محاصرے کے باوجود محروم افراد کی امداد

ترجمہ: محب رضا

2023-08-17


اس زمانے میں جب امام قید تنہائی میں تھے اور پھر انہیں قیطریہ میں واقع ایک گھر میں منتقل کر دیا گیا، کچھ دوست جو اس واقعے کے بارے میں جانتے تھے، پہلے کچھ دنوں تک ان سے ملاقات کرنے میں کامیاب رہے، لیکن پھر آہستہ آہستہ پابندیاں لگ گئیں اور ہم اس کے بعد امام سے ملاقات نہیں کر پائے۔ واحد شخص جن کو قانونی طور پر ان سے ملاقات کی اجازت دی گئی تھی، وہ مرحوم آیت اللہ سید صادق لواسانی تھے کہ جن کے ذریعے ہم سب امام کی خیریت سے آگاہ رہتے تھے۔

جب رمضان کا مہینہ شروع ہوا، تو آذربائیجان میں سخت سردی تھی اور آذربائیجان کے مظلوم لوگوں کو مدد کی شدید ضرورت درپیش تھی۔ اسی دوران تبریز کے چند علماء کو بھی گرفتار کر لیا گیا، جن میں مرحوم آیت اللہ قاضی، مرحوم آیت اللہ سیداحمد خسروشاہی، جناب دروازہ ای، جناب انزابی اور مرحوم جناب ناصر زادہ شامل تھے۔ یہ افراد، جو احتجاج کرنے والوں میں پیش پیش تھے، تہران منتقل کر دیئے گئے۔ میں [حجۃ الاسلام والمسلمین سیدہادی خسروشاہی]، جناب لواسانی سے ملنے گیا تاکہ آذربائیجان کے ضرورت مندوں کو مدد پہنچانے کا کوئی راستہ تلاش کر سکوں۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ امام سے مدد کا تقاضہ کریں۔ انہوں نے کہا: "آپ امام کو خط لکھیں تاکہ میں اسے، ان کی خدمت میں لے جاؤں!" میں نے آذربائیجان کے لوگوں کی جانب سے امام کو خط لکھا اور جناب لواسانی خط، امام کے پاس لے گئے۔ امام نے  بھی ان کے توسط سے یہ جواب دیا:"افسوس کے ساتھ، میری صورتحال ایسی نہیں کہ براہ راست کوئی مدد کرسکوں۔ مجھے امید ہے کہ عوام جتنی امداد کر سکتے ہیں، حتی سہم امام کی صورت میں بھی، تبریز کے بعض علماء کی نگرانی میں آذربائیجان کے ضرورت مندوں کی مدد کریں گے۔"

پھر میں تبریز گیا اور امام کا خط اپنے ساتھ لے گیا۔ وہاں ہم نے کچھ علماء کو آیت اللہ مجتہدی کے گھر میں جمع کیا اور لوگوں کی مدد کے لیے ایک وفد تشکیل دیا گیا۔

خوش قسمتی سے، اس سال بہت عطیات اکٹھے ہوئے اور سب کچھ خیریت سے گزر گیا۔ اگرچہ اس وقت، حتیٰ امام کا نام لینا بھی خطرناک ہو سکتا تھا، میں نے امام کا خط، مشہد سے آیت اللہ میلانی کے بھیجے گئے جواب کے ساتھ اعلامیہ کی صورت چھاپ کر شائع کر دیا۔ اعلان کے سب سے اوپر ہم نے لکھا: "حضرت آیت اللہ العظمی خمینی"۔

یہ اعلان تبریز کے "مھد آزادی" نامی پرنٹنگ ہاؤس میں چھپا، جس کا مالک میرے دوستوں میں سے ایک تھا، اسی وجہ سے مجھے چند دن بعد تبریز میں حکومت کے ایجنٹوں نے گرفتار کر لیا۔ تیسمار مہرداد، جو ساواک اور پولیس دونوں کا سربراہ تھا، نے فیصلہ کیا کہ مجھے ارومیہ میں واقع "قوشچی" فوجی یونٹ میں بھیج دیا جائے! کیونکہ یہ میرا فوج میں خدمت دینے کا وقت تھا اور وہ ایک تیر سے دو شکار کرنا چاہتا تھا۔ سزا بھی دینا چاہتا تھا اور کم از کم دو سال کے لیے مجھ سے چھٹکارا بھی مل جاتا! بہرالحال علماء اور آیت اللہ مجتہدی کی کوششوں سے مجھے وہاں نہیں بھیجا گیا۔ تیمسار مہرداد نے مجھ سے کہا: "اب تمہیں حق نہیں ہے کہ تبریز آوَ!" میں نے کہا: "میرے تمام گھر والے اور میرے بھائی یہاں ہیں، مجھے گرمیوں میں ہر حال میں تبریز آنا ہوتا ہے!" اس نے کہا: "تمہیں کوئی حق نہیں ہے، تم قم جاوَ اور حتیٰ تمہیں گرمیوں میں تبریز آنے کی اجازت نہیں!"

میں نے کہا: "میں گرمیوں میں پھر کہاں جا سکتا ہوں؟! میرا شہر تبریز ہے!" اس نے کہا: "کسی بھی جہنم میں جاؤ، لیکن تبریز نہیں!" مجھے ناچار قم واپس آنا پڑا۔

سردیاں گزر گئیں اور ابھی موسم گرما نہیں آیا تھا کہ تیمسار مہرداد کو شیراز منتقل کر دیا گیا، جہاں اسے ایک پارک میں، ایک نوجوان نے قتل کر دیا۔ اس طرح میں گرمیوں میں باآسانی دوبارہ تبریز پلٹ سکا۔

منبع: باقری، علی، خاطرات 15 خرداد تبریز، ماجرای آغاز انقلاب اسلامی در تبریز، ج 2، تهران، حوزه هنری، 1374، ص 48 ـ 50.

 

کل  الفاظ:           654


15khordad42.ir
 
صارفین کی تعداد: 606



http://oral-history.ir/?page=post&id=11392