طالب علم جو دوسروں کی ٹوہ میں رہتا تھا
تحریر: محمدی قبادی
ترجمہ: محب رضا
2023-08-10
1348 میں یہ خوش آئند اتفاق ہوا کہ مجھے یونیورسٹی جانے کا موقع ملا اور طلاب سے زیادہ رابطہ قائم ہوا۔ میں نے محسوس کیا کہ میں نے جو سوچا تھا اس کے ایک قدم اور قریب آ گیا ہوں، اور یہ سوچ اس کے سوا اور کچھ نہیں تھی کہ یونیورسٹی کی تحصیلات کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کے ساتھ مزید رابطہ برقرار کر سکوں اور تاثیر گزار ہو سکوں۔ مجھے مشہد یونیورسٹی کی فیکلٹی آف سائنسز کے شعبہ کیمسٹری میں داخلہ ملا اور میں پڑھائی کے دوران، طلباء کے درمیان اچھے دوستوں سے آشنا ہوا۔ اگرچہ یونیورسٹی آنے سے قبل بھی سٹوڈنٹس میں، میرے دوست تھے، لیکن اب ہم دوست، ہم جماعت اور ساتھی طالب علم تھے۔
کچھ عرصے بعد، طالب علموں میں سے چند دوستوں نے تفسیر قرآن کی کلاس منعقد کرنے کا فیصلہ کیا۔ مجھے پہلے سے ہی اس کا تجربہ تھا، لیکن اس بار ہماری تفسیر کی کلاس کا دوہرا مقصد تھا۔ ایک تو خود تفسیر کا موضوع تھا جو میرے اور میرے دوستوں، دونوں کے لیے اہم تھا اور دوسرا یہ کہ یہ تفسیر کی یہ کلاس، ولایت فقیہ کی ابحاث کی تشریح اور توضیح کے لیے بھی بہانہ بن سکے۔ اس زمانے میں، امام خمینی کا ولایت فقیہ (اسلامی حکومت) کا کتابچہ، جو کہ نجف میں اس موضوع سے متعلق ان کے دروس کا مجموعہ تھا، مجھ تک پہنچا اور میں نے بھی ضروری سمجھا کہ اس کے بیان اور وضاحت کی کوشش کروں؛ البتہ اس کتابچہ کے حوالے سے میری کوشش صرف اس کلاس تک محدود نہیں تھی، جو خفیہ طور پر اور تفسیر قرآن کی کلاس کے ذیل میں ہو رہی تھی، بلکہ میری کوشش تھی کہ اس کی کاپیاں زیادہ سے زیادہ پھیلائی جائیں، جس پر میں آئندہ تفصیل سے بات کروں گا۔ البتہ یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس سرگرمی کا بڑا حصہ، انہی طالب علم دوستوں کی مدد سے انجام پایا۔
جیسا کہ میں نے ذکر کیا، ہماری تفسیر قرآن کی کلاس، آجکل کی تعبیر میں اسٹریٹجیکل اور ٹیکنیکل دونوں طرح کا کام تھا۔ یہ ایک اسٹریٹجک کام تھا، کیونکہ ہمارے لیے قرآن کی تفسیر کی بہت اہمیت تھی اور ہم نے اس کی منصوبہ بندی کی تھی۔ اب مجھے یاد نہیں کہ ہم نے کس سورت سے آغاز کیا تھا، لیکن یہ مجھے یاد ہے کہ ہمارے دروس کا منبع، تفسیر المیزان تھی۔ جلسات انہی طلاب میں سے ایک کے گھر پر منعقد ہوتے اور ہماری تعداد دس سے پندرہ افراد کے درمیان ہوتی تھی۔ یہیں پر ولایت فقیہ کے کتابچے کی وضاحت کے لیے بھی گفتگو ہوتی۔ پہلے ولایت فقیہ کے کتابچے پر بحث ہوتی اور پھر قرآن کی تفسیر۔ سہ پہر تین سے چار بجے کے درمیان مٹھی بھر قابل اعتماد طلاب جلسے کی جگہ پر جمع ہوتے اور کلاس کا انعقاد ہوتا اور پھر چار سے پانچ بجے تک تفسیر کی کلاس ہوتی، جس میں پچھلی کلاس کی نسبت زیادہ تعداد شریک ہوتی۔
