ماموستا 17
مصنف: علی رستمی
ترجمہ: افشین زہرا
ویرائش: یوشع ظفر حیاتی
2024-04-27
منگل کے دن ہماری چھٹی ہوتی تھی، جس دن ہم کوہ پیمائی، ورزش کرتے اور اس گاؤں کے اطراف میں واقع چشموں اور پہاڑ کے دامن میں واقع سرسبزہ شاداب جگہوں پر پیدل جاتے اور وہاں وقت گزارتے دوسرے لفظوں میں اگر کہوں تو اس دن ہم سارا وقت درس و تدریس میں سے ہٹ کر سیر و تفریح میں گزارتے ۔ منگل کی صبح اپنے حجرے سے نکلتے وقت ہم کچھ روٹیاں اور انڈے اپنے ساتھ لے لیتے تھے اور دوپہر کا کھانا کسی بھی پہاڑ کے دامن میں بناتے اور کھاتے تھے پورا دن سیرو تفریح میں گزارنے کے بعد جب سورج ڈھلنے لگتا اور مغرب کا وقت قریب ہوتا تو ہم واپس اپنے کمرے میں پلٹ آتے اور دوسرے دن کیلئے خود کوتیار کرتے تھے۔
اس زمانے میں ٹیلیفون اور رابطے کے وسائل و ذرائع تو نہ تھے اسلئے زیادہ تر طلباء ہر دو ماہ بعد ، اپنے گھر والوں سے ملنے اور خیر خیریت دریافت کرنے اپنے گھروں کو جاتے ، مگر میرا معاملہ الگ تھا وہ اسطرح کہ ہمارے گاؤں نوریاب کا اس گاؤں دشہ سے فاصلہ کم تھا لہذا میں ہرجمعے کو کچھ گھنٹے نکال کر اپنے گاؤں چلا جاتا اور اپنی والدہ سے مل کر واپس آجاتا تھا۔
یہ وہاں کا دستور تھا کہ علاقے کے مولانا، ملا، مفتی صاحبان، تمام شاگردوں کو لے کر مقامی لوگوں کے ساتھ ، پہاڑی سلسلوں کے دامن میں واقع پر فضا مقامات اور موسم گرما میں وقت گزارنے کیلئے بنائے گئے گھر اور علاقوں میں جاتے تھے تاکہ موسم گرما کے سخت شدید گرمیوں والے دنوں کو نسبتاً ٹھنڈے علاقوں اور ہوادار گھروں میں گزار سکیں۔ اسی غرض سے موسم گرما کے آغاز ہی میں اور ابتدائی دو مہینوں میں ہی ہم سب دشہ کے مقامی لوگوں کے ہمراہ سیاسر کے گھروں سمرہاؤ سز میں منتقل ہوگئے۔
مقامی لوگوں کے گھروں سے تقریباً پانچ سو میٹر کے فاصلے پر اور جناب ملاعمر صاحب کے گھر کے قریب ہی ہم نے چٹائی سے بنے جھونپڑی نما کمرے کو صاف کیا اور وہاں اپنا سامان رکھ دیا ۔ اس طرح کے بنے ہوئے حجروں اور کمروں کو "کپر" کہا جاتا تھا۔ مقامی لوگوں کے مطابق یہی "کپر" پچھلے زمانوں میں بھی طلباء بزرگانِ علم اور دشہ گاؤں کے علماء کے علاوہ، ملا صاحب کے گھر والوں کی رہائش گاہ اور قیام گاہ کے طور پر استعمال ہوتی رہی ہے ۔اس جگہ کے علاوہ ایک اور مقام پر بھی دشہ گاؤں کے رہائشیوں نے کچھ اور گھروں کو بنایا ہوا تھا جو اس جگہ سے تقریبا دو گھنٹے کی دوری کی مسافت پر تھا۔ اُس جگہ کا نام " ئیلاؤ " تھا کچھ لوگ وہاں بھی مقیم تھے ۔ مگر ملا عمر صاحب سیاسر میں ہی رہتے تھے اور اسی کو ترجیح دیتے تھے تو ہم نے بھی" کپر" کو ہی اپنا ٹھکانہ بنایا اور وہیں رہتے رہے اور اسی کے ساتھ ہی بیٹھ کر روزاپنادرس بھی لیتے اور وہیں پڑھتے تھے۔
