گوہرشاد مسجد میں کیا ہوا؟

ترجمہ: محب رضا

2023-10-28


1343 میں امام کو ترکی جلاوطن کر دینے کے بعد ہم، قم میں حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کے روضہ مبارک میں موجود مسجد میں، امام کی رہائی کے لیے محفل منعقد کرتے تھے اور وہاں دعائے توسل پڑھتے تھے۔ ان محافل میں ہم دعائے توسل پڑھنے کے بعد امام کی واپسی کے لیے دعا کرتے تھے۔ یہ سلسلہ اگلے سال کے موسم گرما تک جاری رہا۔ موسم گرما میں مدرسہ کی چھٹیاں ہو گئیں اور قم کے طلباء مشہد آ گئے۔ مشہد میں بھی ہم نے سوچا کہ امام کی صحت یابی اور ان کی واپسی کے لیے دعائیہ نشست منعقد کریں۔ چنانچہ ہم نے، مشہد و قم کے چند طلباء کے ساتھ پروگرام بنایا کہ حرم میں واقع دارالسیادہ ہال میں، ہر رات مغرب اور عشاء کی نماز کے بعد، ایک شخص اٹھ کر دعائے توسل پڑھے گا اور جب وہ حضرت امام موسیٰ بن جعفر علیہ السلام کے نام پر پہنچے گا، مصائب پڑھے گا اور پھر امام کی جلاوطنی کے مسائل بیان کرکے انکے لوٹنے کی دعا مانگے گا۔ یہ محفل چند راتوں تک جاری رہی اور پھر مشہد کی ساواک نے مداخلت کر دی۔ ایک رات، امام رضا علیہ السلام کے حرم کے عملے نے، پہلے سے رکھی لاٹھیوں کی مدد سے، ہم پر حملہ کر دیا اور تقریباً ہم سب کو مار مار کر بے حال کر دیا۔

اگلی رات ہم نے گوہرشاد مسجد کے جنوبی دروازے کی جانب دعائے توسل کی محفل سجائی۔ جتنے دن ہم دعا پڑھتے رہے، دعا پڑھنے والوں کو ایک ایک کرکے گرفتار کرتے رہے۔ مشہد اور قم کے طلاب اور دوستوں کی بڑی تعداد کو گرفتار کیا گیا۔ آخرکار، آخری رات میں خود دعا پڑھنے آگے بڑھا اور اسکے بعد گفتگو شروع کی اور امام کی صحت کے لیے دعا کی، مجمع نے بھی آمین کہا۔ اس رات ہنگامہ آرائی ہوئی اور جو لوگ محفل میں شریک تھے ان سب کی شناخت کر کے انکو گرفتار کر لیا گیا۔ میں بھی گرفتار ہوا اور دوسروں کے ساتھ جیل چلا گیا۔ جن افرادکو گرفتار کیا گیا تھا ان میں جناب ہادی خامنہ ای، جناب علی عجم، جناب عظیمی اور جناب موَیدی (جو قم کے حوزہ کے اساتذہ میں سے ہیں) شامل تھے۔ بہرالحال ہم سب ایک ماہ تک مشہد کے جیل میں بند رہے۔

جیل سے رہا ہونے کے بعد میں سمنان شہر آیا۔ سمنان میں، میں نے ایک جلسے میں تقریر کی، جہاں ایک بڑا ہجوم موجود تھا۔ میں نے امام سے متعلق مسائل، ان کی جلاوطنی، انقلاب کے راستے میں پیش آنے والی مشکلات اور سیاسی مسائل پر گفتگو کی۔ مجھے سمنان میں بھی گرفتار کر لیا گیا اور میں کچھ عرصہ جیل میں رہا۔ پھر مرحوم آیت اللہ سمنانی، علامہ حائری، اور علامہ لنکرانی کی کوششوں سے جیل سے رہائی ملی۔

جیل سے رہا ہونے کے بعد بھی میں مشہد بھی نہ جا سکا، کیونکہ میرا پیچھا کیا جا رہا تھا۔ چنانچہ میں نے حضرت امام کی زیارت کے لیے نجف جانے کا فیصلہ کیا۔

منبع: دهه پنجاه: خاطرات حسن حسن‌زاده کاشمری، علی خاتمی، محمدکاظم شکری، تدوین: فرامرز شعاع حسینی، تهران،‌ مؤسسه تنظیم و نشر آثار امام خمینی(ره)، عروج، 1387، ص 14 - 16.

 

 


15khordad42.ir
 
صارفین کی تعداد: 360



http://oral-history.ir/?page=post&id=11524