ماموستا 11
مصنف: علی رستمی
ترجمہ: افشین زہرا
ویرائش: یوشع ظفر حیاتی
2024-01-30
اسکول کے اساتذہ و دیگر ذمہ دار افراد ہر دن کوئی نیا اعتراض کرتے مگر میں مجبور تھا ان سب کا صبر اور نرم لہجے سے جواب دوں مگراس دن اچانک آغاملک شاہی نے بغیر کسی عذر و دلیل کےمجھے اسکول سے نکال دیا جبکہ نہ تو کوئی بات ہوئی تھی نہ میں نے ان شرائط اور قواعد میں سے کسی کو توڑا تھا جو انہوں نے کلاس میں بیٹھنے کیلئے مجھ پر عائد کی تھیں ، بہر حال، بالاخر تمام کوششوں کے باوجود مجھے اسکول سے بلا کسی دلیل اور وجہ کے نکال دیا گیا تھا۔
میرا دل لرز اٹھا اور میرا ذہن فوراً میرے خواب کی طرف گیا جو میں نے ایک رات پہلے ہی دیکھا تھا اور میں جو اس کیفیت سے گزر رہا تھا کہ بالکل نہیں چاہتا تھا کہ خود کو یقین دلاؤں کے مجھے یہاں سے نکالا ہی جانا تھا اور میری کوئی کوشش فائدہ مند نہیں ۔
لہذا سب خیالات کو ایک طرف کرتے ہوئے میں نے خود کو امید دلائی اور ادارئےتعلیم و تربیت کے نام ایک خط لکھا اس خط میں اپنے تمام حالات اور جوشکایات اور اعتراضات آغاملک شاہی سے مجھے تھے لکھ ڈالے اور خط لے کر جب دفتر پہنچا تو معلوم چلا مدیر اعلیٰ موجود نہیں ہیں ان کے گھر کا ایڈریس (پتہ) معلوم کیا اور فوراً ان کے گھر کی جانب قدم بڑھا دئیے گھر پہنچا اور وہ خط ان کی زوجہ کو دے آیا ، اس کے دوسرے دن، اس خط کی اطلاع اسکول کے پرنسپل آغا ملک شاہی کو مل گئی وہ بہت غصہ ہوئے اور مجھے بلا کر کہنے لگے" اب اتنے قابل ہوگئے ہو کہ میری شکایتیں کرتے ہو ؟ اب یا تم یہاں رہو گے یا میں لہذا آج کے بعد تمہیں حق نہیں کہ اس اسکول میں پاؤں بھی رکھو یہ میرا اسکول ہے اور اب تم یہاں ایک قدم بھی نہیں رکھ سکتے لہذا نکل جاؤ یہاں سے ابھی ۔
میں نوریاب واپس آگیا۔ ایک دو ہفتے بے کار گھر میں ہی پڑا رہا پھر دوبارہ کام کرنے کی غرض سے پاوہ گیا اور مرحوم محمد سلیم فلاحی کی حلیم کی دکان پر کام کرنے لگا یہ دکان درہ باسام میں تھی جو آج کل فلسطین چوک کے نام سے جانا جاتا ہے۔اس دکان کے ساتھ ہی آگے حضرت عبد اللہ کی مسجد بھی واقع تھی۔
میں حلیم پکانے میں استاد کی مدد کرتا تھا پہلے گوشت کو پکانا پھر اس کے ریشے الگ کرنا اور گندم صاف کرنا میری ذمے داریوں میں سے تھا ، اذان صبح سے لے کر رات گئے مسلسل کام کرتا رہتا اور کچھ گھنٹے دکان کے پچھلے حصّے میں ڈالے گئے کمبل اور دری پر لیٹ کر سو جاتا تھا ۔ گودام ، باورچی خانہ ، لوگوں کے بیٹھنے کی کرسیاں میزیں سب کچھ اسی ایک دکان میں سمادیا گیا تھا اور یہی ایک چھوٹی دکان تمام ضروریات کو پورا کرتی۔ تھی میں ہفتے میں پانچ دن یہاں کام کرتا اور پھر دودنوں کیلئے اپنی والدہ کے پاس نوریاب چلا جاتا تھا۔
محمد سلیم اچھے انسان تھے وہ حلیم میں کوئی ملاوٹ نہیں کرتے تھے نہ کہیں ڈنڈی مارتے تھے بس بعض دفعہ اچھے صاف گوشت کی جگہ سری پائے دیگ میں ڈلواتے تھے تاکہ ان کو سستا پڑے اور زیادہ منافع حاصل ہو سکے مگر مجھے ان کا یہ کام پسند نہیں تھا اور جب وہ مجھ سے اسطرح پکواتے تھے تو میں دکان میں آنے والے لوگوں سے سخت شرمندگی کا احساس کرتا تھا، مگر میرے اندر اتنی جرات نہ تھی کہ اعتراض کروں اور اپنی روزی روٹی پر لات ماروں ، مگر اس طرح پکانے پر میں راضی نہ تھا لہذا جتنے دن بھی وہاں کام کیا میں نے ایک لقمہ بھی اس حلیم کا نہیں چکھا اور نہ صرف یہ کہ خود نہیں کھایا بلکہ کبھی کسی اور کو بھی اس حلیم کے کھانے کا مشورہ نہیں دیا۔
"مسجد حضرت عبد اللہ" نام سے مشہور یہ مسجد حلیم کی دکان سے تین دکانوں کے فاصلے پر تھی روزانہ اس مسجد کے طلباء جو مولانا مفتی انصاری صاحب مرحوم سے درس لینے آتے تھے وہ درس کے بعد ہماری اسی حلیم کی دکان پر آیا کرتا تھے اور یہیں سے حلیم خرید کر کھایا کرتے تھے میں جب ان طلباء کو دیکھتا تھا تو مجھے ان کی رفتار و کردار بڑا جذاب لگتا تھا اور ان سے باتیں کرنا اور روزان سے ملاقات، باعث بنی کہ خود بہ خود میرا شوق بڑھتا گیا اور میں ان دروس کی طرف مائل ہونے لگا اور میرا بھی دل چاہنے لگا کہ ان کی طرح درس حاصل کروں-
میں ہر ہفتے جب تھکا ہارا ، اپنے گاؤں نوریاب جاتا تھا تو اپنی ماں کے چہرے پر تکلیف کے آثار دیکھتا گویا وہ میرے اس کام سے رضا مند اور خوش نہ تھیں یا شاید وہ جان چکی تھیں کہ حلیم کے ایسے پکانے ، اسکی ترکیب میں اس طرح سے ملاوٹ کرنے سے میں خوش اور راضی نہیں ہوں ، میری والدہ کی خواہش تھی کہ میں کام کرنے اور کمانے کے بجائے اسکول و تعلیم پر وقت صرف کروں ۔ بالاخر ایک دن غصے اور ناراضگی سے مجھ سے مخاطب ہوئیں اور بولیں". قادر میں ہرگز ہرگز تمہارے اس کام سے راضی نہیں ہوں ، تمہارے والد اور آباؤ اجداد سب مولانا اور دینی و مذہبی تعلیم سے آراستہ تھے ، میری خواہش ہے کہ تم بھی اپنے آباؤاجداد کے نقش قدم پر چلو ۔ جاو دینی تعلیم حاصل کرو اور خدا کے دین کی خدمت کرو ۔ "
صارفین کی تعداد: 884
http://oral-history.ir/?page=post&id=11702