ہمارے کام اور غذا کا انتظام، لوگوں کی مدد سے ہی ہوتا تھا ۔ ہم میں سے ایک دو طلباء ہفتے میں ایک بار روٹیاں جمع کرنے دوسرے پڑاؤ ، "ئیلاؤ" کے مقام پر جاتے اور وہاں سے روٹیاں جمع کر کے لے آتے تھے یہاں راتوں کو تیز ہوائیں چلتی تھیں اور ہمارا کمرہ چھوٹے بڑے بچھوؤں سے بھر جاتا۔ کئی دفعہ ایسا بھی ہوا کہ بچھو ہمارے کپڑوں میں گھس گئے اور کئی دفعہ ہمارے بستروں میں گھس گئے اور ہمیں کاٹا بھی۔
جب بچھو ہمارے کپڑوں میں گھس کر ہمیں کاٹتے اور ڈنک مارتے تو کئی دفعہ ان کو ڈھونڈنے کی خاطر ہمیں اپنے کپڑوں کو اتارنا پڑتا تاکہ ان کو ڈھونڈ کر مار سکیں، بچھو کا کاٹنا اور ان گھروں اور اطراف میں ان کا وجود ایک عام سی بات تھی، اور ان عارضی گھروں میں آنے والوں کیلئے بچھو کا ڈنک مار دینا معمولی بات تھی۔ لہذا شروع کی راتوں میں ہر مرتبہ بچھو کے کاٹنے ہر ہم صبح تک آہ و نالہ کرتے اور اس درد میں تڑپتے اور بلکتے رہتے تھے ۔ مگر ہر رات کئی مرتبہ اس درد کو سہ سہہ کر، کچھ عرصے بعد ہم بھی اس ڈنک کے درد کے عادی ہو گئے تھے اور اس تکلیف کو برداشت کرنے کی عادت سی ہو گئی تھی۔
ان بچھوؤں کے ڈنک کی اذیت اور تکلیف برداشت کرنے سے کہیں زیادہ مشکل ملاعمرصاحب کی ہدایات اور تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیتی حوالے سے ان کے مقرر کردہ اصول و ضوابط پر عمل کرنا تھا۔ ہم پابند تھے کہ ہر شب جمعہ اور منگل کو ملاعمر صاحب کے گھر جائیں اور قصیدہ بردیہ کو کورَس کے انداز میں ایک ساتھ مل کر پڑھیں ، ملا عمر صاحب کا یہ گھر کافی اچھی جگہ پر تھا وہ پہاڑوں پر واقع لوگوں کے پہاڑی گھروں کے ساتھ ہی واقع گھر میں رہائش پذیر تھے۔ اان کے گھر کی شمالی جانب ایک چبوترہ سا بنا ہوا تھا ۔ یہ وہ مقام تھا جہاں سے پاوہ شہر ، شا ہو، اور نجار گاؤں کے پہاڑوں کا خوبصورت منظر دکھائی دیتا ہے جو انسان کو محو کر دیتا تھا ہم اسی جگہ اس چبوترے پر بیٹھ کر قصیدہ بردیہ کو پڑھتے تھے اور مناظرقدرت سے بھی لطف اندوز ہوتے تھے۔
ملا عمر صاحب کو یہ پورا قصیدہ زبانی یاد تھا وہ بھی ہمارے ساتھ اسے پڑھتے تھے اور خاص بات یہ تھی کہ وہ اسے پڑھنے کے ساتھ ساتھ، طبل پر دو لکڑی کے ڈنڈیاں مار کر خاص موسیقی بناتے اور اسطرح ڈنڈیوں کو ایک خاص انداز سے طبل پر مارتے ہوئے اپنے سر کو ہلاتے ہوئے ہماری آوازوں کو اس طبل سے ہم آہنگ کرتے رہتے اور ہم قصیدہ خاص ردھم اور طرز کے ساتھ یاد کرتے رہتے اور پڑھتے بھی رہتے۔
