جلال الدین فارسی کی یادداشتوں سے اقتباس

ڈاکٹر مصدق کے خلاف بغاوت کا احوال

ترجمہ: فاطمہ سادات

2023-08-16


۱۹ اگست ۱۹۵۳ کی صبح مشہد کی سڑکوں پر دو ہلکے ٹینکوں کے ساتھ کچھ افسر اور اوباش افراد نکل آؕئے۔ ان میں سے کچھ نے بغاوت کے سرکردہ افراد کی ایما پر دکانوں اور ان سینما گھروں کو لوٹنا شروع کردیا جنہوں نے دو دن پہلے شاہی ترانے چلانے سے انکار کردیا تھا۔ ایک بک اسٹور، جوتوں کی ایک دکان وغیرہ بھی جلنے والی دکانوں میں شامل تھے۔ لوٹ مار کرنے والوں نے قیمتی کتابیں اور سینما گھر کی کرسیاں سڑک پر رکھ کر بیچنا شروع کردیں تاکہ دوبارہ جا کر مزید چیزیں چوری کرسکیں۔

انہی بغاوت کرنے والوں میں فدائیان شاہ نامی دستے کے سرکردہ افراد اور بہائیوں کے سرکردہ افراد بھی شامل تھے جنہیں آسانی سے پہچانا جا سکتا تھا۔ میں رات ہوتے ہی کاظم احمد زادہ کے گھر گیا جنہوں نے باغی افراد کے مقابلے میں عوام کو گھروں سے نکلنے کی دعوت دینے کے لئے ہینڈ بل کا متن تیار کر رکھا تھا انہوں نے مجھ سے درخواست کی کہ اس کے کچھ ہزار نسخے چھپوا کر شہر بھر میں تقسیم کروا دوں ۔ مجھ سے اس سلسلے میں مدد کرنے والوں کےبارے میں سوال کیا تو میں نے جمیعت مردم ایران کے اراکین کا تذکرہ کیا۔ اگلے دن جمیعت مردم ایران کے سربراہ کے گھر پہنچا تو معلوم ہوا کہ وہ گھر سے فرار کرچکے ہیں۔ اور اسکے بعد کبھی بھی ان کا اتا پتہ معلوم نہیں ہوسکا۔ کاظم احمد زادہ سے اگلی ملاقات میں سارا احوال سنایا اور اس گفتگو میں طے پایا کہ اب غیر منظم طریقے سے اس کام کو آگے بڑھایا جائے۔

دو دن بعد امتحانات میں شرکت کے بہانے میں نے تہران یونی ورسٹی کا رخ کیا۔ تہران کے شریف اور آزادی طلب عوام حیرت میں مبتلا نظر آئی۔ شاہ کے حامی جشن منا رہے تھے اور شعبان بی مخ نامی بدمعاش ایک کھلی چھت کی گاڑی میں ہاتھ میں پستول لہراتا ہوا شاہ زندہ باد کے نعرے لگاتا ہوا گذر رہا تھا۔ اس نے تہران کے مرکزی بازار کے سامنے رک کر عوام کو گالیاں دینی شروع کردیں کہ تم لوگ مصدق کے حامی ہو وغیرہ وغیرہ۔

تہران کے سبزہ اسکوائر پر اخبار بیچنے والوں کی آوازیں میرے کانوں میں پڑیں کہ روم کی ایک بڑی مذہبی شخصیت نے شاہ کو خط لکھا ہے۔ ایک واعظ ریڈیو پر لوگوں کو نصیحت کررہے تھے اور اپنی پوری کوشش کررہے تھے لوگوں پر یہ ثابت کرسکیں کہ تہران کے عوام مصدق کے بالکل بھی حامی نہیں ہیں بلکہ شاہ اور باغیوں کے طرف دار ہیں۔  


oral-history.ir
 
صارفین کی تعداد: 619



http://oral-history.ir/?page=post&id=11389