ابوغریب کی گھاٹی کیسے بند کی
انتخاب: فاطمہ بہشتی
ترجمہ: سیدہ رومیلہ حیدر
2024-01-03
فتح المبین آپریشن دس دن تک چلا۔ ہم دشت عباس میں عراقیوں سے لڑ رہے تھے۔ کمرسرخ کا علاقہ ہمارے پاس تھا اور امام زادہ کے مزار کے پاس ہم نے جو پشتے باندھے تھے اس کے زریعے پورا علاقہ کنٹرول کررہے تھے۔ عراقی بھی ابوغیر کی گھاٹی کی طرف پیچھے ہٹ چکے تھے۔ ہمارے پاس بھی بس ایک بٹالین بچی تھی۔ بیشتر افراد یا زخمی ہوچکے تھے یا شہید ہوچکے تھے۔
کئی دن کی لڑائی کے بعد جنگ کے ساتوں دن ہم بہت زیادہ تھک چک تھے اور اب حرکت کرنے کی بالکل ہمت نہیں تھی۔ سات دنوں کی جنگ، دشمن کی بکتر بند گاڑیاں، کٹیوشا اور ہمارے پاس محدود وسائل حالانکہ ہمارے پاس فوج کی جانب سے مامور کیا گیا بس ایک توپخانہ تھا جسے تیل کے کنوئیں پر لگایا گیا تھا اور اس کی رینج ابوغریب تک نہیں پہنچ رہی تھی۔ مسلح دشمنوں سے جنگ نے ہمیں بہت زیادہ تھکا دیا تھا۔ جوانوں کی پیشانیوں اور گردنوں پر بارود کی سیاہی کی تہیں جم چکی تھیں۔
رات بارہ بجے ہم تھکن کے مارے ہل بھی نہیں پارہے تھے۔ ایمونیشن کے مورچے کے پیچھے کچھ دیر کے لئے جا کر سو گیا کہ رات ڈیڑھ بجے ہمارے بھائی غلامحسین بشردوست وہاں پہنچ گئے اور مجھے جگا دیا۔ کافی دیر سے مجھے ڈھونڈر رہے تھے۔ حسن باقری دشت عباس میں سڑک کے کنارے میرا انتظار کررہا تھا۔ خدا حسن پر رحمتیں نازل کرے۔ اہم آپریشنوں مثلا طریق القدس، ثامن اائمہ اور بیت المقدس وغیرہ میں انہوں نے کلیدی کردار ادا کیا۔ میری اصطلاح میں وہ حسن بہشتی تھا۔ اور اس سے بھی اچھی اصطلاح میں وہ جنگ کا امام خمینی تھا۔ حسن گاڑی میں بیٹھا ہوا تھا۔ محمد علی ایرانمنش بھی اس کے ساتھ تھا۔ مجھ سے کہنے لگا: "محسن رضائی صاحب نے مجھ سے کہا ہے کہ آج رات ابوغریب کی گھاٹی کو بالکل بند کردینا ہے۔" ابوغریب کی گھاٹی کا نقشہ انکے پاس تھا تاکہ مجھے وضاحت دے سکیں کہ گھاٹی کو بند کیا جائے اور دشمن کو فتح المبین کے علاقے میں داخل ہونے سے روکا جائے۔ یہ خدشہ تھا کہ عراقی دریائے "دویرج" عبور کرے "چمسری" کی وادی سے ہوتے ہوئے "تینہ" اور " رقابیہ" کی اونچائیوں سے ہوتے ہوئے عین خوش کی اونچائیوں تک دسترسی حاصل کرلے اور ہماری ساری محنت تباہ ہوجائے گی۔
تقریبا ایک بجے رات کا وقت تھا اور ہمارے پاس وسائل نامی کوئی چیز نہیں تھی۔ تین بٹالینز جو تقریبا ایک ہفتے سے مکمل طور پر جنگ لڑ رہی تھیں اب ان کے اندر طاقت نہیں تھی۔ اس کے باوجود ہمیں ابوغریب کی گھاٹی کو بند کرنا تھا تاکہ دشمن کے فرار کا راستہ بھی بند کیا جاسکے اور وہ باہر سے فوجی لا کر اپنی طاقت میں اضافہ بھی نہ کرپائے۔ ہم نے ابوغریب کی گھاٹی کو دیکھا بھی نہیں تھا۔ حسن نے نشقے میں ابوغریب کی گھاٹی دکھائی تھی۔ اس وقت ہماری فورسز ۲۰۲ کی اونچای پر تھیں اور وہاں سے ابوغریب کا فاصلہ تقریبا ارہ کلومیٹر تھا، یعنی ایک جگہ جا کر تینہ اور عین خوش کی اونچائیاں آپس میں مل رہی تھیں اور انکے درمیان سے ایک پکی سڑک گذر رہی تھی جو چمسری کی جانب جارہی تھی اور دویرج کے دریا کو بھی عبور کررہی تھی جہاں سے آگے عراق تھا۔ اسے ابوغریب کی گھاٹی کہا جاتا تھا۔
