ماموستا 1
مقدمہ: پہلا حصہمصنف: علی رستمی
ترجمہ: افشین زہرا
ویرائش: یوشع ظفر حیاتی
2023-10-23
کتاب "ماموستا" اسلامی جمہوریہ ایران کے صوبہ کردستان کے شہر پاوہ کے با اخلاص، مجاہد، عالم با عمل ماموستا ملا قادر قادری کی یادداشتیں ہیں جنہیں ایران کے معروف مصنف علی رستمی نے ماموستا ملا قادر قادری سے کئی نشستوں میں گفتگو کے بعد مرتب کیا اور اسے کتابی شکل دی ہے۔ کتاب ہذا ایران میں فارسی زبان میں چھپ چکی ہے جسے قارئین کی جانب سے بھرپور پذیرائی ملی ہے۔ ہم اب اس کتاب کو اپنے اردو زبان قارئین کے لئے قسط وار شائع کررہے ہیں۔ اس کی پہلی قسط پیش خدمت ہے:
مقدمہ: (پہلا حصہ)
زندگی میں پہلی بار خاندان کے کسی فرد کے بغیر، جو سفر تنہا میں نے کیا وہ مریوان کی سرحد کی جانب تھا، جیسے ہی جنگ شروع ہوئی میں نے فوراً مختصر دورانیے کے کورسز اور ٹرینگ کے ذریعے کچھ بندوقوں کو چلانا سیکھ کر جنگی محاذ پر جانے کیلئے اپنی آمادگی کا اعلان کر دیا ، اعلان ِآمادگی سے بڑھ کر میرا بار بار اصرار کرنا کہ جس کو یہاں بیان کرنے سے قاصر ہوں باعث بنا کہ بسیجیوں ( نوجوان رضاکار فورس) کے مسئول برادر حسین گلزار عطا نے مجھ سے وعدہ کیا کہ خرداد مہینے کے امتحانات کے ختم ہوتے ہی فوراً مجھے محاذ پر بھیج دیں گے اور اُس محاذ پر جانے کا سفر ہی میری زندگی کا پہلا سفر تھا وہ بھی بعثی جارحیت پسندوں سے مقابلے کیلئے ۔ ہم کرمانشاہ اور سنندج شہروں کو عبور کرتے ہوئے مریوان پہنچے ۔ اس سفر میں ستائیس (۲۷) لوگ تھے جن میں سے پانچ افراد کے علاوہ باقی ہم سب اسد آباد شہر کے ہائی اسکول سید جمال الدین و طالقانی کے طالب علم تھے ۔اجنبی راستوں پر دشوار مگر یاد گار سفر تھا کہ جس کے تین ماہ بعد ہی میں نے اپنے اندر رُشد اور بزرگی کو محسوس کیا۔
بچپن سے ہی بڑوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا یا ہر اس چیز کے قریب جانا ، جسکے قریب جانے سے مجھے منع کیا جاتا تھا دراصل کیوں؟ اس کا جواب ڈھونڈنے کےتجسس کی وجہ سے تھا جو میری طبعیت کا حصّہ تھی۔ اس سفر کے شروع کے چند گھنٹوں میں ہی کمانڈروں نے شہر کردستان کی حساسیت اور پچھلے ایک دو سالوں میں یہاں ہونے والے حادثات و واقعات ہمیں مکمل طور پر سمجھا دئیے تھے اور یہ بھی کہ مریوان ہمارے لئے ایک عبوری راستہ ہے تاکہ ہم سرحد تک خود کو پہنچا سکیں، گرچہ اس راستے میں ہمارے لئے کئی مشکلات آئیں گی مگر یاد رہے کہ ہمارا اصلی دشمن وہاں ہے.
