ماموستا 21
مصنف: علی رستمی
ترجمہ: افشین زہرا
ویرائش: یوشع ظفر حیاتی
2024-05-24
میں نے مسجد اور تو یلہ مدرسے کے اس حجرے کو اپنے پھوپھی زاد بھائی کے گھر جانے کے ارادے سے ترک کر دیا، میرے پھوپھی زاد "حاجی کا مل"تھے جن کو اپنی پوری زندگی میں کبھی بھی نہ دیکھا تھا اور صرف اپنی والدہ اور اپنے بھائی کے منہ سے ان کا نام اور ان کی تعریفیں سنیں تھیں اور انہی کی بدولت ان کے بارے میں جو کچھ جانتا تھا وہ یہ تھا کہ ان کا نام حاجی کا مل ہے اور تویلہ میں وہ سیگار اور سگریٹ بیچتے ہیں، انہی معلومات کو بنیاد بنا کر میں نے آس پاس ان کا پتہ معلوم کرنے کی کو شش کی اور بالاخر پوچھتے پوچھتے ان کی دکان تک پہنچ گیا وہ وہاں موجود تھے میں نے ان کو دیکھتے ہی اپنا مکمل تعارف ان سے کروایا ، جب انہیں معلوم چلا کہ میں کون ہوں، تو انہوں نے خوش دلی سے مجھے بٹھایا اور کہنے لگے " جب تم چھوٹے تھے تو میں ایک دفعہ تمہارے گھر آیا تھا ۔"
وہ مجھے دیکھ کر بہت خوش تھے اور اس سے زیادہ وہ اس لئے خوش تھے کہ میں تحصیل علم کیلئے اپنے گاؤں کو چھوڑ کر یہاں آیا ہوں ۔ میرے علم سے اس لگن کے باعث انہوں نے میری خوب پذیرائی کی اوراپنی دکان پر بھی انہوں نے میری خوب آؤ بھگت کیاور بڑے تکلفات کے ساتھ میری دعوت کی، ان کے بے حد تکلفات مجھے تکلیف دے رہے تھے ۔
وہ چاہتے تھے کہ میں ان کے گھر چلوں مگر میں نے ان تکلفات کو دیکھتے ہوئے ان سے کہا اس وقت تو میں جلدی میں ہوں مگر فرصت ملتے ہی ضرور آپ کے گھر آؤں گا ۔ ان سے میں نے ہ حلبچہ(۲) کا ایسا راستہ معلوم کرنے کی کوشش کی جو نزدیک ترین اور چھوٹا ہو۔ وہ پڑھے لکھے نہیں تھے جو مجھے لکھ کر کچھ سمجھاتے، پس انگلی کے اشارے سے انہوں نے ہوا میں ایک راستے کا نقشہ میرے سامنے بنایا اور مجھے سمجھانے کی کوشش کی۔
ان کی اس ہوائی ہدایات کے سہارے میں چل پڑا ہے میں اس قدر جلدی میں تھا کہ اپنی بوڑھی پھوپھی جن کی عمر شاید سو سال سے بھی زیادہ ہوچکی تھی ان کو دیکھنے اور ملنے کی خواہش کا احساس بھی نہ کر سکا البتہ کچھ مہینوں بعد میں ان سے ملنے گیا تھا۔
میں تین گھنٹے مسلسل چلتا رہا ، پھر جا کر دره شیش گاؤں پہنچا ، اس گاؤں کےنچلے جانب جانے والے راستے سے ہی میں چائے خانے میں داخل ہو گیا۔ جہاں زیادہ تر آنے والے مسافرایرانی کرد ہی تھے۔ اس چائے خانے میں بیٹھتے ہی میرے پاس ویٹر آیا اور مجھے قہوہ (چائے) پیش کیا ، یہ چھوٹے قد کا ایک عمر رسیدہ شخص تھا جس نے اپنا نام درویش محمد سعید بتایاایک کپ چائے پینے کے دوران اس نے مجھ سے میرا نام ، گاؤں یہاں آنے کی وجہ سب پوچھنا چاہی ، میں نے مختصراً ہر سوال کا جواب دیا ، جب میں نے بتایا کہ میرا تعلق نور یاب گاؤں سے ہے تو اس نے بہت خوشی سے مجھے بتایا کہ " میں بھی نور یاب گاؤں کا ہی ہوں" اور خدا تمہارے والد صاحب کی مغفرت فرمائے وہ ایک نیک انسان تھے اور میں ان کو اچھی طرح جانتا ہوں اور اگر میرا اختلاف نوریاب کے خان اور حاکم سے نہ ہوا ہوتا تو میں کبھی بھی نور یاب گاؤں اور اسکے لوگوں کو چھوڑ کر یہاں نہ آتا۔ اور ابھی وہیں آرام سے زندگی گزار رہا ہوتا یہ صرف میرے ساتھ نہیں ہوا تھا بلکہ میری طرح کے بہت سے ایرانی خان اور حاکموں کی بے جا مداخلت اور اختلاف و لڑائی جھگڑوں سے تنگ آ کر وہاں سے ہجرت کر کے یہاں آئے ہیں۔
میں نے ان کو بہت قائل کرنے کی کوشش کی مگر ان کے اصرار اور محبت کے آگے ہار گیا اور بالآخر ان کے ساتھ ان کے گھر آ گیا ۔ تاکہ رات ان کے گھر میں گزار سکوں۔ ان کی زوجہ اور بچے بھی ان کی طرح اپنے گاؤں سے آئے ہوئے ایک شخص کی آمد پر بہت خوش تھے ان سب نے بہت والہانہ استقبال کیا اور خوب احترام سے پیش آئے ، اس رات انہوں نے اپنے ساتھ بیالیس دوسرے خاندانوں کی ہجرت کی داستان کو بھی سنایا جو نوریاب گاؤں کو بادل نخواستہ چھوڑ کر کس طرح نکلےاور مشکلات عبور کر کے یہاں تک آئےاس داستان نے مجھے ہلا کر رکھ دیا اور اس رات میں سمجھا کہ میرے ایک چھوٹے سے گاؤں میں کیا تاریخ رقم ہوئی ہے۔ میں غمگین ہو گیا اور اس واقعے نے مجھے پریشان کردیا تھا جو کہ اس سے پہلے مجھے معلوم ہی نہ ہوا تھا ۔
درویش محمد سعید نے میری باتوں سے اندازہ لگا لیا تھا کہ میں زیادہ دیر رکنے والا نہیں ہوں اور میرا تحصیل علم کیلئے اس طرح نکلنا اور اب تک اس مقصد کیلئے کوشاں رہنا مجھے کہیں پر بھی سکون سے بیٹھنے نہیں دےگا۔لہذا انہوں نے میرے سامنے ہی اپنے بیٹے کو مخاطب کر کے کہا : نادر تم کل صبح فقیہ قادر کے ساتھ عنب گاؤں جاؤ، اور وہاں جاکر ان کو مولانا ملا محمود صاحب کے پاس (۱)کے پاس لے جانا اور ان سے کہنا کہ ان کو اپنے شاگرد کے طور پر قبول کر لیں اور قادر صاحب کو کسی صورت کی حلبچہ نہ جانے دیں..... اس طرح ان کا مدرسہ اور اس کا راستہ بھی ہمارے گھرکے قریب ہوگا اور جب یہ اور ہم چاہیں گے ایک دوسرے سے مل سکیں گے اور جب لازمی ہو گا ہم ان کی دیکھ بھال بھی کر سکیں گے۔ اور ان کا خیال بھی رکھ سکیں گے۔
صارفین کی تعداد: 645
http://oral-history.ir/?page=post&id=11902