنے کے بعد دوسرے گاؤں میں مقیم تھے۔ مولانا صاحب خود سارے شاگردوں کو درس دینے سے قاصر تھے لہذا وہ اپنے بہت سے شاگردوں کو اپنے قابل سینئر شاگردوں کے حوالے کر دیتے تھے تاکہ تحصیل علم کی شمعیں جلتی رہیں اور ایک دیے سے دوسرا دیہ روشن ہوتا رہے ان کے فارغ التحصیل شاگردوں میں سے ایک ملا معروف گلالی کے نام سے مشہور تھے جوپاوہ شہر کے مضافات میں مقیم تھے جبکہ ایک شاگرد بندی خان کے رہا یشی "ملا احمد صاحب تھے" مولانا محمود صاحب نے میری تعلیم کی ذمہ داری ملا احمد صاحب کو سونپی تھی اور ان کے ذمہ تھا کہ وہ مجھے روزانہ درس دیں گے"
عراق میں کردستان کا چپہ چپہ شاگردوں سے بھرا ہوا تھا جسمیں کچھ ابتدائی تعلیمی دور میں تھے جبکہ کچھ آخری منازل پر اور کچھ اب خود استاد بن چکے تھے ان میں ایرانی اور عراقی دونوں طرح کے شاگرد شامل تھے ۔ اس حالت نے میرا کام کافی آسان کر دیا تھا ۔ ایرانی شاگردوں اور طالب علموں میں سے زیادہ ترکی عمر بیس ۲۰ سال سے زیادہ تھی اور یہ سب کے سب وہی تھے جو فوجی تربیت اور فوج میں بھرتی ہونے سے فرار حاصل کر کے یہاں آئے تھے ان کے درمیان ایسے بھی طالب علم تھے جو کردستان کی سیاسی تنظیموں سے مربوط تھے اور ان کا عراق کی سیاسی تنظیموں سے رابطہ باعث بنا تھا کہ وہ ایران واپس نہیں لوٹ سکتے تھے اور ان کے لئے دوبارہ ایران جانا ممکن نہ تھا۔
یہ افراد مختلف تقریبات میں شہنشاہی نظام کے خلاف تقریریں کرتے تھے اور علی الاعلان اور اس نظام کی مخالفت کرتے تھے ۔
مختصراً یہ کہ میں نے عنب گاؤں میں وہاں کے مایہ ناز شاگردوں ملا احمد عراقی صاحب اور ملا معروف گلالی سے درس لینا شروع کر دیا اور علم نحو کی کتاب شرح النموذج (۱) کو پڑھنا شروع کیا اسکے اسباق میں سے کلمہ و کلام سے لے کرسبق" باب فعل" تک عنب گاؤں میں پڑھا، عنب کے زیادہ تر رہائشی افراد اورامانات ایران سے تعلق رکھتے تھے اور شاہ پہلوی کا ظلم و ستم باعث بنا تھا کہ یہ ایرانی اپنا ملک اور آبائی گاؤں کو چھوڑ کر بلکہ وہاں سے فرار کرکے یہاں عراق آن بسے تھے ، اہلِ عنب " جافی " (۲) زبان بولتے تھے اور میں بھی اسی لہجے کو بولتے اور سننے کا عادی تھا، لہذا آہستہ آہستہ میں ان لوگوں میں گھل مل گیا حتٰی بارزانی کی کردی ملٹری فورس کے افسر کہ جس کا گاؤں میں کافی اثر و رسوخ تھا ، جب اس کو معلوم ہوا کہ میں ایران سے آیا ہو تو اس نے مجھے بلوایا اور بہت محبت اور احترام سے مجھ سے ملا اسکی یہ محبت صرف اسوجہ سے تھی کہ میں اسکا ہم قبیلہ تھا ورنہ میرا اس سے دور دور تک کوئی واسطہ نہ تھا اسکا نام قادر بیگ تھا اور وہ باینگان کے ایک قبیلے اناقی سے تعلق رکھتا تھا بس ہمارے درمیان کا یہی تعلق کہ وہ بھی ایرانی اور میں بھی اور وہ بھی پاوہ کےمضافات کا رہائشی اور میں بھی ، باعث بنا کہ ہمارے درمیان ایک خاص محبت قائم ہو گئی۔ بقول با با مردوخ روحانی (۳) ایرانی شاعر کے کہ: وطن سے عشق فطری امر ہے ۔ جو انہوں نے اپنی کتاب مشاہیر کے مقدمے میں بیان کیا
وه اشعار درج ذیل ہیں۔
وہ دن کہ جب امر حق سے جہان بنایا گیا
اور آدم کو خلق کیا گیا اور آدمی زاد بنائے گئے
وطن ، قوم و قبیلے کی محبت اور عشق
انسان کی فطرت میں ڈالے گئے
یہاں یہ بات بہت اہم ہے کہ ایرانی مضبوط اور قوی تھے اور ایک دوسرے کے حامی و مدد گار بھی تھے اسکا واضح ثبوت قادر بیگ صاحب تھے جو اپنی مصروفیات اور عہدے کے باوجود بھی وقتا فوقتا اپنے گھر مجھے بلاتے ان کا عمل، اور یہ اپنائیت باعث بنی کہ وہاں رہتے ہوئے کبھی بھی مجھے غریب الوطنی اور اپنے گھر اور گھر والوں سے دوری کا احساس نہ ہوا لوگوں کی زبانی مجھے اپنے گاؤں کے حالات معلوم چلتے رہے۔ حتی کہ مجھے میری والدہ اور بعض رشتے داروں کے حال احوال اور خبریں بھی مل جاتی تھیں اور ساتھ ساتھ ایران اس کے سیاسی حالات اور واقعات کا بھی علم ہوتا رہتا تھا ۔ کبھی ایسا بھی ہوتا کہ سرحد کے اس طرف سے کچھ لوگ ہم سے ملنے بھی آجاتے ۔ جیسے میری بہن کا بیٹا (بھانجا) جسکا نام سہراب ولد بیگی تھا ایک دن مجھ سے ملنے آگیا اور پھر چند دن ہمارا مہمان رہا اور واپس چلا گیا ۔
ایرانی اور عراقی آپس میں چیزوں اور مصنوعات کے تبادلے کا حق نہیں رکھتے تھے اور ان کو اجازت نہ تھی کہ اس سرحد سے اس طرف کوئی چیز لے جا سکیں، اسی وجہ سے وہ افراد جو ایران سے ہماری طرف آتے تھے جب یہاں سے لوٹنے لگتے تو یہاں کی چائے، صابن اور دوسری سوغات کے ذریعے ہی اس سفر کی تلخی کو دور کرتے اور انہی سوغاتوں کو لے جانے پر اکتفا کرتے تھے۔
صارفین کی تعداد: 450
http://oral-history.ir/?page=post&id=11903