مریوان ویران اور جنگ زدہ شہر تھا جہاں کے اکثر لوگ مسلح تھے اور کردی یا قومی ملبوسات میں نظر آ رہے تھے جن کے سینوں پر کارتوسوں سے لدے پٹوں نے ان کے قدو قامت کو اور بلند کر دیا تھا ان میں سے کچھ کے چہرے اتنے کرخت اور خطر ناک تھے جیسے میں نے سینما کی فلموں میں منفی کردار کرنے والے لوگوں کے یا ولن کے دیکھے تھےاور اسی طرح ان کے قہقے بھی زور دار اور بلند تھے کہ میں نے اپنے کچھ دوستوں سے کہا " ہمیں ان کی ظاہری مہر بانی اورہنسی کے دھوکے میں نہیں آنا چاہئیے کیونکہ ان میں سے کافی وہی لوگ ہیں جو کچھ دن پہلے ہم سے بھی جنگ کر رہے تھے آج توبہ کر کے تواب تو بن گئے ہیں مگر ابھی بھی شہر کے امان نامے کے حوالے سے شک و تردد کا شکار ہیں"۔مجھے کتنا اشتیاق تھا کہ ان میں سے کسی ایک کے ساتھ دوستی کرتا، ان کے ساتھ جنہوں نےابھی کچھ دن پہلے ہی امان نامہ لیا ہے اور اب یہ بندوق اٹھا کر اپنی سرحد اور اپنے شہر کا دفاع کر رہے ہیں۔
بیس سے باہر جانے کی ممانعت کے باوجود ، مریوان میں پہلے ہی روز دوپہر کے کھانے سے فارغ ہوتے ہی میں نے کارتوس حمائل کئے اور کلاشنکوف اٹھائی اور شہر کے گشت پر نکل گیا وہ چند گھنٹے میرے لئے انتہائی لذت بخش تھے ! کیونکہ میرے لئے یہ پہلی بار تھا کہ میں کرمانشاہی زبان میں بات کر رہا تھا وہ بھی مریوان کے ایک کرد سے ، اور وہ بھی پوری کوشش کر رہا تھا کہ مجھے سے کرمانشاہی زبان میں بات کرے تاکہ اسکا ساتھ مجھے اچھا لگے ان چند گھنٹوں میں ،میں نے صرف خوبصورتی کو دیکھا ایسی خوبصورتی جو میرے ذہن میں نقش ہو گئی ۔ اللہ رب العزت کی خوبصورت مخلوقات کی خوبصورتی کومیں نے اپنے ہم وطنوں اور ہم مذہب لوگوں کے انداز برتاؤ ،اور سلوک میں مشاہدہ کیا۔
مغرب ہوئی تو میں ایک چھوٹی مسجد میں گیا جس کا نام مسجد اویس قرنی تھا۔ اپنے اسلحے اور کار توس کو دیوار کے ساتھ رکھا اور لالٹین اٹھائی تا کہ سجدہ گاہ تلاش کر سکوں ۔ اس تاریکی میں ایک نمازی نے بہت محبت و شفقت سے مجھ سے کہا "ہم سجدہ گاہ پر سجدہ نہیں کرتے ہیں، اگر سجدہ گاہ تلاش کرنی ہے تو مسجد کے باہر سے کوئی پتھرتلاش کر کے لاؤ اور اس پر سجدہ کر لو "!
میں نے ٹیلیوژن (ٹی وی) پر بار ہا اہل سنت حضرات کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تھا مگر اس رات میں نے پہلی دفعہ مسلمانوں کے اس گروہ کو اتنے قریب سے دیکھا جو سب ہاتھ باندھ کر نماز پڑھ رہے تھے ۔ میں نے اپنی نماز کو تیزی سے پڑھا اور وہاں سے نکل کر خود کو اپنے پریشان اور منتظر دوستوں تک پہنچایا۔ اس بات پر یقین کرنا سب کیلئے بہت دشوار اور مشکل تھا کہ غروب آفتاب کے ایک گھنٹے بعد اس اندھیرے ویران شہر میں کوئی کس طرح خود کو صحیح سالم مریوان شہر کے مرکز سےشب رنگ چوک تک پہنچا سکتا ہے۔ میرے بہت سے دوستوں اور ہمارے گروپ کے حکام (مسئولین) کی ڈانٹ ڈپٹ میرے اوپر بے اثر رہی حالا نکہ ان میں سے بہت سے میرے اچھے دوست تھے اور دوستی کی مٹھاس اور شیریں احساس پر یقین رکھتے تھے مگر وہ سب ضدِ انقلابی دشمنوں سے گھرے اس شہر میں اپنے دوستوں سے اس طرح میرے دُور ہو جانے کو بے نظمی، پریشانی کا سبب اور عقل و فہم سے عاری حرکت مان رہے تھے۔
مقامی لوگ ، جنگی صفوں میں شامل ہو کر نا قابل ِبیان بہادری کے جوہردکھا کر ایک بالکل الگ تاریخ رقم کر رہے تھے وہ نہایت سچائی و ایمانداری سےسپاہیوں کے ساتھ ان کے شانہ بشانہ نبرد آزما تھے ایسے سپاہی جو ملک کے گوشے گوشے سے ان بعثی جارحیت پسندوں سےسے لڑنے کیلئے مریوان کی سرحد پر پہنچےتھے ، ملٹری کے ان جوانوں کا تعارف بس اتنا تھا کہ وہ سادہ لوح ، اورقانع تھے یہ وہ لوگ تھے جن کے جسموں پر علاقائی اور قومی لباس موجود تھا وہ لباس جو شاید ان کے پرکھوں سے ان تک پہنچا تھا اور سنیوں میں بے لوث جذبہ تھا ۔ یہ وہ کردار تھے جو نہ تو کبھی کسی فلم کی زینت بنے اور نہ کبھی کسی نے ان کرداروں پر قلم اٹھایا مگر میری دور رس نگاہوں نے ان کو دیکھ لیا ۔