میں ۲۰۲ کی اونچائی پر جوانوں کے پاس گیا اور پہلے دن ہی اس معرکے میں شامل ہونے والے بٹالین سے تعلق رکھتے تھے۔ تین سو میں سے بس سو جوان باقی بچے تھے۔ دو سو جوان یا شہید ہوچکے تھے یا زخمی یا کسی بھی طرح میدان میں موجود نہیں تھے اور ہم یہ سوچ رہے تھے کہ دشمن پر حملہ کرنے کے لئے اب کیا کیا جائے؟ ان سو جوانوں کے ساتھ تو دشمن پر حملہ نہیں کیا جاسکتا تھا۔
اچانک ایک آئیڈیا ذہن میں آیا۔ آئیڈیا یہ تھا کہ ہیڈکوارٹر کے جوانوں (البتہ اس زمانے میں ہیڈکوارٹر بھی نہیں تھا) وہی جوان جو ہیڈکوارٹر کی ذمہ داریاں نبھا رہے تھے، ان سے کہا کہ جتنی گاڑیاں ہیں سب جمع کرلیں تاکہ انکی لائٹیں کھول کر تیل کے کنوئیں کی طرف جائیں، وہاں پر کچھ گاڑیاں تعمیری جہاد کے ادارے اور عوامی رضاکاروں کی بھی تھیں اور ایلام کے گورنر ترکان صاحب کے پاس بھی کچھ بڑی گاریاں تھیں جن کا کام پشتے باندھنا تھا۔ دس یا بارہ ڈمپر تھے جنہیں لائٹیں کھول کر دشمن کی جانب روانہ کیا گیا۔ یعنی ہم نے تازہ دم فورسز اور جنگی سازوسامان کا تظاہر کیا۔ گاڑیوں کی ایک طویل صف تھی جس نے جب حرکت کی تو دشمن یہ سمجھا کہ تازہ دم فورسز وارد عمل ہوچکی ہیں جس کی وجہ سے دشمن میں شکست کا احساس پیدا ہوا اور وہ یا بھاگ اٹھے یا انہوں نے دفاع ہی کرنا چھوڑ دیا۔
دوسرا یہ طے پایا کہ "حمید عرب نژاد" اپنے لوڈر پر سب سے آگے آگے چلے گا اور دشمن سے سب سے پہلی جھڑپ کرے گا۔ اس رات ہم بس بیس میٹر کے فاصلے تک پہنچ چکے تھے۔ صبح ساڑھے آتھ بجے جب ہم نے عراقیوں کی جانب بڑھنا شروع کیا تو ان کا نام و نشان بھی نہیں تھا۔ پہلی رات ہمارے اور انکے درمیان تھوڑی بہت جھڑپ اور فائرنگ ہوئی لیکن آہستہ آہستہ وہ بھی کتم ہوگئی اور اسکی جگہ خاموشی نے لے لی۔ علی الصبح دیکھا کہ بالکل سناٹا چھایا ہوا ہے۔ جب اونچائی پر پہنچے تو دیکھا کہ عراقی جاچکے ہیں۔ حمید عرب نژاد بیت المقدس آپریشن میں شہید ہوگیا تھا وہ ایک ماہر جوان تھا جس نے مہاباد شہر کے بچاؤ کے لئے بہت زیادہ محنت کی تھی، وہ ایک لوڈر پر سب سے آگے آگے تھا چونکہ امکان تھا کہ عراقی نزدیک کی پہاڑیوں پر کمین گاہ بنا کر نہ بیٹھے ہوں اور ہم غافل گیر ہوجائیں۔ حمید کو لوڈر میں آگے بھیجا اور باقی جوان اسکے پیچھے پیچھے آگے بڑھنے لگے۔ عراویں کے پاس کیلیبر اور آر پی جی تھے اور حمید کا یہ اقدام انتہائی خطرناک تھا۔ لیکن اس طرح کم از کم لوڈر نشانے پر تھا اور باقی جوان دفاعی پوزیشن سنبھال سکتے تھے تاکہ دشمن سے لڑ سکیں۔ لوڈر آگے چل رہا تھا اور م اسکے پیچھے پیچھے۔ لیکن ہم جتنا بھی آگے بڑھے دشمن وہاں موجود نہیں تھا۔
oral-history.ir
صارفین کی تعداد: 981
http://oral-history.ir/?page=post&id=11654