امیر سعید زادہ کے واقعات کا ایک حصہ

ہم سے رابطہ

انتخاب: فائزہ ساسانی خواہ
ترجمہ: صائب جعفری

2023-08-15


کوملہ[1] اور  جمہوریت پسندوں کے درمیان جھگڑا ہمیشہ ہی رہا۔  یہ ایک دوسرے کی چھاؤنیوں پر حملہ آور ہوتے رہتے تھے۔ علاقائی فوجیوں  اور یہاں کے رہائشیوں کو ایک بار موقع ملا تو انہوں نے راتوں رات جمہوریت پسندوں اور کوملہ کے ٹھکانوں کو آر پی جی سے بھون ڈالا اور انہیں یہ  معلوم نہیں ہواکہ حملہ کس نے کیا ہے۔ ان حملوں کی وجہ سے کوملہ اور جمہوریت پسندوں کے درمیان ایک نئی جھڑپ کی بنیاد پڑ گئی۔  اس قسم کی جھڑپوں کے لئے کردی مسلمانوں کے لئے نمونہ عمل ’’سورہ باوہ‘‘ کے آپریشنز بنے تھے۔ سورہ باوہ، باوہ  کا ایک رہائشی تھا۔

یہ مسلمان پیشمرگ اکیلا ہی جمہوریت پسندوں اور کوملہ کے کئی ایک مورچوں کا آر پی جی کا نشانہ بناتا۔ یہ آپریشن اس طرح سے  کرتا تھا کہ جمہوریت پسند اور کوملہ والے ایک دوسرے پر الزام دھریں اور یہ مسلمان پیشمرگ اپنا کوئی نشان نہیں چھوڑتا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ یہ دونوں جماعتیں ایک دوسرے سے جھڑپوں میں مصروف رہتیں اور ایک دوسرے کی تنصیبات کو نقصان پہنچاتی رہتی تھیں۔

اس شہید کی یاد میں  نلاس اور دادان کے درمیان  ملا شیخ کے نام سے مشہور علاقہ میں ایک ’’درخت سورہ‘‘ موجود ہے۔ بالاخرہ  ایک روز گرفتار ہوگیا  اور اس کو درخت سے باندھ کر گولیوں سے چھلنی کر دیا گیا۔ وہ اکیلا ہی یہ کام کیا کرتا تھا۔ اس کا دل امام خمینیؒ اور ان کے نظام کے ہمراہ تھا۔ وہ بہت سے آپریشنز میں بھی شریک رہا۔ اس کو لوگ غیبی امداد کے نام سے بھی موسوم کرتے تھے۔ وہ ضد انقلاب عناصر کے سروں پر یکدم نازل ہوجایا کرتا تھا۔ اس نے اپنے  کاموں کی وجہ سے کئی بار جمہوریت پسندوں اور کوملہ والوں کو آپس میں لڑا کر ان کی توانائیوں کو ضعیف کیا تھا۔

کوملہ والے جمہوریت پسندوں کو سازشی کہتے تھے اور ان کو قاسملو اور حکومت کے درمیان ہونے والے مذکرات پر اعتراض تھا۔  جمہوریت پسند کوملہ والوں کو شوروی کہتے تھے اور یوں دونوں ایک دوسرے سے دست و گریباں رہتے تھے۔ انقلابی سپاہی اور فوج بھی ان کے انہیں اختلافات سے فائدہ اٹھاتی تھی اور ان کے انہی اختلافات کو ہوا دے کر ان کی نابودی کے لئے زمین ہموار کرتی تھی۔

انقلاب مخالف شگردیوں کو میں اچھی طرح جانتا ہوں خدا توفیق دے کہ میں ان کی سازشوں کو موقع پر ہی ناکارہ  بنا سکوں۔ محمد امین بیورائی جو جمہوریت پسندوں کا ایک رکن ہے اور عراق کے استحبارات کے لئے کام کرتا ہے مجھے پیغام بھیجتا ہے کہ :  عراق اس بات پر راضی ہے کہ تمہارے وزن کے برابر تمہیں ڈالرز  اور دینا دے بس شرط یہ ہے کہ جو کام تم سپاہ کے لئے کرتے ہو وہ عراق کے لئے کرو۔‘‘

میں اسے جواب دیتا ہوں: میں اپنے وطن کی مٹی کے بدلے  مال و دولت یہ ڈالرز اور دینار نہیں لوں گا۔‘‘

اس وقت میرا ایمان اور ضمیر اور قوی ہوجاتے ہیں جب میں یہ سمجھ لیتا ہوں کہ میں نے درست راستے کا انتخاب کیا ہے۔ میرے ساتھی ایک ایک کر کے شہدا کے کارواں سے ملتے رہے۔ حاجی احمد علی پور ، مجلس شورائے اسلامی میں سردشت کے نمائندہ تھے ۔ وہ تاکستان سے گذر رہے تھے کہ ایک مشکوک حادثہ پیش آیا اور عجیب طریقہ سے ان کی گاڑی الٹ گئی اور وہ اپنے چار ساتھیوں کے ہمراہ  ۴ اگست ۱۹۸۴ کو اپنے شہید بیٹے رحمت اللہ علی پوری سے جا ملے۔[2]

 

 

 

 

 


[1] کردستان ایران کی ایک کمیونسٹ سیاسی جماعت 

[2]  گلزار راغب، کیانوش، امیر سعید زادہ کے واقعات، ص ۱۱۰، طبع سوم، ناشر: سورہ مہر تہران ۲۰۱۸


oral-history.ir
 
صارفین کی تعداد: 632



http://oral-history.ir/?page=post&id=11383