انزلی اور رشت میں اعلامیے کیسے تقسیم کیے گئے

ترجمہ: محب رضا

2023-10-11


ان دنوں میں، جب امام خمینی نجف میں تھے، ہماری رسائی امام تک نہیں تھی۔ دوسری طرف ہمیں یہ توقع بھی تھی کہ امام کے پیغامات اور احکامات کسی نہ کسی طرح ہم تک پہنچ جائیں اور ہم کسی بھی طرح تحریک اور انقلابی سوچ سے جڑے رہیں۔ اسی وجہ سے، ہم اعلامیے وصول کرنے اور انہیں تقسیم کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہے تھے۔

میں مسلسل، امام کی رہائش گاہ اور وہاں موجود لوگوں جیسے مرحوم آقا پسندیدہ، مرحوم آقا اشراقی، مرحوم خادمی، جناب گرامی، جناب ربانی شیرازی، جناب ربانی املشی اور وہاں موجود دیگر ذمہ داران کے ساتھ مستقل رابطے میں تھا اور ان سے خبریں، معلومات اور احوال پوچھ رہا تھا۔ ان حضرات کے ذریعے ہم تک اعلامیہ پہنچ رہے تھے، اور ہم انہیں مختلف مستعار ناموں کے ساتھ، ڈاک کے ذریعے آگے روانہ کر دیتے تھے یا میں خود انہیں لے جاتا تھا۔ بعض اوقات ہم آئے ہوئے مسافروں کے سامان کے ہمراہ یہ اعلامیے روانہ کر دیتے اور انہیں انزلی کی بندرگاہ یا حتیٰ رشت تک بھیج دیتے۔ یہ اعلانات بعض عزیز دوست قم میں چھاپتے تھے، اسکے علاوہ کچھ ضبط شدہ تقاریر ہمیں ملتی تھیں تاکہ ہم انہیں لکھنے کے بعد، چھاپ کر لوگوں تک پہنچا سکیں۔ ہمارے پاس انکی کاپیاں کرنے کی بھی کچھ خاص دیسی ترکیبیں تھیں۔ ہم ان سے اصلی ٹیپ لے کر شہیدان واحدی کے بھائی "سیدجواد واحدی" کے حوالے کر دیتے تھے، جو شہید نواب صفوی کے ہمراہ فدائیانِ اسلام گروہ کے شہداء میں سے تھے۔ ان کے پاس ایک ٹیپ ریکارڈر تھا۔ ان کے ٹیپ ریکارڈر کی مدد سے ہم امام کی تقاریر کی آڈیو ریکارڈنگز کی کاپیاں تیار کرتے تھے یا انہیں لکھتے تھے۔ اس وقت ٹیپ ریکارڈر ممنوعہ اشیاء میں شامل تھا۔ جیسے، جب ہم آیت اللہ اعتمادی اور جناب فاضل لنکرانی کے دروس میں جاتے تھے تو سید جواد درس ریکارڈ کرنے کے بہانے ٹیپ ریکارڈر اپنے ساتھ لے آتے تھے۔ لیکن اصل میں، درس کے دوران، ٹیپس کی نقلیں تیار کرتے تھے۔ ہم ان طریقوں سے یہ ممکن کر سکے کہ اعلامیوں اور تقریروں کی نقلیں تیار کرکے شائع کر پائیں۔

محرم اور صفر کے دنوں میں ہماری پوری توجہ ہوتی تھی کہ تقریروں میں اس انداز کی گفتگو ہو کہ لوگ حقیقت سے آگاہ ہو سکیں۔ ہمارے اشارے اور کنایوں کو لوگ سمجھ جاتے تھے کہ ہم کیا کہنا چاہتے ہیں۔ بندرگاہ انزلی میں، جس بڑے مجمع کے سامنے ہم منبر پر بیٹھتے تھے، بہت سے لوگوں کو ہم سے توقع ہوتی تھی۔ خاص طور پر عشرہ محرم کی مجالس کے سلسلے کی ایک مجلس میں ایجنسی کا صحافی بھی شریک ہوتا تھا۔ خدا اس پر رحم کرے اور اس کی کوتاہیوں کو معاف کرے، ایک رات اس نے مجھ سے کہا: آقا جب آپ منبر پر تشریف لے جائیں تو شاہ کے لیے بھی  دعا کیجئے گا۔ میں نے کہا: میری دعائیں قبول نہیں ہوتیں۔ اس نے کہا: بالآخر آپکے والد کا مقام آپ سے تقاضا کرتا ہے کہ یہ کام انجام دیں۔ میں نے کہا کہ اگر میرے والد [آیت اللہ سیدابواطالب، امام جمعہ انزلی ] کا مقام یہ تقاضا کرتا ہے تو انہیں خود دعا کرنا چاہیے! وہ یہ دعا کیوں نہیں کرتے؟ حتیٰ وہ نماز جمعہ میں بھی ایسا نہیں کرتے۔ یہ حقیقت تھی کہ کچھ لوگ ان سے تنقیدی انداز میں یا کنایتاً سوال کرتے تھے کہ جناب عالی آپ اعلیٰ حضرت کے لیے دعا کیوں نہیں کرتے؟ ہمارے والد بڑی عقلمندی سے جواب دیتے تھے کہ دعا کے قبول ہونے کے خاص اوقات ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر افضل اوقات میں سے ایک وقت نماز شب کاوقت ہے۔ آدھی رات کے خاص اوقات ہوتے ہیں جو دعاؤں کی قبولیت کے لیے مناسب ہیں۔ دراصل سب کے سامنے ایسا دکھاوا کرنے سے اخلاص سلب ہو جاتا ہے! خدا ان پر اپنی رحمت نازل کرے، وہ اپنی ان باتوں اور نکتوں  سے اپنے آپ کو بچا لیتے تھے۔

 

 

منبع: مرید روح‌الله، یادها 44، خاطرات حجت‌الاسلام والمسلمین سیدمحمدجواد پیشوایی، تهران: عروج، 1399، ص 86 – 87

 

 


15khordad42.ir
 
صارفین کی تعداد: 1772



http://oral-history.ir/?page=post&id=11487