میں نے 15 خرداد کے شہداء کے خون کی قیمت قبول نہیں کی

ترجمہ: محب رضا

2023-11-14


امام کی ان تقریروں کے بعد، جو انہوں نے شوال، ذی الحجہ، محرم اور آخر میں عاشورہ کے دن کیں، خبر ملی کہ امام کو گرفتار کر لیا گیا ہے، اور باقر آباد، تہران، ورامین، قم، مشہد اور شیراز میں لوگ باہر نکل آئے ہیں۔ میں اس وقت بندرگاہ انزلی میں تھا، لیکن انزلی کی بندرگاہ میں مکمل خاموشی چھائی ہوئی تھی اور دراصل ایک عجیب سی کیفیت طاری تھی۔ اس سے قبل حالت یہ تھی کہ جب والد صاحب [آیت اللہ سیدابوطالب پیشوائی] مسجد میں جاتے تو لوگ ان کے گرد جمع ہوجاتے اور پوچھتے کہ آغا صاحب ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ ہماری ذمہ داری کیا ہے؟ والد صاحب کہتے تھے: ہم خود مرکز سے امام کے حکم کے تابع ہیں۔ اسکے علاوہ منتظر ہیں کہ مراجع جو بھی دستور دیں گے، ہم اس کی پیروی کریں گے۔ دیکھتے ہیں کہ رشت کے علماء کیا کر رہے ہیں اور ہم ان کی رائے کے مطابق مناسب فیصلہ کریں گے۔ مگر امام کی گرفتاری کے بعد ایک عجیب سا سکتہ چھا گیا تھا۔ یہ عمومی خاموشی، انزلی کی مجالس عزا میں بھی نفوذ کر گئی تھی اور اس کے باوجود، کہ محرم کا پہلا عشرہ تھا، وہ کئی راتوں تک منبر پر نہیں گئے تاکہ دیکھیں کہ آخر حالات کس طرف جا رہے ہیں۔

اس منبر پر نا جانے، عوام کے جمع ہونے مگر خاموش رہنے اور اس بات کے منتظر ہونے کہ مرکز سے کیا حکم آتا ہے، نے شہر کے بہت سے عہدیداروں کو خوفزدہ کر دیا تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اس خاموشی کے پیچھے ایک طوفان چھپا ہو، جو جلد ہی سب کو اپنی لپیٹ میں لے لے۔ خاص طور پر 15 خرداد میں دو دن باقی تھے اور امام کی گرفتاری کا واقعہ، حسینی عاشورا کے موقع سے مل گیا تھا، اس چیز نے صورت حال کو مزید گھمبیر کر دیا تھا اور خاموشی بہت ہو سنگین گئی تھی۔ 15 خرداد سے دو دن پہلے، انزلی بندرگاہ کے ساواک کے سربراہ نے میرے والد مرحوم کو فون کیا اور کہا: "حضرت آیت اللہ ؛ ساواک گیلان کے سربراہ کرنل شیخ الاسلامی آپ سے ملنے کے لیے آنا چاہتے ہیں، آپ سے دس منٹ کا کام ہے"۔ یہ سن کر والد صاحب کی حالت ایک دم بدل گئی۔ کہنے لگے بیٹا یہ کیا ہو رہا ہے؟ یہ کیا چاہتے ہیں؟ خدا خیر کرے، یقیناً انہوں نے کچھ سوچا ہے ورنہ وہ اس طرح بے یقینی کے حالات اور بنا کسی موضوع کے، ہم سے ملنے نہیں آ سکتے۔ مختصر یہ کہ جو بھی معاملہ تھا، وہ آ گئے اور دروازے پر دستک دی۔ میں نے دروازہ کھولا۔ ساواک گیلان کا سربراہ دروازے کے پیچھے کھڑا تھا، وہ ایک بہت ہی مغرور شخص تھا۔

وہ اوپر آیا اور جوتے اتارے بغیر کمرے میں داخل ہوکر فرش پر بیٹھ گیا۔ والد مرحوم اس کے دوسری طرف بیٹھ گئے۔ اس نے والد صاحب سے احوال پرسی کی اور کہا: "حضرت آیت اللہ آپ ہمیشہ شہنشاہ اور مملکتی نمائندوں کے منظور نظر رہے ہیں"۔ اس نے اپنی جیب میں ڈالا اور ایک بڑا موٹا سا لفافہ نکالا اور کہا: "حضرت آیت اللہ یہ آپ جناب کے لیے ہے"۔ کیونکہ والد مرحوم اندازہ کر چکے تھے کہ لفافے میں کیا رکھا ہے اور کس نیت سے رکھا ہے، تو بولے، "کرنل صاحب، بندہ کو اس رقم کی ضرورت نہیں ہے۔ اجازت دیں اور مجھے اس لفافے کو قبول کرنے سے درگزر فرمائیں"۔ کرنل نے کہا: "یہ ناممکن ہے۔ یہ جناب کا مال ہے۔ ہم بہت سے بزرگان کی خدمت میں گئے ہیں اور انہیں پیش کیا ہے، لہذاٰ یہ بھی آپکا ہی ہے"۔ آپ نے بہت اطمینان سے جواب دیا: "مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے"۔ کرنل نے کہا: "آپ اسے قبول کیجیے اور ضرورت مندوں کو بانٹ دیں"۔ والد مرحوم نے کہا: "مجھے ایسے لوگوں کا نہیں پتہ، جنہیں اس رقم کی ضرورت ہو"۔ خدا شاہد ہے، یہ سب میں نے خود دیکھا ہے۔ کرنل نے پھر اصرار کیا اور کہا: "نہیں؛ یہ لفافہ آپ کے اختیار میں ہے اور اس کے ساتھ آپ جو چاہیں کریں"۔ اچانک میرے والد نے رونا شروع کر دیا۔ ان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور وہ کہنے لگے: "میں درخواست کرتا ہوں کہ مجھےاس کام سے معاف کر دیں۔ مجھے اس رقم کی ضرورت نہیں ہے۔ برائے مہربانی مجھے معاف کر دیں"۔

