پاوہ شہر کے اہل سنت امام جمعہ ماموستا ملاقادر قادری کی یادداشتیں

ماموستا 5

میرے خاندان کا تعارف 3

مصنف: علی رستمی
ترجمہ: افشین زہرا
ویرائش: یوشع ظفر حیاتی

2023-11-03


میری والدہ سلمیٰ خاتون کا تعلق صوفی مسلک سے تھا وہ ایک متدین علاقے کی  خانقاہوں اور مشائخ سے عقیدت رکھنے والی اور حاجی شیخ صاحب مرحوم کے پاکیزہ اور شریف خاندان کی اولاد تھیں انہوں نے ہماری پرورش میں بہت زحمتیں اٹھائیں وہ عزت نفسکی مالکہ، آبرومند خاتون تھیں اسی وجہ سے ہماری پرورش میں آنے والی مشکلات کے حل کیلئے بھی کبھی کسی کے ہاتھ نہ پھیلایا اور نہ کوئی مدد مانگی وہ جب تک زندہ رہیں، قانع اور شاکرہ نظر آئیں۔ انہوں نےاپنی مشکلات کو ہمیشہ اپنے دل میں رکھا اور کبھی کسی سے ان کا اظہار نہ کیا اور کبھی کسی کے سامنے اپنی زندگی کی مشکلات کا شکوہ نہ کیا ۔

میں وہ دن وہ لمحے فراموش نہیں کر سکتا کہ وہ مجھے بچپن میں اپنے ساتھ مولانا مقصود صاحب کے مزار پر لے کر جاتی تھیں ان کی تزکیہ نفس پر بڑی توجہ تھی، اس سال انہوں نے منت مانی تھی کہ چالیس بدھ عصر کے وقت مولانا مقصود صاحب کے مزار پر جائیں گی مولانا مقصود کا مزار نوریاب کے ساتھ پاوہ کے نزدیک ایک پہاڑ پر واقع تھا۔ میں بھی اپنے قدم ان کے ساتھ ملا کر ایک گھنٹے کا با مشقت پیدل سفر کر کے ، اس پہاڑ کے اوپر بنے اس مزار پر ان کے ساتھ پہنچتا تھا۔ تھکن سے چور جسم کے ساتھ ان کے ساتھ بیٹھا ان کو گھنٹوں مناجات کرتا دیکھتا رہتا تھا ایک دن جبکہ ہماری ۳۷ سینتیسویں بدھ، تھی اور وہاں حاضری دینی تھی مگرایسی شدید برفباری ہوئی کہ نوریاب اور پاوہ کے سارے پہاڑ اس میں ڈھک گئے اور راستے اس طرح مسدود ہو گئے کہ کوئی بھی گھر سے باہر پاؤں تک نہ نکال سکا، اس عالم میں یہ تصور بھی محال تھا کہ کوئی اس طویل راستے کو طے کرے اور پھر  پہاڑ  پر چڑھے اور اس برفیلے پہاڑ کے اوپر مولانا مقصود کے مقبرےپر حاضری دے میں نے دیکھا میری والدہ بہت افسردہ ہو گئیں حاضری دینے سے قاصر ہونے کی بے چینی ان کے چہرے پرصاف عیاں تھی اور وہ بہت پریشان تھیں، اس طوفانی برف باری نے میری والدہ کے ان چالیس  بدھوں کی منت اور مناجات میں رخنہ ڈال دیا تھا اور ان کا وہ سلسلہ اس دن نہ جانے کی وجہ سے ٹوٹ گیا تھا مجھے نہیں معلوم انہوں نے کس کام کے لئے وہ منت مانی تھی مگر مجھے یاد ہے کہ اگلے سال کے پہلے مہینے کے اختتام سے ہی انہوں نے دوبارہ اس چالیس روزه زیارت کی منت کو دوبارہ  شروع کیا اور چالیس بدھ، عصر کے وقت مولانا مقصود کے مزار کی زیارت کی منت کو پورا کرنے میں کامیاب بھی ہو گئیں. میں ان چالیس بدھوں اور پچھلے چھتیس ۳۶ بدھوں میں، قدم بہ قدم اپنی والدہ کے ساتھ تھا اور اس کام میں ان کا مدد گار تھا ، اس وقت میں ایک دو سالہ بچہ تھا اور مجھے بالکل معلوم نہ تھا کہ کس دینی روایت اور سند کے مطابق مولانا / ملا مقصود کے مزار کی زیارت چالیس بدھوں کو اس طرح انجام  دنیا کتنا اجرو ثواب رکھتا ہے اور یہ روایت کہاں ہے۔ مگر حکم، حکمِ مادر تھا اور اطاعت مجھ پرواجب ! ۔

