مراجع تقلید کی جاسوسی کے لیے تعاون کی دعوت

ترجمہ: محب رضا

2023-05-24


قزل قلعہ جیل کی ایک دلچسپ یاد، گرفتاری کے چند دنوں بعد کی ہے۔ ساواک کا ایک افسر میرے پاس آیا اور بولا: "کیا تم آزادی چاہتے ہو؟"

میں نے کہا: "ہاں! بھلاکوئی ہے، جو یہاں رہنا چاہتا ہو؟!"

وہ پھر بولا: "ہم تمہیں چھوڑ دیں گے، لیکن ایک شرط ہے!"

میں نے کہا: "کیا شرط؟"

بولا: "بالآخر تمہارا قم کے مراجعین سے رابطہ ہے، ایسا یقیناً نہیں ہو سکتا کہ تمہارا ان سے کوئی تعلق نہ ہو۔ ہم تم سے چاہتے ہیں کہ کبھی کبھار اس فون نمبر کے ذریعے وہاں کی کچھ خبریں اور معلومات ہمارے لئے فراہم کر دیا کرو!"

درحقیقت وہ گستاخ چاہتے تھے کہ میں ساواک کے لیے، قم کے مراجع تقلید کی جاسوسی کروں۔ان کی آفر اس قدر شرمناک اور بھیانک تھی کہ میرا دل چاہا وہیں پر انہیں سیدھا سیدھا سخت جواب دے دوں۔ لیکن میں نے اپنے غصے پر قابو پایا اور اسی میں مصلحت سمجھی کہ انہیں عقلمندانہ جواب دوں۔

میں نے جواباً کہا: "یہ کام میرے لیے مشکل ہے! اوپر سے میرا کام منبر پر خطاب کرنا ہے۔ میں نہ ادھر کا رہوں گا اور نہ ادھر کا۔"

اس نے کہا: "یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے! اس کے علاوہ، ہم تمہیں تنخواہ اور انعام بھی دیں گے!"

میں نے کہا: "چلو میں تمہیں ایک قصہ سناتا ہوں، شاید اگر تم میری یہ آپ بیتی سن لو تو مجھ سے ایسی توقع نہ رکھو!"

اس نے پوچھا: "کون سا قصہ؟"

میں نے کہا: "میں اندازاً سولہ سال کا تھا کہ میرے والد کا انتقال ہوا اور وہ اپنے پیچھے سات افراد کا کنبہ چھوڑ گئے۔ میں امام حسین  علیہ السلام کے گھر میں مجلس و مصائب پڑھنے کے علاوہ اور کوئی کام نہیں جانتا تھا اور اس کے علاوہ میری آمدنی کا کوئی ذریعہ نہیں تھا۔ لیکن الحمدللہ اب امام حسین علیہ السلام کی برکت سے،میرے پاس سب کچھ ہے۔ میں نے اپنا آبائی گھر بیچ کر ایک بہتر گھر خرید لیا ہے۔ میری زندگی اچھی اور خوب گزر رہی ہے۔ اور میں نے اپنے دو بھائیوں کی شادی بھی کر دی ہے۔ میں نے اپنی بہن کو بھی بیاہ دیا ہے۔ مختصر یہ کہ آج تک میری زندگی اچھی چل رہی ہے۔ تو مجھے کیا ضرورت ہے کہ کسی اور جگہ سے روزی تلاش کرنے کی کوشش کروں؟ اگر مجھے بغیر کسی قید و شرط کے رہا کردو تو کیا ہی بات ہے، ورنہ یہ سیل میرے لیے کسی بھی اور جگہ سے بہتر ہے!"

جب ساواک افسر نے میری یہ بات سنی تو غصے میں آگیا، ایک سپاہی کو بلایا اور اس سے کہا: "اس آدمی کو کوٹھڑی میں ڈال دو!"

کچھ عرصہ گزر گیا اور میں ابھی تک قزل قلعہ جیل میں تھا۔ آخر کار 16-17 دنوں کے بعد آیت اللہ گلپائیگانی نے اپنے داماد جناب علوی کو آیت اللہ خوانساری کے گھر بھیجا اور آخر کار ان کے وسیلے سے مجھے رہا کر دیا گیا۔

 

منبع: آل طه: سرگذشت و خاطرات، تدوین غلامرضا شریعتی‌مهر «کرباسچی»، تهران، چاپ و نشر عروج، 1397، ص 76 - 77.

 

 


22bahman.ir
 
صارفین کی تعداد: 703



http://oral-history.ir/?page=post&id=11244