ایک ماں کی ڈیلی ڈائری
انتخاب: فائزہ ساسانی خواہ
ترجمہ: یوشع ظفر حیاتی
2024-04-13
ہفتہ ۲۴ جنوری ۱۹۸۷
جواد کے جنازے کو گھر کے پاس لارہے تھے۔ اس کی والدہ نزدیک گئیں اور کہا کہ اسکی میت کو زمین پر رکھ دیں اور زیارت وارثۃ کی تلاوت کریں۔ اسکے ماموں نے زیارت وارثہ پڑھی اور اسکے بعد کہا کہ سڑک کے بیچ میں واقع مسجد میں اسکے جنازے کو لے جائیں اور نماز میت ادا کریں، تاکہ جن لوگوں کو نماز میت کے بارے میں نہیں معلوم وہ بھی سیکھ لیں تاکہ تاریخ لکھے کہ شہیدوں کی ماؤں کے جذبات کیسے ہوتے ہیں جو اپنے بچوں کے جنازوں کے پاس بھی دین کی تبلیغ کی فکر میں مشغول ہوتی ہیں۔ محترمہ باغشاہی کا گھرانہ ایک مذہبی اور مجاہد گھرانہ تھا اور انکے ایک بھائی پانچ جون ۱۹۶۳ کے واقعے میں شہید ہوگئے تھے۔ محترمہ باغشاہی صاحبہ نے اپنے بیٹے کا جنازہ دیکھ کر اسے مبارک باد پیش کی۔
جب محترمہ باغشاہی صاحبہ کا بھتیجا شہید ہوا تو اس کا نکاح ہوچکا تھا۔ اسکی شہادت کو جب چار مہینے گذر گئے تو شہید کی والدہ مہر کی آدھی رقم اور تحفے تحائف لے کر دلہن کے گھر گئیں اور کہا کہ اب تم شادی کرسکتی ہو، میں بھی تمہاری شادی میں شرکت کروں گی اور تحفے لے کر آؤں گی۔
ایسا ہی ہوا۔
جنگ اپنے زوروں پر ہے اور اور ہر روز مختلف گھرانے اپنے عزیز اسلام اور انقلاب پر قربان کررہے ہیں۔ اب ایک شہید کی ماں ہونا حزب اللہی گھرانوں میں عام سی بات ہوچکی ہے، اور اب تو دو، تین اور چار شہیدوں تک بات پہنچ چکی ہے۔ دو شہید دینے والے گھرانوں میں سے صباغجی فیملی ہے۔ مہدی جو ایک سپاہی تھا اور شہید ہوگیا تھا، اسی لئے اسکے بھائی محسن کو شہید کا بھائی ہونے کی وجہ سے ٹریننگ سے چھوٹ دے دی گئی تھی۔ جس دن محسن محاذ جنگ کے لئے روانہ ہورہا تھا تو گھر کے دروازے پر آسمان کی جانب رخ کر کے اس نے کہا: خدایا اس چھوٹ کے باجود تیری جانب آرہا ہوں مجھے قبول کرلے!۔
وہ گیا اور شہید ہوگیا۔
محسن کی شہادت کے بعد جب ہم محترمہ صباغجی کے ساتھ معراج شہداء گئے تو انہوں نے تابوت کھول کر مجھے مخاطب کیا سیستانی صاحبی دیکھیں میرے پیارے محسن کا انہوں نے کیا حال کیا ہے!
محسن پورا جل چکا تھا لیکن اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ اسکے اگلے دن صباغجی صاحبہ محسن کی تشییع جنازہ میں بس یہی کہے جارہی تھیں: کسی کو بھی پتلی اور نازک چادروں اور جورابوں میں محسن کے جنازے میں شرکت کی اجازت نہیں ہے۔
صباغجی صاحب بھی جو کہ ایک انقلابی شخصیت کے حامل اور مسجد کے متولوں میں سے تھے، جنازہ لے کر جانے والی ایمبولینس کے اوپر چڑھ کر مسلسل گفتگو کررہے تھے اور نعرے لگا رہے تھے۔
گویا محسن کو بھی اپنی شہادت کی خبر تھی، چونکہ محاذ جنگ کے بیچوں بیچ اور اپنی شہادے سے زرا پہلے اس نے اپنی بیلٹ اتار دی تھی اور اپنا سارا سامان کنارے رکھ کر رو بہ قبلہ سجدہ ریز ہوگیا تھا اسی اثنا میں ایک ٹینک کے گولے سے وہ شہید ہوگیا۔ اسکے ساتھیوں نے اسکی اسی حالت میں تصویریں لی تھیں۔ خانم ساسانی نے بھی دو شہید دیئے ہیں۔ جب انکے دوسرے شہید کو زمین پر رکھا گیا تو وہ عطر کی خوشبو سے مہک رہا تھا۔ جس دن ہم ساسانی صاحبہ کے دوسرے شہید کی تدفین کے لئے قبرستان بہشت زہرا کے بلاک ۵۳ میں موجود تھے تو اسی وقت وہاں تین اور شہید لائے گئے۔ دو سگے بھائی تھے جن میں سے ایک تقریبا ایک سال پہلے شہید ہوا تھا اور تیسرا انکا دوست تھا۔شہیدوں کی والدہ کہہ رہی تھیں کہ مرد حضرات سائیڈ پر ہوجائیں میں کود اپنے ہاتھوں سے اپنے بچوں کو دفن کروں گی۔
اور انہوں نے خواتین کی مدد سے قبر میں اتر کر اپنے بچوں کو دفنایا اور اسکے بعد انکی قبریں ڈھک کر ان پر مٹی ڈالی اور دونوں قبروں کے درمیان کھڑے ہو کر نماز شکرانہ ادا کی۔
لکھ رہی ہوں اور آُ بھی لکھیں کہ اس نسل نے اسلام کے لئے کیا کیا کام انجام دیئے ہیں۔
آج سب لوگ ہمارے گھر آئے ہیں۔ میں ان سے کہہ رہی ہوں کہ اگر میں مر جاؤں تو مجھے کفن کے اوپر ایک سیاہ لباس پہنا دینا میں امام زمانہ عج کے سبز پوش چاہنے والوں جیسی دکھنا چاہتی ہوں۔
کافی عرصے بعد مجھے دو کالے سوٹ ملے ہیں۔ ایک پولادی صاحب لائے ہیں اور ایک رضا رحیمی صاحب۔ اس وقت چرمچی صاحبہ کے گھر پر ہوں جہاں حسین وکیلی قمی کی شہادت کی خبر سنائی جارہی ہے۔ حسین ان کا اکلوتا بیٹا تھا، اپنے خاندان کا سولہ سالہ مرد۔ اسکا جنازہ سات مہینے بعد لایا گیا ہے۔ حالانکہ حسین کی والدہ کا بس ایک ہی بیٹا تھا لیکن پھر بھی وہ بہت صبر و برداشت کا مظاہرہ کررہی ہیں۔
کاش میں بھی خدا کی آرکائیو میں جاکر اپنی فائل دیکھ سکتی!
1 منبع: مساوات (سیستانی)، اشرفالسادات، کنار رود خیّن، یادداشتهای روزانه یک مادر، تهران، انتشارات حوزه هنری، چ اول، 1373، ص 118.
oral-history.ir
صارفین کی تعداد: 628
http://oral-history.ir/?page=post&id=11812