محاذ جنگ پر میرے پہلے معر کے کے وقت، میں سترہ سال کا ایک طالب علم تھا جبکہ میرے ساتھ ، احمد متوسلیان، حسین قجہ ای، رضا چراغی جیسے عظیم لوگ موجود تھے۔ ان تا بہ فلک بلند کرداروں اورامانات کے مضبوط پہاڑوں جیسے بلند حوصلہ افراد کے درمیان مجھے اپنا وجود بہت چھوٹا محسوس ہوتا تھا ۔ ان مہاجروں اور مجاہدوں کے علاوہ میرے پاس جنگ ، بہادری جدو جہد سے بھرپور مشاہدات اور یادوں کے ایسے بیش بہا قیمتی خزانے ہیں، جن کو مقامی گوریلا زاورکرد مسلمان مقامی جنگجوؤں کی صورت میں، میں نے دیکھا اور یادوں کی صورت میں اپنے ذہن میں محفوظ کرلیا۔
مقامی کرد مسلمان وہ جنگجو لوگ تھے جو دنیا کو چھوڑ کر مورچوں میں ہمارے ساتھ دشمن کیلئے گھات لگائے بیٹھے تھے یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے دنیا کو خیر باد کہہ دیا تھا ان میں جلال بارنامہ اور عثمان فرشتہ جیسے لوگ تھے جن کا ہم و غم اور عشق صرف اور صرف اپنے وطن اور انقلاب کا دفاع کرنا تھا، میں نے ان سب کو اپنے ذہن میں محفوظ کر لیا تھا۔
ان تمام چیزوں نے ایک گہرا اثر مجھ پر چھوڑا تھا گویا میرے لئے یہ سب بہت اہم ہو گیا ہو. اتنا اہم کہ میرا سب کچھ میرا ہم و غم یہی احساس تھا اور یہ احساس دن بہ دن سال بہ سال گہرا ہوتا گیا۔
جنگ کے ختم ہوتے ہی میں نے قلم اٹھایا اور اپنے ان احساسات و اضطراب کو لفظوں میں ڈھالنا شروع کر دیا کبھی یہ احساس لفظوں میں ڈھلا تو اشعار کی صورت میں نظر آیا توکبھی کسی کی زندگی کا عکس اسکے سوانح حیات کی صورت میں نظر آیا۔ کبھی کہانی کبھی داستان اور کبھی زبانی تاریخ بن کر سامنے آیا ، لیکن پھر بھی تشنگی گویا باقی رہی وہ احساس اب بھی میرے اندر ہی بسا تھا ، جس تک پہنچنے میں ایک رکاوٹ میرا اس مضمون سے دور ہوناتھا ، بہت سارے مضامین ، عنوانات کو میں نے ایک ساتھ ہی شروع کر دیا تھا جو میرے اصلی موضوع تک پہنچنے میں مانع بھی تھے اور میرے کام کو مشکل بھی بنا رہے تھے ان ہی کی وجہ سے میرے قلم کی رفتار سست اور طاقت کم ہو رہی تھی-
وہ احساس جو مجھے بے چین مضطرب کئے ہوئے تھا جسکے بغیر یہ سب مضامین پھیکے تھے اور جو میرا ہم و غم تھا وہ ایک کتاب "کردستان" کے بارے میں لکھنا تھا ایک ایسی کتاب جس میں اس قوم کی تہذیب و ثقافت، جغرافیہ، تاریخ کی عکاسی کروں جس سے دنیا آج تک بے خبر اور ناآشنا ہے ہمارے مسلمان بہن بھائی جو ہمارے ہمسائے ہیں ہماری خوشی ہمارے غم میں شریک ہیں مگر شاید اتنے زیادہ نزدیک ہیں کہ ہمیں وہ بہت کم محسوس ہوتے ہیں اورکم ہی نظر آتے ہیں یہ میرے دل کی خواہش مجھے مضطرب کر دینے والا وہ احساس تھا جس کے باعث میں نے ایک ایسے سچے راوی کی تلاش شروع کی جو میری اس مشکل کو حل کر سکے میرے اس راستے کی رکاوٹوں کو دور کرے راستہ ہموار کر سکے اور جو میرے بعد ایک ایسا مصنف اور لکھاری ہو سکے جو اس قوم ِکہن کا راوی بن سکے ۔
میں اپنی پوری عمر میں بالخصوص اپنی تصنیفات کے دوران اپنے بہت سے ہم وطن کردوں سے ملا ہوں اور بہت سوں سے انٹرویوز لئے ہیں اور انہی میں سے کچھ چہروں کے بارے میں چاہتا تھا کہ لکھوں مگر پھر ایکدم اورامانات میں بچپنے کے ایام گزارنے والی ،اپنی نوجوانی طلبگی میں گزارنے والی، شجاع ،مجاہد، بہترین و جامع شخصیت، ملا قادر نے میری توجہ اپنی جانب مبذول کروالی اور میں بغیر اسکے کہ کسی تنظیم سے اپنی کتاب کے بارے میں بات کرتا یا کسی سے مشورہ کرتا، پاوہ کی جانب چل پڑا اور اُن سے ملاقات کی۔
صارفین کی تعداد: 1046
http://oral-history.ir/?page=post&id=11512