اس نے احساس کیا، مزید نہیں! والد صاحب کی حالت خراب ہو رہی ہے۔ لہذاٰ اس نے مزید اصرار نہیں کیا کہ انکی حالت مزید بدتر نہ ہو جائے اور وہ اس بارے میں مزید پریشان نہ ہوں۔ کرنل نے دیکھ لیا تھا کہ یہ ضعیف شخص اپنے حال میں نہیں۔ بات یہاں تک پہنچ چکی تھی کہ ان کا سارا بدن لرز رہا تھا۔ اس نے لفافہ واپس جیب میں ڈال لیا اور بولا کوئی مسئلہ نہیں ہے، شکریہ ادا کیا اور جیسے آیا تھا، ویسے ہی چلا گیا۔ ہم نے دیکھا کہ والد کی طبیعت واقعاً ٹھیک نہیں ہے۔ میں گیا اور انہیں تھوڑا سا ٹھنڈا پانی لا کر دیا تاکہ انکے اوسان بحال ہوں۔ وہ کسی حد تک بہتر ہوئے اور کافی مشکل سے اس رات کی نماز پڑھانے گئے۔ وہاں پر بھی انہوں نے صرف نماز پڑھی اور جب واپس آئے تو کہنے لگے: "معلوم نہیں شہر میں کیا ہو رہا ہے؟ صورتحال بری طرح بگڑ گئی ہے۔ وہ خاموشی کا معاوضہ دیتے ہیں، تاکہ عوام اور دوسروں افراد کا منہ بند رہے۔ ایسا لگتا بھی ہے کہ انہیں اپنا مقصد حاصل ہو گیا ہے"۔ اس ملاقات کے ٹھیک دو دن بعد 15 خرداد کا واقعہ پیش آیا۔ چنانچہ وہ خدا کا شکر ادا کرتے تھے اور کہتے تھے: "میں نے ان شہداء (15 خرداد) کے خون کی قیمت نہیں لی"۔ اس زمانے میں "شہداء" کا لفظ بہت زیادہ اہمیت کا حامل تھا اور اس کا استعمال بہت بلند معنی رکھتا تھا۔ درحقیقت میرے والد کے اس کام کا مطلب اس جدوجہد اور تحریک کو قبول کرنا اور اس کے جواز کو تسلیم کرنا تھا، جس کی قیادت امام خمینی کے کندھوں پر تھی، ورنہ وہ شہید کا لفظ بھی ادا نہ کرتے اور اس رقم کو خاموش رہنے کا معاوضہ سمجھ کر قبول کر لیتے۔ اور اس وقت تک خاموش رہتے، جب تک حکومت وہ کچھ نہ کر لیتی، جو وہ چاہتی اور 15 خرداد کے سانحے کی طرح، ہر قسم کا جرم انجام دے لیتی ۔

اس واقعے کے بعد میرے والد ہمیشہ کہتے کہ اللہ کا شکر ہے کہ میں نے دو دن قبل، ان شہیدوں کا خون بہا نہیں لیا۔ اے خدا، میں تیرا شکرگزار ہوں کہ تو نے میری مدد کی اور تیرے اس درپیش امتحان سے سرخرو ہو کر باہر آیا۔ یہ صرف اللہ کی توفیق ہے۔ اس لیے ان کی ہمیشہ کی نصیحت یہ تھی کہ ہر کام میں اللہ پر بھروسہ رکھیں۔ خدا جس چیز کو محفوظ رکھنا چاہتا ہے، محفوظ رکھتا ہے، یہ میرے یا تمہارے ہاتھ میں نہیں۔ اب وہ میرے لیے جو چاہیں کیس بنائیں، جو چاہیں مرضی کریں، لیکن الحمدللہ، اللہ نے مجھے بچایا ہے اور وہی میری حفاظت بھی کرے گا۔

 

منبع: مرید روح‌الله، یادها 44، خاطرات حجت‌الاسلام والمسلمین سیدمحمدجواد پیشوایی، تهران، عروج، 1399، ص 73 - 75.

 

 


15khordad42.ir
 
صارفین کی تعداد: 1041



http://oral-history.ir/?page=post&id=11558