یہ میرے اسکول جانے سے پہلے کا زمانہ تھا، اپنے والد سے متعلق دھندلے سے تصورات کےعلاوہ جو ایام مجھے اچھی طرح یاد ہیں انہیں سے ایک نور یاب میں ہونے والی فائرنگ کی آوازیں ہیں جو رات میں سنائی دیتی تھیں۔ یہ وہ دن تھے جب محمد رضا شاہ کی حکومت ان قبیلوں کے سرداروں کے تعقب میں تھی جو حکومت مخالف تھے اور ان میں سے اکثر اپنی جان کی حفاظت کی خاطر عراق میں اپنے خاندانی قبیلوں کے پاس آکر روپوش ہو گئے تھے۔ انہی مطلوب افراد میں سے ایک شخص نور یاب گاؤں کا حاکم "نیازی بیگ لہونی"بھی تھا، جس نے اپنی بیوی کو نوریاب میں چھوڑا ہوا تھا جبکہ خود اپنے مسلح لوگوں اور گوریلاز کے ہمراہ عراق بھاگ گیا تھا، کچھ مسلح افراد اپنے سردار کی بیوی کو لینے عراق سے نوریاب آتے ہیں یہ وہ رات تھی جس رات سارے نوریاب کے لوگ وحشت اور دہشت سے ساری رات جاگتے رہے تھے. ہر شخص نے وہ رات جاگ کر ہی گزاری تھی۔ میری عمر اسوقت تقریباً سات سال تھی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے جب آدھی رات کو گولیوں کی بوچھاڑ نے پہاڑوں سے ٹکرا کر اپنی شدت کو کئی گنا بڑھا لیا تھا، انہیں گولیوں کی گونج اور گرج نے مجھے ایک دم نیند سے بیدار کر دیا تھا۔ میں نے اپنی والدہ کے چہرے پر وحشت اور خوف کے آثار دیکھے تھے جو کہ اس رات تمام گاؤں والوں کے چہروں پر بھی نمایاں تھے۔ سب گاؤں والے اپنی چھتوں سے نیازی بیگ کے بھیجے ہوئے کارندوں کی فاتحانہ فائرنگ کے شاہد تھے۔ ابھی یہ فائرنگ جاری تھی کہ پاوہ سے ادارہِ امنیت کے اہلکار نوریاب پہنچ گئے اور پھر ان کی آپس میں جھڑ ہیں شروع ہو گئیں۔ اس رات، صبح ہونے  تک تمام گاؤں والے اس پورے معاملے میں شک و تردد کا شکار تھے وہ صبح تک حکومتی اہلکاروں کے آنے اور اس پورے خوفناک ماحول کو ایجاد کرنے میں مشکوک تھے کسی کو بھی کچھ سمجھ نہیں   آرہا تھا ہر طرف خوف اور دہشت اور گولیوں کی بوچھاڑ اور گونج تھی۔ میرے خیال میں اسرات کے گاؤں کے اکثر لوگ میرے اور میری والدہ کی طرح صبح تک خوف اور دہشت سے جاگتے رہے ہوں گے ہم نے پوری رات پلک تک نہ جھپکی کیونکہ گولیوں کی ایسی آوازیں جو کانوں کے پردے پھاڑ کر انسان کو بہرا کر دینے والی تھیں ہم نے اس سے پہلے کبھی نہ سنی تھیں۔

رات گئے تک نوریاب کے سب لوگ اپنی چھتوں اور کھڑکیوں کے جھروکوں سے جھانکتے رہے تاکہ حکومتی اہلکاروں اور اُن کرد گوریلوں کے اس مقابلے کی حقیقت سے آگاہ ہو سکیں اور حالات کی نزاکت کا اندازہ کر سکیں، مگر کچھ سمجھ نہ آیا تھا۔

نیازی بیگ کے گوریلوں اور کارندوں کی فائرنگ، دراصل ایک قسم کی چال تھی جو انہوں نے حکومتی اہلکاروں کی توجہ ہٹانے اور ان کو دوسری جانب مشغول کرنے کیلئے چلی تھی تاکہ اسطرح وہ آرام سے اپنے سردار کی بیوی کو گاؤں سے باحفاظت نکال سکیں جس میں وہ کامیاب بھی ہو گئے۔ انہوں نے اپنی فائرنگ سے اپنی وحشت رعب ودبدبہ قائم کر دیا کہ حکومتی اہلکار ان کے قریب ہی نہ جاسکے اور نیازی بیگ لہونی کی زوجہ "زیبا" جو اپنے والد احمد ولد بیگی صاحب کے گھر سے جو ہمارے پڑوس ہی میں تھا باحفاظت اور حکومتی اہلکاروں کے نور یاب  آنے سے پہلے گاؤں سے جا چکی تھی۔


 



 
صارفین کی تعداد: 1027



http://oral-history.ir/?page=post&id=11538