ہم پہلی کلاس کے چند شرکاء نے آپس میں یہ طے کیا تھا کہ دوسری کلاس، جو کہ تفسیر کی تھی، کے شرکاء کو کسی شک میں مبتلا ہونے سے بچانے کے لیے اپنی بحث ختم کرنے کے بعد، ان کے آنے سے پہلے، سیڑھیوں کےنیچے چھپ جائیں گے اور نئے دوستوں کی آمد کے بعد دوبارہ داخل ہوں گے تاکہ وہ شک نہ کریں اور یہ نہ کہیں کہ "ہم جب بھی آتے ہیں تو کچھ خاص افراد ہم سے پہلے وہاں موجود ہوتے ہیں"۔ یہ سب چیزیں حفاظتی اقدامات کی خاطر اور امن و امان کو برقرار رکھنے کے لیے تھا۔ بہرصورت، مسئلہ یہ تھا کہ "ولایت فقیہ" کا کتابچہ رکھنا تک جرم تھا، جبکہ ہم تواس پر بحث کرتے تھے۔اگرچہ ان تمام احتیاطوں کے باوجود ہم پکڑے گئے۔ انہی دنوں، گرفتاری سے پہلے، کئی بار اسی گھر کے ارد گرد جہاں جلسہ ہوتا تھا، میں نے دیکھا کہ کوئی شخص دیوار سے ٹیک لگائے، جیسا کہا جاتا ہے، پماری ٹوہ میں لگا ہوا تھا۔ بظاہر، وہ ایک طالب علم تھا، یا شاید نہیں تھا! البتہ وہ ساواک کی جانب سے مامور تھا کیونکہ گرفتاری کے بعد ساواک اور جیل آنے جانے کے دوران میں نے اسے دیکھا تھا۔
میں نے جب بھی اس شخص کو وہاں کھڑے دیکھا، میں نے خیال کیا کہ وہ ہماری نقل و حرکت پر نظر رکھے ہوئے ہے اور لازماً رپورٹ کرے گا۔ میں نے اپنے آپ سے کہا: "کیا وہ جانتا ہے کہ ہم کیا کرتے ہیں؟! یا وہ نہیں جانتا؟!" پھر میں نے اپنے آپ سے کہا: "اگر وہ جانتا ہے تو جانتا رہے، میں اپنا کام نہیں روکوں گا، کیونکہ اگر میں رک گیا تو کوئی فائدہ نہیں ہوگا کیونکہ وہ سمجھ چکا ہے کہ ہم کیا کر رہے ہیں، اور اگر اسکو ابھی پتہ نہیں چلا ہے، تو ہم اپنا کام اسی طرح جاری رکھتے ہیں"۔
اس شخص کے علاوہ، بعد میں اسی کلاس کے کچھ طالب علم دوستوں نے بتایا کہ فلاں، جس کا نام اب میں بھول گیا ہوں، ساواک کے جاسوسوں میں سے ایک ہے اور جلسات میں شرکت بھی کرتا ہے۔ میں نے اس بارے میں سوچا تک نہیں تھا۔ حقیقت میں، اس امکان کی توقع بھی نہیں کی تھی۔ انقلاب کی فتح کے بعد یہ ثابت ہوا کہ ایسا ہی تھا۔
منبع: قبادی، محمدی، یادستان دوران: خاطرات حجتالاسلام والمسلمین سیدهادی خامنهای، تهران، سوره مهر، 1399، ص 240 - 242.
15khordad42.ir
صارفین کی تعداد: 1463
http://oral-history.ir/?page=post&id=11370