ایک رات کا واقعہ ہے وہ منگل کی رات تھی اور حسب عادت اور شیڈول کے مطابق ہم سب مل کر قصیدہ پڑھ رہے تھے ہماری آوازیں اور طبل کی تھاپ کچھ زیادہ بلند ہو گئی اور ملا صاحب جو کہ درویش خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور کرکوک سے تحصیل علم کے ساتھ ساتھ فن و ہنر کے بھی دلدادہ تھے۔لہذا اس قصیدے کو پڑھنے اور دف بجانے میں ماہر اور اپنی مثال آپ تھے ۔ ہم سے کچھ میٹر کے فاصلے پر ہی گلہ بان اپنے مویشیوں کا دودھ دوہنےمیں مصروف تھے ۔
ہمارے قصیدے کی تیز آواز اور طبل کی تھاپ کیوجہ سے، بکریوں اور بھیڑوں کے ریوڑ ، اپنی جگہوں سے خوف زدہ ہو کر نکل کر بھاگنے لگے اور باغات میں گھس کر انہوں نے بری طرح سے اس کو بھی نقصان پہنچایا، ہم اپنی دھن میں مست پوری طاقت وقوت سے قصیدے کو پڑھنے میں مصروف تھے اور ملا عمر صاحب بھی ہماری آوازوں میں آواز ملا کر اور طبل کو بجا کر اس قصیدے میں مگن تھے ، اسطر ح مگن کے مردو عورت سب مل کر ہمیں آگاہ کرنا چاہ رہے تھے اور فریاد کر رہے تھے مگر ہمیں کسی کی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی اور ہم اپنے اطراف کے ان حالات سے بے خبر اپنی دھن میں مست تھے کہ اچانک دشہ گاؤں کا ایک رہائشی اور ان ریوڑوں میں سے ایک ریوڑ کا مالک ہمارے " کپر" حجرے میں داخل ہوا اور بوکھلاتے ہوئے ملا عمر صاحب سے گویا ہوا اور بولا : "ریوڑ... مویشی بھاگ گئے !
ہم سب ایک دم خاموش ہو گئے اور جب خاموش ہوئے تو اطراف کی آوازیں ہمارے کانوں سے ٹکرائیں اور پھر ہم متوجہ ہوئے کہ باہر تو محشر اور قیامت کا سماں ہے ، سب مرد و عورت فریاد کر رہے ہیں، با آواز بلند چیخ چیخ کر کورس کے انداز میں مل کر ہمیں متوجہ کر نے کی غرض سے چلا چلا کر کہہ رہے ہیں"ملا صاحب بس کریں ہمارے مویشی سب بھاگ گئے ہیں !..."
اس رات کا کافی حصہ مویشی ڈھونڈنے میں گزر گیا، لوگ اپنے اپنے مویشیوں کو ڈھونڈنے نکلے ہوئے تھے اونچے نیچے راستے پہاڑ چٹانیں اور بلوط کے گھنے در ختوں کے درمیان کوئی کہیں تو کوئی کہیں ۔ اپنے مویشی ڈھونڈ رہا تھا اور پکڑ پکڑ کر ان کو واپس لا رہا تھا غرضیکہ وہ رات اسی طرح گزر گئی۔
یہ واقعہ تو کچھ اچھا نہ تھا، گر چہ اسکے اثرات ہمیں اس لئے اچھے لگے کہ اس رات کے بعد ہم سکون میں آگئے اور ہمیں اس قصیدے کو اس طرح پڑھنے اور یاد کرنے سے چھٹی مل گئی اور اس کے بعد کبھی بھی ہم نے اس طرح وہ قصیدہ نہیں پڑھا۔
صارفین کی تعداد: 678
http://oral-history.ir/?page=post&id=11846